پچھلے چند ماہ سے جاری
لوڈشيڈنگ نے عوام کو مجبورکر ديا ہے۔اب يوپی ايس اورجنريٹرلوگوں کے
لئےضرورت بن گئےہيں۔کيونکہ يہاں بجلی صرف چند گھنٹوں کے لئے ہی آتی
ہے۔ہمارے حکمران ہمارے ساتھ بجلی کےبحران پرکھيل کھيل رہے ہيں اور ہماری
بےحسی کا حال يہ ہے کہ ہم بغيربجلی کے بل بھی ادا کر رہےہيںاور جنريٹرکے
لئے مہنگے داموں پيٹرول بھی خريد رہے ہيں۔اگر حکمران اس مسئلے کو حل کرنا
چاہيںتوکرسکتے ہيں۔اگر ايک بارکالا باغ ڈيم اور ديگرڈيم بنا کر ديکھ ليں تو
کيا حرج ہے۔شائد اس سے ہی ہماری بجلی کی ضرورت پوری ہو جائے۔ہمارے ملک کا
يہ حال ہے کہ اگر ہمارے پاس بجلی نہيں تو ہم نے اس کے متبادل طريقے
ڈھونڈلئے ہيں۔اور اس وجہ سے کوئی بھی بجلی کے بحران کے بارے ميں سنجيدگی سے
نہيں سوچتا۔لہذا حکمران باتيں کرنے کی بجائےبجلی کے بحران کو دور کريں۔جس
طرح ہم نے اپنی قومی ائيرلائن ،ريلوے،سٹيل مل،قومی صنعتوں کو اپنے ہاتھوں
سے تباہ کر ديا اسی طرح واپڈا کو بھی ہم اپنے ہاتھوں سے تباہ کر ديں گئے۔
کسی نے بھی يہ جاننے کی کوشش نہيں کی کہ وہ کونسے عناصر ہيں جو ہمارے ملک
ميں بجلی کے بحران کے ذمہ دار ہيں۔وہ کون سے لوگ ہيں جو ہمارے ملک ميں بجلی
فراہم کرنے کی بجائے يوپی ايس اورجنريٹر فراہم کرکے کروڑوں روپے منافع کما
رہے ہيں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لاہور ميں بارہ گھنٹے کی بجلی کی بندش نے عوام کو شديد
اذيت ميں مبتلا کر ديا ہے۔
نہ دن کو سکون ہے اور نہ رات کو۔۔۔۔۔ بجلی کی اس بندش کی وجہ سے ہر کوئی
پريشان ہے۔لوگوں کے کاروبار متاثر ہرنے کے ساتھ ساتھ طلبہ کی پڑھائی بھی
متاثر ہورہی ہے۔حکمرانوں کو تو خبر ہی نہيں کہ عوام کس مشکل کی زندگی گزار
رہے ہيں۔اگر تمام حکمران مل کے بجلی کے اس مسئلے کو حل کرنا چاہيں تو کر
سکتے ہيں ليکن يہاں ہر کوئی اپنی ہی مرضی سے چلتا ہے انہيں کوئی فرق نہيں
پڑتا کہ عوام کس مشکلات کا سامنا کر رہی ہے۔
آخر کب تک عوام اسی طرح لوڈشيڈنگ برادشت کرتی رہے گی؟؟؟ آخر کب عوام کو
سکون ملے گا؟؟ کب کوئی حکمران پاکستان کے با رے ميں سنجيدگی سے سوچے
گا؟؟؟؟؟ آخر کب تک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائرہ غفور کيانی
لاہورگريژن يونيورسٹی |