میقاتی نظام مذاکرہ ،مباحثہ اور نفاذ پر ورکشاپ اور ثقافتی پروگرام کا انعقاد

انسان مادی سطح پر جیسے جیسے ترقی کر تا جارہا ہے اس کی ضروریات زندگی بھی بڑھتی جا رہی ہیں اور اسی لیے کہا جاتاہے کہ’ ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے‘‘ ۔ یعنی جب انسان کی ضرورتیں بڑھیں گی تووہ اپنی ضرورتوں کو پورا کر نے کے لیے چیزیں بھی ایجاد کرے گا۔ اس ضمن میں مجھے کو ئی تفصیلی گفتگو نہیں کرنی بلکہ سمینار کی ضرورت کیوں ہے اور اس کی ہماری زندگی میں کتنی اہمیت ہے اس پر سر سری طور پر روشنی ڈالنی ہے۔ آج زندگی کے جو بھی شعبے ہیں تقریباً سب اپنی شناخت کو منظر عام پہ لانے کے لیے سمینار منعقد کر تے ہیں ۔ آج بڑی بڑی کمپنیاں اپنے پروڈکٹ کو عام کرنے کے لیے اپنے ایجنٹوں کے لیے سمینار کا اہتمام کرتی ہیں جس کی باضابطہ فیس بھی لی جاتی ہے ۔ سمینار کے نام پر پوری ایک تجارت کا سلسلہ بھی عام ہے لیکن یہاں یہ عرض کروں کہ ریسرچ اسکالروں خاص طور سے اردو ریسرچ اسکالروں کے لیے علمی و ادبی سمینار کتنے اہم ہیں اس پر مجھے روشنی ڈالنی ہے ۔ جو بھی بھائی ریسرچ کر رہے ہیں ان کو چاہئے کہ وہ زیادہ سے زیادہ سمیناروں میں شرکت کریں اور پڑھے جانے والے مقالات اور ہونے والی تقاریر کو بغور سنیں۔ یہ بات اس لیے کی جا رہی ہے کہ آج ہم سمیناروں اور ادبی محفلوں میں شرکت کرنے سے گریز کر تے ہیں یا ان کی اہمیت و افادیت سے لاپروائی برت رہے ہیں جبکہ اس کے بہت فائدے ہیں۔ پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ آپ کو ایک دن میں کئی اہم قلمکاروں ، ناقدوں، محققوں کے خیالات معلوم ہو تے ہیں ۔ مختلف خیالات و نظریات سے واقفیت بھی ہوتی ہے اور اس کے نتیجہ میں ہمارے خیالات و نظریات کو تقویت ملتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے اندر لکھنے پڑھنے کا جوش و جذبہ بھی بیدار ہوتا ہے۔ اگر آپ قلمکاروں ، نقادوں ، محققوں سے ملتے ہیں توسب سے بڑا فائدہ یہ ہو سکتا ہے کہ آپ ان کے رابطہ میں آجائیں گے جو آپ کی مدد کر سکتے ہیں ۔ کئی سوالات ایسے ہوتے ہیں جن کا جواب کتابوں میں نہیں ہوتا وہ آپ ان سے پوچھ سکتے ہیں ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سمینار میں شرکت کے متعدد فائدے ہیں۔ آپ کو اپنی زبان و ادب سے کتنی دلچسپی ہے اس کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ کچھ ریسرچ اسکالر ز صرف اپنے مو ضوع تک محدود رہتے ہیں جبکہ انٹر ویو میں صرف مو ضوع کے متعلق ہی سوالات نہیں ہوتے ۔ بہر کیف اگر ہمیں زندگی میں کچھ کرنا ہے اور ادب میں مقام بنانا ہے تو سمیناروں میں شرکت بہت ضروری ہے۔
وطن کا تصور بہت گہرا ہے ، بہت پیچیدہ بھی عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ وطن ایک ملک کا نام ہے، ایک ریاست کانام ہے، ایک قوم کا نام ہے،ایک مشترکہ تہذیب اورلسانی وحدت کانام ہے، جغرافیائی حدود کانام ہے۔ جس میں پہاڑ ہیں، جنگل ہیں، سمندر ہیں، دریا ہیں، پھل ہیں، پھول ہیں، مختلف رسومات اوررواج ہیں، مختلف مذاہب ہیں، مختلف اعتقادات و نظریات ہیں، مختلف زبانیں ہیں، مختلف کلچرہے۔ وطن ہماری جائے پیدائش سے عبارت ہے۔ وطن ہمارے آباؤ اجداد کی جائے پیدائش سے بھی عبارت ہے۔
وطن کا تصور ایک اعتقاد ہے، جس میں وطن کی ہر شئے سے محبت ہوتی ہے ۔وطن کی خاک کا ہر ذرہ دیوتا نظر آتا ہے۔ آزاد جینے، آزاد رہنے اور آزاد پنپنے کی خواہش ہوتی ہے۔ یہ اعتقاد جب پختگی اختیار کرلیتا ہے تو وطن پر مرمٹنا ایک کھیل بن جاتاہے۔

تعلیم کا اہم مقصد انسان کو اپنی سوسائٹی میں کامیاب اور بامقصد ممبر بنانا ہے۔ تعلیم جو انسان میں ایسی صلاحیت پیدا نہ کرسکے کبھی مثبت اور بامقصد تعلیم نہیں کہی جاسکتی۔ ہر ملک کے کچھ اہم تقاضے اورحالات کے پیش نظر نصاب تعلیم میں مضامین اورموضوعات کا انتخاب کیا جاتاہے۔ جسے پڑھ کر بچہ اس طرح عمل پیرا ہوسکے کہ اس کا ہر عمل ملک وقوم کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔

ہمارا ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے جس میں مختلف تہذیب اورمذاہب کے لوگ بستے ہیں جہاں مختلف تہوار ہوتے ہیں ۔مختلف مراسم کی ادائیگی ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں مل جل کر رہنے کی طاقت قوت برداشت اور دوسروں کے ساتھ تعلقات استوار رکھنے کی صلاحیت پیدا کرنا ملک وقوم کا اہم تقاـضہ ہے۔ اس کا حصول تاریخ، علم تمدن اورمعاشرت کے مطالعہ سے کیاجاتاہے۔ تاریخ درحقیقت پرانے واقعات اور حقائق کا ریکارڈ ہے۔ جیسی تبدیلی ملک کے ڈھانچہ میں ہوتی ہے اور اس کا اثر انسان کے ذہن، عادات خیالات اورسماجی اقدار پر پڑتا ہے۔ کم وبیش تبدیلی ویسی ہی ہوتی ہے جیسی اس کے قبل کے دور میں ہوچکی ہے۔ اس لیے یہ کہاوت ہمیشہ صادق آتی ہے کہ تاریخ اپنے کو دہراتی ہے۔ اوریہی بہت ہے کہ ہم موجودہ دور کو گزشتہ حالات کے ذریعہ سمجھتے ہیں اس لیے یہ ضروری ہے کہ تاریخ تمدن اور معاشیات کے مضامین اس انداز سے پڑھائے جائیں جن سے سماجی قدروں کی وقعت وطن پرستی ، بھائی چارگی،صلح پسندی، بنی نوع انسان کے محبت اورباہمی میل جول کے علمی مواقع اورحالات نمایاں رہیں۔ اگر تاریخ کو محض پرانے واقعات تاریخ کی صورت میں پڑھا یاگیا تو ان مقاصد کا حصول ہو نہ سکے گا اور یہ مضامین ذہنی بالیدگی کا سبب نہیں بلکہ عارضی مسرت یا نفرت کا سبب بن کر رہ جائیں گے۔

تاریخ مختلف جنگ کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ لیکن جب یہ واقعات پڑھ لیے جاتے ہیں تو ان کا اصل مقصد معلم اور متعلم دونوں کے ذہن سے محو ہوجاتاہے اور یہ لڑائی دوراجاؤں یا دوبادشاہوں کی باہمی جنگ بن کر رہ جاتی ہے اور بجائے اس کے کہ اصل سبب پر زور دیا جائے جنگ کے وجوہ وحالات کا مکمل جائزہ لیا جائے ۔ضروریات ملک اور حالات کے تقاضوں سے بحث کی جائے حب الوطنی انسانی محبت ابھارے جائیں۔ یہ واقعات ہمیں ایک فریق کے خلاف جذبات پیدا کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ تاریخ کے ہر واقعہ میں ملک دوستی وطن پرستی بھائی چارگی، باہمی میل جول، قوت برداشت اور ملک کے غداروں کے خلاف نفرت کا جذبہ پوشیدہ ہے۔

ان جذبات کو پیدا کرکے ہم مقاصد کا حصول بڑی حد تک کرسکتے ہیں۔ اور ایک اہم تقاضہ پورا ہوسکتا ہے۔ ملک جن حالات سے گزر رہا ہے اس میں بے روزگاری ایک نمایاں چیز ہے۔ تعلیم اورنصاب تعلیم کے سامنے بے روزگاری سے نپٹنا وقت کا ایک اہم تقاضہ ہے۔حکومت ہندنے اس کے پیش نظر تعلیم کوزیادہ کارآمد بنانے کی کوشش کی ہے اور سائنس کو تقریباً ہر درجہ میں ثانوی تعلیم تک لازمی قراردیاہے۔ یہ قدم بہت حد تک کارآمد ہے۔ لیکن بے روزگاری کی عام اور خطرناک وبا سے نپٹنے کے لیے اب بھی کمزور ہے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ ٹیکنیکل تعلیم کی بنیاد سائنس ہے۔ سائنس وقت کی اہم ضرورت ہے لیکن محض سائنس کے بنیادی اصول سیکھ لینے سے عملی اہلیت حاصل نہیں ہوتی۔ ضرورت ہے کہ سائنسی اصول پر مبنی پیشہ وارانہ تعلیم بھی ہر درجہ میں تدریجی طور پر پڑھائی جائے۔ یہ خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ پیشہ کا تعلق بچہ کے رجحان سے ہوتاہے۔ ایک بڑھی جو ہر بنائی چیز میں خوبصورتی اور جازب نظری کا خیال رکھتا ہے ،لازمی طور پر سائنس کے بنیادی اصولوں پر قادر نہیں ہوتا۔ یہ ہنر اس نے اپنے رجحان اورمشق سے سیکھا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی پیشے کے حصوں میں رجحان اورمشق لازمی چیز ہے۔ موجودہ نصاب تعلیم میں پیشہ وارانہ نصاب کا شامل کیا جانا اور وقفہ وقفہ سے طالب علموں کے رجحان کا جاننا اورجحان کے تحت تاریخی تعلیم دنیا بڑی حد تک اس تقاضہ کو پورا کرسکتا ہے۔

موجودہ دور میں طلبا کا انتشار انتہائی خطرناک صورتحال کا حامل ہے۔ یہ انتشار ہندوستان گیر نہیں عالم گیر ہے۔ یہ بڑی تشویش ناک صورتحال ہے۔ طلبا میں انتشار پیداہونے کے بہت سے وجوہ ہیں جن میں سے دوزیادہ اہم کہے جاسکتے ہیں۔ ایک حصہ غیر اطمینانی صورتحال ہے جس سے بچہ ہر وقت دوچار رہتاہے۔ طالب علم سب کچھ پڑھنے کے باوجود مطمئن نہیں اوراپنے اس انتشار کو تخریبی کارروائیوں کے ذریعہ آسودہ کرنا ہے۔ یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ آخر بچہ کیوں پڑھنے اور تعلیم حاصل کرنے کے باوجود مطمئن نہیں ہے اس کے جواب میں سوائے اس کے اور کیا کہاجاسکتا ہے کہ جو علم وہ حاصل کررہا ہے وہ روایتی طور پر علم تو ہے کہ لیکن اس سے بچہ کو یہ اطمینان نہیں ہے کہ اس کے سہارے وہ کسب معاش حاصل کرسکے گا دوسرے یہ کہ یہ علم اسے اخلاقی بنیادوں پر نہیں ملتا۔ اسی حالت میں بچہ تخریبی کارروائیوں کے سہارے اپنے کو ممتاز کرکے حصول مقاصد کی کوشش کرتا ہے اور سوسائٹی میں اپنی منفی قدر کے ذریعہ اہمیت برقرار رکھتا ہے۔ اس طرح سے احساس کمتری پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے۔

دوسری اہم وجہ سوسائٹی کی سماجی ضرورتوں اورافراد کی اقتصادی حالت میں پایاجانے والا تفاوت ہے جب انسانی ضرورت اقتصادی کشمکش سے ٹکراتی ہے تو ذہنوں میں غم وغصہ کی لہر دوڑ جاتی ہے جہاں پر انسان کی انا مغلوب یا ملوث ہو وہاں غصہ آنا اور نفسیاتی بچاؤ کی ضرورت اختیار کرنا گزیر ہوتاہے۔ دوسری لفظوں میں انسان جب احساس کمتری سے دوچار ہوجاتا ہے تونفسیاتی طور پر بچاؤ یادفاع کرتا ہے ۔یہی وہ صورتحال ہے جس کے دباؤ کے تحت آج کل نوجوان ان علمی اورسماجی اقدار کے خلاف آواز اٹھارہے ہیں اوراپنے والدین کے اپنائے ہوئے سماجی اقدار سے بغاوت کررہے ہیں اور اس انداز کو ماہرین تعلیم وعمرانیات جنریشن گیپ کانام دے رہے ہیں۔ یہ صورت حال از خود طالب علم اور افراد میں غیر اطمینانی حالت پیدا کرتی ہے اورانتشار کی صورت میں نمایاں ہوتی ہے ۔موجودہ نصاب تعلیم میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ تعلیم بچہ کو حود کفیل بنا سکے اوراس کے ساتھ اس کا خیال رکھنا بھی بہت ضروری ہے کہ ہر دور تعلیم میں اخلاقی تعلیم کا بھر پور انتظام اورنصاب ہو اور یہ تعلیم زبانی نہیں بلکہ باقاعدہ عملی طور پر دی جائے جس کے لیے لازمی کیمپ قرار دیے جائیں تاکہ بچہ عملی طو پر تدریسی طریقہ سے اخلاقی تعلیم حاصل سکے۔ گاندھی جی نے بنیادی تعلیم میں ساری کا محور ایک CRAFTاسی نظریہ کے تحت رکھاتھا کہ بچہ ایک منزل پر پہنچ کر خود کفیل ہوسکے اور ساتھ ہی ساتھ اخلاقی تعلیم بھی حاصل کرتار ہے۔ جب تک ہمارا نصاب تعلیم طالب علموں کی ضروریات اوراخلاقی تعلیم کے خلاف تقاضہ کو پورانہ کرے گا ان میں ایک قسم کا ہیجان پا یا جا تا رہے گا۔

ہمارے ملک نے تعلیم کے میدان میں نمایاں ترقی کی ہے اور ریاستی سرکار اسے ترقی کی شاہراہ پر تیزی سے آگے بڑھارہی ہے ۔پرانے فرسودہ ڈھانچہ کو بدل کر تعلیم کے لیے نئے ڈھانچہ کی تشکیل ہوئی ہے نصاب بدلا گیا ہے ۔ حالت کے پیش نظر اورتبدیلی بھی متوقع ہے۔ بنیادی طو رپر ہم لکھنا پڑھنا اور حساب کی تعلیم نظر انداز نہیں کرسکتے۔ یہ ہماری روز مرہ کی زندگی کو مفلوج کردے گا۔ اسی کے ساتھ نصاب میں پیشہ ورانہ تعلیم کو لازمی قرار دینا ہوگا اور طلبا کے رجحان کا جائزہ لے کر پیشہ کی تدریسی تعلیم دینا ہوگی تب ہی ہم موجودہ تقاضوں اورحالات کے پیش نظر تعلیم کی ذمہ داری سے عہدہ برآہو سکیں گے۔

کروڑی مل کالج،دہلی یونیورسٹی کا شعبہ اردو اردو زبان و تدر یس کے ضمن میں ایک تاریخی اہمیت کا حامل ہے ۔ اس شعبہ سے ڈاکٹر خلیق انجم اور ڈاکٹر کامل قریشی جیسے اکابرین وابستہ رہے ہیں۔آج کل یہاں چار اردو اساتذہ درس و تدریس میں منہمک ہیں ۔تدریس کے علاوہ مشاعرے سمینار طلبا کے انعامی مقابلے اور بیت بازی وغیرہ کے پروگرام بھی یہاں مستقل منعقد کیے جاتے ہیں ۔ پچھلے کئی سالوں سے یہ سلسلہ جاری ہے جس میں ہم کو این سی پی یو ایل اور دہلی اردو اکادمی کا مالی تعاون دستیاب رہا ہے۔

مجوزہ سہ روزہ سمینا ر کو ہم نے اس طرح مرتب کیا ہے کہ بنیادی طور پر ہمارے طلبا کی نصابی ضروریات پوری ہو سکیں۔چونکہ شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی کے طلبا، ریسرچ اسکالر، شعبہ فارسی اور عربی کے طلبا اور اساتذہ وغیرہ بھی ہمارے پروگراموں میں شرکت کرتے رہے ہیں اس لیے ہم یہ کوشش بھی کرتے ہیں کہ ان کی عملی سرگرمیوں اور شوق کی بھی سیرابی ہو سکے ۔ا سی لئے بی۔اے۔اور اعلیٰ ڈگری کورس دونوں ہی کے موضوعات ومسائل کو ہم اس سمینار میں سمیٹنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ چنانچہ ہم نے اردوادب کے جملہ اصناف پر موقر اور معروف دانشوروں اور استادوں کو مجوزہ سمینار میں مقالات پڑھنے کے لئے مدعوکیا ہے ۔

محولہ بالا موضوعات پر بحث و تمحیص شروع کرانے سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہمارے طلبا اور ریسرچ اسکالر قدیم اور جدید شعری و نثری سرمائے کی قدر شناسی، جدید تنقیدی تصورات کی روشنی میں کرنے کی صلاحیت پیدا کر سکیں،علاوہ ازیں ان کے ذہن و مزاج میں تنقیدی و سائنسی شعور پیدا ہو سکے ۔اس مقصد کے لئے ہم مقالوں کے ساتھ ساتھ مقالات پر سوالات اٹھائے جانے کو بھی بنیادی اہمیت دیتے ہیں۔ اس طرح سامع اور مقرر کے درمیان ایک قسم کا ذہنی رشتہ قائم ہوتا ہے اور شکوک و شبہات کا ازالہ بھی ہوجاتا ہے۔
چونکہ ہم علم و ادب کے علاوہ ثقافت کو بھی ذریعۂ اظہار و تہذیب سمجھتے ہیں،اس لیے سہ روزہ سمینار میں دو دن ہم نے ثقافتی پروگراموں کے لئے وقف کئے ہیں جن میں باہر کے فنکار اور ہمارے طلبا دونوں ہی شرکت کریں گے۔ امید ہے کہ مجوزہ سہ روزہ سمینار ہمارے طلبا اور سامعین کے ذہن کو عملی طور پر منور کر ے گا جس سے اردو درس و تدریس کی راہیں روشن ہو سکیں گی۔ ہم مشترکہ طور پر شعبہ اردو کروڑی مل کالج کی جانب سے اس ادبی جلسہ میں دہلی یونیورسٹی کے مختلف کالجز اور دور دراز سے تشریف لائے ہوئے دانشوران حضرات کا دل کی گہرائیوں سے خیر مقدم کر تے ہیں۔

تاریخ عالم کی ورق گردانی سے یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہوجا تی ہے کہ حکومت ہو یانظام ہائے حکومت کا ان میں منتظمین (Adminisrators)کا بڑااہم رول ہوتا ہے ،خواہ وہ منتظمین قومی سطح پر فائز ہوں یا ریاستی سطح پر ، ضلعی سطح کا کوئی مجسٹریٹ ہویا کسی کالج کا پرنسپل،کسی یونیورسٹی کا رجسٹرار ہویا وائس چانسلر یا پرووائس چانسلر ،کسی دارالعلوم کا شیخ الجامعہ ہو یاناظم اعلیٰ، منتظم خواہ چھوٹا ہویا بڑا بہرحال وہ قوم وملت کاایک ذمہ دار فرد ہوتا ہے اوراسی پر قوم کی تعمیر وترقی کا انحصار ہوتاہے۔منتظمین جتنے اچھے ہوں اتنا ہی ملک کا نظام کا اچھا چلتا ہے تعمیری کا م زیاہ ہوتے ہیں امن وسکون کا ماحول بنارہتاہے اور نوجوان طبقہ ترقی کی راہ پر گامزن رہتا ہے اس طرح وہ ملک یا ادارہ خوش حالی کی طرف مسلسل رواں دواں رہتاہے۔اس کے برعکس اگریہی منتظمین اپنی ذمہ داری کو کما حقہ، انجام نہ دیں یعنی انصاف کا دامن چھوڑ دیں ،مظلوم و بے کس کی آواز نہ سنیں ،نوجوان طبقے کی جائز ضروریات کو نظر انداز ،انسانوں کے ہمارے آج کے اس سمینار کواپنی خوبصورت نظامت سے سنوارنے والی عظیم شخصیات کے نام کچھ اس طرح ہیں۔ ساتھ ہمدردی کا رویہ نہ اپنائیں تو ایک معیاری سماج کا شیرازہ منتشر ہوجاتا ہے۔

پروفیسر وویک سنیجا شعبہ ایف ایم ایس اور پرووائس چانسلر دہلی یونیورسٹی، پروفیسر بھیم سین سنگھ پرنسپل کروڑی مل کالج اور پروفیسر ارتضیٰ کریم صدر شعبہ دہلی یونیورسٹی یہ شخصیات، یہ حضرات جہاں ایک اچھے ادیب ،نازک خیال تاریخ داں ناظم اعلیٰ، منتظم ماہر تعلیمات اور دانشور ہیں وہیں ایک اچھے ایڈمنسٹر یٹر بھی ہیں۔

آج کے اس سمینار کا افتتاح جن عالمی شہرت یافتہ ماہر تعلیم کی ہاتھوں ہونا ہے ان کے نام سے آپ لوگ بخوبی واقف ہیں وہ نام ہے عزت مآب محترم پروفیسر وویک سنیجا پرووائز چانسلرصاحب دہلی یونیورسٹی ہم صمیم قلب سے ان کا اس محفل میں استقبال کرتے ہیں اور گزارش کر تے ہیں کہ وہ ڈائس پر تشریف لے آئیں ۔
پروفیسروویک سنیجانے ڈاکٹرآف فلاسفی یونیورسٹی آف ریڈنگ یو۔کے سے1997میں کیا۔انھوں نے 1995سے 2005تک اوپن یونیورسٹی بزنیس ااسکول اور یونیورسٹی آف سیل فارڈ(یو․کے) میں درس و تدریس کی خدمات بھی انجام دی ہیں۔ ان کا خصوصی مطالعہ یعنی ریسرچ کا میدان اور ٹیچنگ سبجیکٹ اسٹریٹیجک مینجمنٹ ہے۔ موصوف کی متعدد کتابیں، مونوگراف، مضامین دنیا کے مشہور اور معروف جرنلز میں شائع ہو چکے ہیں ۔ وہ کئی جرنلوں کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ دنیا کی نامور یونیورسٹیوں میں منعقد ہونے والے سمیناروں اور کانفرنسوں میں اپنے لا تعداد بصیرت افروز مقالے پیش کر چکے ہیں۔ موصوف کو Felix Fellowیو․کے، ایوارڈ بھی مل چکا ہے جو چوٹی کے اسکالروں کو ہی میسر ہوتا ہے۔آپ CIIنیشنل کمیٹی اعلیٰ تعلیم کے رکن خاص بھی ہیں۔

اس سمینار کی صدارت جس شش جہت شخصیت کی نگرانی میں ہوگی اس کا تعارف پیش کرنا ایسا ہے کہ جیسا سورج کو چراغ دکھانا وہ نام ہے قابل صدر احترام عالی جناب پروفیسر بھیم سین سنگھ صاحب پرنسپل کروڑی مل کالج دہلی یونیورسٹی ہم ان کی آمد کو اس تقریب میں خوش آمدید کہتے ہیں اور گزاش کر تے ہیں کہ وہ خدمت صدارت کوانجام دینے کے لئے ڈائس پر تشریف لائیں۔

عالی جناب پروفیسر بھیم سین سنگھ صاحب کی شخصیت اعلیٰ تعلیم سے مزین و منور ہے۔ انہوں نے اپنی ملازمت بحیثیت تاریخ کے پروفیسر ستیاوتی کالج سے شروع کیا جہاں انہوں نے وائس پرنسپل کی حیثیت سے کارہائے نمایاں انجام دیے ان کی اچھی تعلیمی صلاحیت اوربہتر انتظامی نظم و نسق کے پیش نظر دہلی یونیورسٹی نے دہائیوں قبل ہمارے کالج کے لیے بحیثیت پرنسپل ان کا انتخاب کیا۔ پروفیسر بھیم سین سنگھ جو گذشتہ چند دہائیوں سے کالج کے پرنسپل ہیں۔ ان کی نگرانی میں کالج نے نہ صرف یہ کہ اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کیا بلکہ پوری یونی ورسٹی میں کروڑی مل کالج کے نام کے ساتھ ڈاکٹر بھیم سین سنگھ کا نام عزت کے ساتھ لیا جانے لگا۔ آج ہر ایک کی زبان پر داد و سخن کے بے ساختہ الفاظ جاری ہیں۔ ڈاکٹر موصوف کی پرنسپل شپ میں کالج نے تعمیر و ترقی کی اعلیٰ منزلیں طے کی ہیں۔ مختلف شعبہ جات مثلاً، اردو ہندی، سنسکرت اور انگریزی وغیرہ کی جانب سے آئے دن علمی، ادبی اور ثقافتی محفلوں کا انعقاد کرانا، جس میں قومی اور بین الاقوامی سطح کے سمینار بھی شامل ہیں،موصوف کی ادب نوازی کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ ان کی نگرانی میں زبان و ادب کے ماہرین ادبا، شعرا، سائنس داں، دانشور اسکالر محققین اور نقادوں کی صدارت میں کئی جلسے منعقد کیے گئے۔ ان مواقع پر ہمیشہ کالج سالانہ رپورٹ اور مجلہ بھی جاری کرتا رہا ہے۔ اس طرح موصوف کی قیادت میں متعدد بڑے بڑے کام ہوتے رہتے ہیں۔ طوالت کی وجہ سے انفرادی طور پر سب کا ذکر کرنا یہاں ممکن نہیں۔

ڈاکٹر موصوف کی تعلیمی قابلیت اور انتظامی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے وائس چانسلر بھی انھیں بڑی بڑی ذمہ داریاں تفویض کرتے رہتے ہیں۔ کالج کی ساری ذمہ داریوں کو نبھانے کے ساتھ ہی یونی ورسٹی کے عہدہ داروں کے ساتھ جا بجا خصوصی نشستوں میں شرکت کو بھی لازمی قرار دیتے ہیں۔ یعنی معمول کے مطابق ڈاکٹر موصوف صبح آٹھ بجے گھر سے نکلتے ہیں اور کہیں شام کے آٹھ بجے گھر پہنچتے ہیں۔اگر میں یہ کہوں کہ ڈاکٹرموصوف نے اپنے آپ کو پوری طرح کالج اور یونی ورسٹی کے لیے وقف کیا ہوا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس حوالے سے اگر ہم ڈاکٹر موصوف کے ہم عصر ، پروفیسروں، پرنسپلز اور خاص طور سے منتظمین پر نظر ڈالیں تو دہلی یونی ورسٹی کیا، دور دور تک ہمیں کسی یونی ورسٹی میں ڈاکٹر موصوف کا ثانی نظر نہیں آتا ۔

عدل و انصاف اور مساوات کی کسوٹی پر جب ہم ڈاکٹر بھیم سین سنگھ کو جانچنے کی کوشش کرتے ہیں تو جملہ امور میں ہمیں آپ کا کردار اس سفید چادر کی طرح نظر آتا ہے جس پر کوئی بد نما داغ تو کجا ایک معمولی دھبہ بھی دکھائی نہیں دیتا موصوف اپنے ہم عصروں میں منفرد و ممتاز شخصیت کے حامل ہیں۔جب بھی موصوف کے سامنے کوئی سائل آئے تو بلا امتیاز مذہب و ملت اور رنگ و نسل اس کی بات سنتے ہیں اور یونی ورسٹی کے اصول و ضوابط کی روشنی میں اس کا کام فوراً حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خاص کر طلبا کے تعلیمی امور کو وہ بڑی سنجیدگی سے مقررہ اوقات میں حل کرتے ہیں اور ان کی جائز ضروریات کو ہر ممکن پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج کے اس ادبی جلسہ میں اردو دنیا کی وہ عالمی شہرت یافتہ شخصیت خطبہ پیش کریں گی جن کا نام اپنے ہم عصروں میں نما یاں ہے وہ اسم گرامی ہیں پروفیسر ارتضیٰ کریم صدر شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی ۔ہم ان سے مودبانہ التماس کرتے ہیں کہ وہ ڈائس پر تشریف لائیں۔
پروفیسر ارتضیٰ کریم دہلی یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ ہیں جو تدریس میں ہمہ تن گوش رہتے ہیں ۔عہدِ حاضر میں شعر وادب کا منظر نامہ چند ادبی چہروں کی روشنی سے منور اور تاباں نظر آتا ہے ۔ اردو زبان کا آغاز تقریباً آٹھ سو برس پہلے ہوا اور تب سے ہی ہمیں ادب کے نقوش ملتے ہیں ۔ اس سفر میں ایک مسلسل ارتقاء نظر آتا ہے ۔ ولیؔ سے لے کرمیر تقی میرؔاور غالبؔ سے اقبالؔ،جگرؔ اور فانیؔتک چند نام ادب میں ستاروں کی مانند نظر آتے ہیں۔ایسے ہی ناموں میں پروفیسر ارتضیٰ کریم کا نام بھی شامل ہے ۔ ان کی شخصیت اردو ادب میں اپنا ایک منفرد مقام بنا چکی ہے۔وہ صرف ایک نقاد ہی نہیں ادبی صحافی،مترجم اور محقق کی حیثیت سے مشہور و معروف ہیں۔بطور نقاد وہ اپنے ہم عصروں میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں اور ابھی تک ان کے نصف درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔ اردو ادب میں وہ ایک محقق کی حیثیت سے بھی کا فی مقبول ہیں۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز تقریباً ایک دہائی قبل ہوا ہے۔ پروفیسر ارتضیٰ کریم ادب کی خصو صیات سے بخوبی واقف ہیں ان کے ادبی ورثہ کے روایت وجدّت کا ایک حسین امتزاج ہے ۔ ان کی تنقیدمیں نئی تراکیب ،نئی مثالیں اور علامتیں بکثرت پائی جا تی ہیں جو ایک طرف ہمارے ادب کے مزاج کی عکاسی کر تی ہیں اور دوسری طرف معیاری ادب سے ہمارا رشتہ مضبوط کر تی ہیں ۔ کسی بھی بڑے ادیب کے لیے ضروری ہے کہ وہ قدامت سے انحراف نہ کرے ۔ اس کی اہمیت اور اس کی بڑائی اس میں مضمر ہے ۔ پروفیسر ارتضیٰ کریم جن کی متعدد کتابیں اور بیشتر بصیرت افزا ادبی،تاریخی،تعلیمی اور سیاسی مضامین ہندوستان اور بیرون ملک ادبی دنیامیں بقائے دوام حاصل کر چکے ہیں۔موصوف نہ صرف یہ کہ عالم شہرت یافتہ دانشور وادیب ہیں بلکہ وہ ایک ماہر تعلیم کی حیثیت سے بھی اپنی ایک علاحدہ شناخت رکھتے ہیں اور اکبر اصغر تقریباً پچاس مختلف النوع عالمی تعلیمی،ادبی وثقافتی اداروں کے رکن خاص اور اعزازی فیلو بھی ہیں۔ پروفیسر ارتضیٰ کریم ، ہندوستان بالخصوص مسلمانوں میں اعلیٰ تعلیم کے رجحان کو فروغ دینے والی شخصیت کی حیثیت سے بطور خاص جا نے جا تے ہیں۔موصوف کا خیال ہے کہ اکیسویں صدی میں اردو کا موقف انفارمیشن ٹکنا لوجی کے چیلنج پر منحصر ہے۔ لہٰذا اس صدی میں اردو کو انفارمیشن ٹکنا لوجی سے مربوط کر تے ہوئے دنیا کو یک لسانیت یایک لسانی حیثیت اختیار کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔وہ اردو اکیڈمیوں کی جانب سے عصری علوم کی ترجمہ کاری اور عصری تقاضوں سے نمٹنے کے لیے ہندوستان بھر کے اردو اداروں کا قومی وفاق قائم کرنے کی ضرورت محسوس کر تے ہیں، اور پیغام دیتے ہیں کہ اساتذۂ اردو ،عصری طریقہ تعلیم اختیار کریں تاکہ اردوزبان وادب کو عصری علوم کی طرح فروغ دینے میں مدد مل سکے۔

مختلف النوع شعری، ادبی اور دیگر تقریبات میں بڑوں کی تعظیم اور چھوٹوں پر شفقت کرنا ہم ہندوستانیوں کی مشترکہ تہذیب روایت رہی ہے۔

اس روایت کی پاسداری کر تے ہوئے ۔میں شعبہ کی سب سے سینئر استاد محترمہ ڈاکٹر طبیہ خاتون سے گزارش کر تا ہوں کہ وہ پھولوں کا گلدستہ پروفیسر ارتضیٰ کریم کی خدمت میں پیش کریں۔

اس مغربی تہذیب و تمدن کے مشترکہ کلچرمیں اردو، ہندی تہذیب کا یہ طالب علم کس طرح لب کشائی کی جرأت کرے یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ لیکن یہ یقین ضرور ہے کہ ہندوستانی تہذیب میں خردوں کو ہمیشہ شفقت سے نوازا گیا ہے۔ جس طرح مسلسل جنگ سے انسان سخت ہو جاتا ہے ہماری زبان اور ہمارا لہجہ بھی ہو سکتا ہے لیکن بہر حال کچھ نہ کچھ کام کی باتیں میری گفتگو میں یقینا ہوں گی۔

حضرات !آپ کے علم میں ہے کہ نئے تعلیمی نظام کے تحت جامعات میں میقاتی نظام سمسٹر سسٹم کو اہمیت دی جارہی ہے۔دہلی یونیورسٹی نے بھی اس سلسلہ میں سال گزشتہ سے ہی پیش رفت کر دی ہے۔سائنس کے سبھی شعبے اس پر عمل درآمد ہوچکے ہیں۔یونیورسٹی کا نیک ارادہ یہ ہے کہ آئندہ تعلیمی سال سے ہومیونیٹیز اور سوشل سائسنسز کے جملہ شعبوں میں میقاتی نظام کے تحت درس تدریس کے سلسلہ کا آغاز ہوجائے۔ کروڑی مل کالج اور شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی اس حوالے سے آج یہ سمینار اور ورکشاپ کا اہتمام کر رہے ہیں ۔جس میں میقاتی نظام کے تحت بننے والے نصاب پر مناسب تجاویز اور اس خاکوں پر بھر پور علمی وادبی گفتگو ہوگی تاکہ نصاب کی تیار ی کے وقت ان امور پر توجہ دی جا سکے۔

انسانی سماج میں عالمی سطح پر روز اول سے تغیر وتبدل کا تصور ہر دور میں پایا جاتا رہا ہے یہ الگ بات ہے کہ اس کے لیے اصطلاحات بدلتی رہی ہیں۔ عصری تقاضوں کی روشنی میں عالمی سطح پر رفتہ رفتہ ترقی کر کے آج انسانی تہذیب نے جتنی کروٹیں بدلی ہیں ان سب کے شواہد ادب میں موجود ہوتے ہیں کیونکہ ادب ہمیشہ اپنے لیے خام مواد معاشرے سے ہی حاصل کرتا ہے اور ہر ایک معاشرے میں تغیر کا جو شعور ہوتا ہے اس کا اظہار زبان کے ذریعہ ہی ہوا کرتا ہے۔ ترقی یافتہ تعلیم سے علےٰحدگی کی بنا پر اس پورے معاشرے میں جس طرح کی بے ضابطگی اور انتشار کا جو پھیلاؤ ہے اس کو نظر میں رکھتے ہوئے اب یہ نا گزیر ہو گیا ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں موجود تمام تہذیبی سلسلوں کو از سرِ نو موجودہ عالم کاری کی روشنی میں د ریافت کریں اور ان کے اندر قوم کی فلاح سے متعلق نکتوں کو وضاحت کے ساتھ ادبی میراث کا حصہ بنائیں۔معزز سامعین حضرات! حکومت ہند کے شعبہ یو جی سی کے ذریعہ نافذ کردہ حکم کی روشنی میں قومی سطح پر نئے تعلیمی پالیسی کے تحت دہلی یونیورسٹی میقاتی نظام کو نافذکرنے کے لئے پچھلے تعلیمی سا ل ہی سے کوشاں اور سرگرداں ہے۔اس کے خوشگوار نتائج یونیورسٹی کے سائنس کے سبھی شعبوں میں میقاتی نظام نافذ ہوچکاہے۔یونیورسٹی کا نیک ارادہ یہ ہے کہ آئندہ تعلیمی سال سے ہومیونیٹیز اور سوشل سائسنز کے جملہ شعبہ میں میقاتی نظام کے تحت درس تدریس کے سلسلہ کا آغاز ہوجائے۔آج کا یہ سمینار اس قبیل کی ایک اہم کڑی ہے۔جس میں ہمارے مدعو مندوبین قبل نیم روز نے سیشن میں قدیم نصاب پر مبنی مقالے پیش کریں گے اور بعد نیم روز ، سیشن میں میقاتی نظام کے تحت ہمارا نصاب کیسا ہو، اس سے متعلق مذاکرہ اور مباحثہ کریں گے۔کروڑ ی مل کالج اور شعبہ آرٹس فیکلٹی نے مشترکہ طورپر قومی کونسل کے مالی امداد سے اس سمینار اور ورکشاپ کو آراستہ کیاہے ۔اس سمینار میں یہاں موجود دہلی یونیورسٹی کے متعدد کالج سے مدعو اردو کے ادیب اور دانشور اساتذہ حضرات اپنی بصیرت افروز تجرباتی علمی مشورے زیر موضوع بحث نصاب کے حوالے سے پیش کریں گے۔جو میقاتی نظام کے تحت نصاب کی تیاری میں مددگار و معان ثابت ہو سکے گا۔اس علمی اورادبی مذاکرے کو بدستور ترتیب وار نظم و ضبط کے خوشنما انجام تک پہنچانے کے لئے میں ڈاکٹر محمد محسن صاحب کو مائک سنبھالنے اور نظامت کے فرائض انجام دینے کی دعوت دیتاہوں کہ وہ اس علمی وادبی مذاکرے کو اول تا آخر دونوں سیشن کی کارروائی کو چلائیں۔اس سیشن میں جو مقالے پڑھے گئے یقیناسب ہی چشم کشا تھے اور ان کے اندر موجود تحقیقی کاوشوں نے ہم طالب علموں کو کافی فائدہ پہنچایا ہے۔

مشاعرے کی روایت انسانی جمالیات اور اس کے فنی شعور و صلاحیت کا مکمل مظہر و عکاس ہوتا ہے اور ہر فنکار کی پہلی کوشش بھی یہی ہوتی ہے کہ اس کی تخلیق منظر عام پر آ کر قارئین اور سامعین سے خراج تحسین حاصل کرے۔فنکار کی یہ بھی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے فنی شہ پاروں کو لوگ سراہیں اور خود اس کو قدر و منزلت کی نگاہوں سے دیکھیں ۔ اس جذبوں کو تکمیل تک پہنچانے اور ان خواہشات کو پورا کرنے میں ذرائع ابلاغ کا اہم کردار ہے اس سلسلے میں سب سے موثر اور نمایاں مقام مشاعرہ کے ساتھ ساتھ جرائد و رسائل کا ہے۔ جو شعرا ء ،ادباء، مصنفین، ماہرین زبان و ادب اور متعدد قسم کے دانشوروں کو منظر عام پر لانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں ان فنکاروں کو ذرائع نشرواشاعت اور مشاعرہ و مجلس میسر نہ ہوئے تو شاید بہت سے دانشور منظر عام پر بھی نہ آسکیں اور آج دنیا کے علم و ادب ان کے ناموں سے بھی واقف نہ ہوسکے۔مشاعروں کی قسمیں گنوانا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ اچھی بات ہو یا نہ ہو یہ کام آسان بھی نہیں ہے کیوں کہ شاعر تو تاروں کی طرح ہوتے ہیں، لا تعداد جنھیں آج تک کوئی گن نہیں سکا۔ اس کی دو وجوہات ہیں ایک تعداد اور دوسری یہ کہ یہ بھی تاروں ہی کی طرح اندھیری راتوں میں چمکتے ہیں اور ان کی روشنی سے سامعین مستفیض ہوتے ہیں اور شعرا حضرات کو جی بھر کے داد دیتے ہیں دوسری طرف ناظم مشاعرہ اپنے لطیفوں اور اشعار سے سامعین کو جمالیاتی خوراک فراہم کرتے ہیں۔مشاعرے در اصل ہماری مجلسی زندگی، ہماری تہذیبی شناخت، ہماری مذہبی روا داری، ہماری گنگا جمنی تہذیب، ہمارے مزاج کی شائستگی، ادب و آداب، طور طریقوں، بزم آرائی، پاکیزگی، ذوق اور زبان و بیان سے غیر معمولی دلچسپی کے آئینہ دار ہیں۔ مشاعروں میں بلا لحاظ مذہب و ملت لوگ شریک ہوتے ہیں۔ابتدا میں یہ محفلیں مشاعرہ نہیں مراختہ کہلاتی تھیں کیونکہ مشاعرے فارسی کلام کے لیے مخصوص تھے اور ریختہ سنانے کی محفل ظاہرہے مراختہ ہی کہلاتی۔ ابتدا میں یہ محفلیں بہت مختصر ہوا کرتی تھیں لیکن دھیرے دھیرے ان محفلوں میں رونق اور ہجوم بڑھنے لگا اور آگے چل کر یہی مشاعرے ہماری تہذیبی علامت بن گئے۔ ہماری زندگی کا ایک ایسا جزو جسے الگ نہ کیا جا سکے۔ ہمارے آداب گفتگو اور نشست وبرخاست پر ان محفلوں کا خاصہ اثر پڑا یا یوں کہہ لیجیے کہ ہماری رفتار و گفتارکردار اور اعمال کو ان محفلوں نے بے پناہ متاثر کیا۔ ہمارا پورا معاشرہ ہی اس مشاعرے کے رنگ میں رنگ گیا۔لہٰذا ہمیں اپنے مشاعروں کا ان کی دیرینہ شان و شوکت ان کا نظم و ضبط ان کی شائستگی کو بحال کرنا ہے۔ مشاعروں کی مقبولیت کا ڈنکا تو نہ صرف بر صغیر ہندو پاک میں بلکہ یورپ امریکہ اور وسط ایشیا میں بھی بجایا جا چکا ہے۔ اردو اب صرف ہندو پاک کی زبان نہیں رہی یہاں ہر صوبے ہر شہر اور قصبے میں مشاعرے کی محفلیں آراستہ کی جاتی ہیں۔ ہندو پاک کے باہر بھی سینکڑوں مشاعرے ہر سال منعقد ہوتے ہیں کروڑوں ڈالر اس تہذیبی ادارے پر خرچ کیے جاتے ہیں۔ شعرا کو آمد و رفت کے اخراجات، نذرانے یا تحفے تحائف اور خراج تحسین سے نوازا جاتا ہے۔ چشم روشن دل ما شاد اگر ان مشاعروں میں پہلی سی سادگی اور شائستگی پیدا ہو جائے تو سونے پر سہاگہ کے مترادف نیز یہی مشاعرے اردو زبان کی ترویج اور بقا کی مضبوط ضمانت بھی ثابت ہوں گے۔ دوسری زبانوں کے لوگ اس امر سے بھی واقف ہیں کہ اردو صرف ایک زبان اظہار و بیان کا ذریعہ ہی نہیں ہے بلکہ ایک تہذیب ہے ایک ضابطۂ حیات ہے جو ہمیں خوبصورتی سے زندگی گزارنے کا سلیقہ بھی سکھاتی ہے۔ اردو کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دیکھ کر ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اردو کے مفاد کو ٹھیس نہ پہنچے۔ مشاعرے ہماری تہذیبی شناخت ہیں اور انھیں پوری آن بان سے زندہ و پایندہ رکھنے کے لیے ہمیں انتھک کوشش کرتے رہنا چاہیے۔

Dr. Mohammad Yahya Saba
About the Author: Dr. Mohammad Yahya Saba Read More Articles by Dr. Mohammad Yahya Saba: 40 Articles with 131905 views I have Good academic record with a Ph.D. Degree in Urdu “Specialization A critical study of Delhi comprising of romantic verse, earned Master’s Degree.. View More