پٹواری ! دہقان کو پستی میں دھکیل رہا ہے

پٹواری بادشاہ کا دربار لگا ہوا تھا ۔ محکوم رعایاپٹواری (بادشاہ) کے انتظار میں بے چین تھی۔ اتنے میں بادشاہ کی آمد ہوئی رعایا ایں ہل چل مچی۔ کچھ لمحوں کے بعد بادشاہ سلامت اپنی نشست خاص پر جلوہ افروز ہوگئے۔ ایک اچٹتی سی نگاہ سب پر ڈالنے کے بعد بادشاہ(پٹواری) نے اپنے اپنے مقدمات پیش کرنے کا حکم دیا اور پھر جب مقدمات سامنے لائے گئے۔ تو بادشاہ کے تیور دیکھنے والے تھے انہوں نے اپنے چیلان خاص(منشیوں) سے ان کے بارے دریافت فرمایا اور حکم صادر فرمایا جسے سن کر رعایا میں سے کچھ لوگ پہلو بدلنے لگے اور آخرکار جب نہ رہا گیا تو وہ بول اٹھے ۔ظل الہی یہ کیسی تقسیم ہے یہ تو سراسر ناانصافی ہے ظلم ہے زمین میری ہے ۔کاشت میری ہے فصل تیا رکھڑی ہے اور آپ نے باردانہ کسی اور کو الاٹ فرمادیا اور جسے الاٹ کیاگیا ہے وہ تو سرے سے کاشت کار ہے نہ ہی زمیندار۔براہ کرم انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھا جائے ہم پر رحم فرمایا جاوے۔ یہ سن کر بادشاہ (پٹواری) جلال میں آگئے اور فرمایا۔ حدادب نا معقول جانتے نہیں کس کےبارے میں ہرزہ سرائی کررہے ہو۔ یہ شہنشاہ جناب(تحصیلدار) کا بندہ خاص ہے اور باردانہ میں ان کا حصہ ضروری ہے اور فکر نہ کرو تمہیں بھی سو پچاس بوری مل جائیگی ۔ دو تین بعد پھر حاضری دینا۔

اس قسم کے سین اکثر و بیشتر وقت کے سب سے بااثر شخص پٹواری کے دفتر میںفلمائے جاتے ہیں جہاں پر کسی کی زمین پر قابض کوئی ہے تو مالک کوئی ہے ۔ ملکیت اللہ بچایا کی ہے تو کاشتکار اللہ رکھے کی اور باردانہ مل رہا ہے اللہ بخش کو۔ اور جب شور حد سے بڑھ جاتا ہے اور مجبور و بے بس اور سرپھرا بولتا ہے تو اسے مختلف انداز میں ڈرا دھمکا کر چپ کرانے کی کوشش کی جاتی ہے اور جب کوئی آپے سے باہر ہوتا ہے یا پھر اکڑ جاتا ہے تو بادشاہ کا پاجامہ گیلا ہوجاتاہے اور نوبت منت ترلے تک پہنچ جاتی ہے لیکن ایسا شاذو نادر ہی ہوتاہے۔

عام طور پر چند مخصوص لوگوں کو out of way نوازا جاتا ہے کوئی بڑا زمیندار ہے تو کوئی وڈیرہ۔ کوئی بااثر شخصیت ہے ت کوئی باردانہ مافیا ٹاﺅٹ یا کوئی بااثر صحافی۔ کہ جن کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا ہے کہ گندم کا خوشہ کیا ہوتا ہے ؟گندم کا بوٹا ہوتا ہے کہ درخت؟ انہیں تو صر ف اس سے غرض ہے کہ بارذانہ مل جائے تاکہ اسے بلیک میں بیچ کر اپنی اور بچوں کی روزی کو ”حلال “ کیا جاسکے۔ جبکہ وہ ہاری اور کسان جو دن رات فصل کی رکھوالی کرتا ہے کھیت میں بیج ڈالنے سے لیکر پودا بننے تک اور پھل خوشوں میں دودھ آنے لیکر فصل پکنے تک نہ جانے کتنی مشقت اور مصائب سے گزر کر وہ اس سٹیج پر پہنچتا ہے کوشش اور خواہش ہوتی ہے کہ اب جب کہ فصل تیار ہو چکی اب اسے کاٹ کر بوریوںمیں بھر کرمارکیٹ میں بھی فروخت کرونگا اور سا ل بھر کا راشن بھی ذخیرہ کرلونگا۔

اس کی خوشی دیدنی ہوتی ہے اس نے اس فصل کے behalf پر بہت سے منصوبے بنے ہوتے ہیں اپنے مستقبل کے حوالے سے پلاننگ کی ہوتی ہے بچوں کی خوشی و غمی کو تول کر معاملات سیٹ کئے ہوتے ہیں بڑے بڑے خواب سجائے ہوتے ہیں لیکن اس کے خوابوں اور امید وں کی عمارت اس وقت زمین بوس ہوجاتی ہے جب وہ پہلی مرتبہ باردانہ کے حصول کی لسٹ میں نام نہ آنے پر بادشاہ سلامت(پٹواری)کے روبرو پیش ہوتا ہے اس کی تمناﺅں اور خواہشات کا خون جگہ جگہ ہوتا ہے پہلے تو کھاد سپرے اور پانی مد میں اسے قرض میںجکڑ دیا جاتا ہے اس قرض کو چکانے کی خاطر وہ نہایت ہی ذلت و رسوائی سے جوجتا ہے پھر جب فصل پک کر تیار ہوجاتی ہے تو حکومت وقت کی ناانصافی اس کی محنت کا گلہ گھونٹتی ہے ایسے دام مقرر کئے جاتے ہیں کہ سوائے نقصان کے کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ پھر باردانہ کے حصول کیلئے پٹواری کے پیش ہوتا ہے تو اس کے اوسان خطا ہوجاتے ہیں کہ زمین تو اس کے نام ہی نہیں۔ یا کاشت تو لکھوائی ہی نہیں گئی اور اس چکر میں یعنی ملکیت ثابت کرنے اور کاشت منظور کرنے میں وہ اہم وقت گزر چکا ہوتا ہے کہ جس کی وجہ سے مناسب قیمت مل سکے۔ اس کے درمیان میں بھی حکومتی کارندے اپنے اپنے چہیتوں(افسر،فوڈانسپکٹر،ٹاﺅٹ مافیا صحافی بااثر خریدار)کو خوش کرنے کی خاطر مختلف ہتھکنڈے استعمال کرکے کسان و کاشتکار کو اس حد تک زچ کردیا جاتا ہے کہ وہ اپنی فصل کو اونے پونے داموں بیچنے پر مجبور ہوجاتا ہے اور خریدار ان چہیتوں میں سے ہی کوئی بے حس و ضمیر ہوتا ہے جو اس کی بے بسی کوکیش کراتا ہے

اسی طرح تمام دوسری اجناس کے معاملے میں بھی ایسی ہی صورتحال سے واسطہ پڑتا ہے کہ جب کسان اپنی فصل سبزی یاپھل اس کی چنائی اٹھوائی (لوڈنگ) کیریج اور آڑھت کے کمیشن کے مراحل سے گزر ر نبردآزما ہونے کے بعد اسے فروخت کرتا ہے تو اکثر اوقات ایسے ہوتا ہے کہ وہ اپنی جنس کے ساتھ ساتھ اپنی کوئی قیمتی شے بھی فروخت یا گروی رکھ کر جارہا ہوتا ہے یعنی نقصان۔حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہئے

یہ سارا کھیل اس لئے کھیلا جاتا ہے کہ اس کھیل میں اوپر سے لیکر نیچے تک تمام لوگ انسانیت کے سبق سے دور اخلاقیات سے عاری بے ضمیری و بے حسی کی چادر اوڑھ کر صرف اور صرف اپنے پیٹ کوترجیح دے رہے ہوتے ہیں۔اس میں سارا قصور متعلقہ محکمہ جات اور گورنمنٹ کا ہوتا ہے وہ سپریم کورٹ کی طرح حکم تو صادر کردیتے ہیں لیکن ان پر نفاذ کرانے میں بہت سی چیزیں مانع آجاتی ہیں یہ سسٹم کی خرابی بڑی حد تک ہمارے ایگری کلچر سسٹم کو تباہی کے دہانے پر لے جاچکی ہے ۔ دوسرے ممالک میں اوپر بیان کردہ مراحل خریدار(buyer) خود طے کرتا ہے اور ڈائریکٹ سسٹم کے تحت کاشتکار اور خریدار لین دین کرتے ہیں کوئی کمیش مافیا involve نہیں ہوتا ہے اور کسان خوشحالی کا سفر تیزی سے طے کرتا ہے جبکہ ہمارا کسان اور کاشتکار روز بروز حکومتی ناقص پالیسیوں اوور اہلکاروںکی کرپشن کی بنا پر تنزلی اور بدحالی کا شکار ہے اوروہ آئندہ آنے والی فصل کو کاشت کرنے کے بارے میں سوچتا ہے کہ
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہوروزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو

حکومت کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ اب چونکہ سسٹم کو کمپیوٹرائزڈ کیا گیا ہے اور اب بہت حدتک کرپشن اور مسائل کو حل کرلیاجائیگا اور کرپٹ مافیا کو لگام ڈال دی جائیگی ۔ لیکن شواہد اور تاریخ بتاتی ہے کہ معاملہ مزید بگڑنے کا احتمال سو فیصد بڑھ گیا ہے ۔ جانے والے سائل کو کمپیوٹر سے ڈرایا جائیگا کہ جو کام کمپیوٹر کرتا ہے جو بالکل صحیح ہوتا ہے اور اسمیں غلطی کا کوئی اندیشہ نہیں۔مگر اس آنے والے سائل کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ کمپیوٹر پٹواری کے ہاتھ میں آکر پٹواری بن گیا ہے اور جو پٹواری(آپریٹر) چاہے گا وہ کمپیوٹر کریگا ۔ مزید یہ کہ ہمارے ہاں ماشاءاللہ لوڈشیڈنگ کی جو صورت حال ہے اس میں سائل کو پہلے سے زیادہ دھکے اور چکر لگانے ہونگے اور جتنا زیادہ تنگ کیا جائیگا اتنے ہی کرپشن کی بھرمار ہوگی لہذا اس کا بھی سدباب کیا جانا ضروری ہے-

میں کہونگا کہ اس نوبت پر پہنچانے والے اس بادشاہ(پٹواری) کو ہی کیوں نہ نشان عبرت بنایا جائے جو کہ اس مسئلے کی جڑ ہے۔ گندم کے سیزن کا آغاز ہوچکا ہے نگران حکومت کم ازکم یہی کام اچھا کرجائے کہ غریب ہاری اور کسان خوشحال ہوجائے ۔اور پٹواری کو نکیل ڈال دی جائے۔ آپ کا یہ کارنامہ سنہری حروف میں لکھا جائیگا کیونکہ ہماری معیشت کا دارومدار زراعت پر ہے
انداز بیاں گرچہ مرا شوخ نہیں ہے
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 211638 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More