آج ہم یوم مئی منا رہے ہیں یعنی مزدوروں کا عالمی دن آگے کچھ کہنے سے پہلے
اس دن کی تاریخ پر تھوڑی نظر ڈالتے ہیں۔صنعتی انقلاب کے ساتھ ہی پہلی
باقاعدہ ٹریڈ یونین پندرہ مختلف یونینز کے اتحاد سے 1827 میں امریکی ریاست
فلاڈیلفیا میں مکینکس یونین آف ٹریڈ ایسوسی ایشن کے نام قائم کی
گئی۔مزدوروں کا پہلا مطالبہ ایک دن میں آٹھ گھنٹے کے اوقات کار مقرر کرنے
کا تھا، آغاز میں مزدوروں کو چوبیس گھنٹوں میں سے اٹھارہ گھنٹے اوسطاً کام
کرنا پڑتا تھا۔ یہ مطالبہ آہستہ آہستہ پورے امریکہ میں زور پکڑ گیا۔
اپنے اس مطالبے کےحق میں 1861 اور 1862 میں امریکہ کے کان کن اور بوائلر
مزدور اکٹھے ہوگئے اور 1863 میں صرف امریکہ میں بیس مزدور یونینز قائم
ہوگئیں اگلے سال تک اس مطالبے کے حق میں 53 یونیز قائم ہوچکی تھیں۔ جبکہ
1864 میں سگار بنانے والے مزدور اور بحری جہازوں کے مزدور،1865 میں اینٹیں
بنانے والے مزدور، اور 1866 میں دلک لومز بنانے والے، ٹوپیاں بنانے والے
مزدور بھی اتحاد کرچکے تھے۔
20 اگست 1866 کو امریکہ کے ساری مزدور یونینز کے نمائندے اکٹھے ہوئے اور
انہوں نے ایک متحدہ نیشنل یونین لیبر بنانے کا اعلان کیا۔ مفاد پرست سرمایہ
داروں نے یہ صورتحال دیکھی تو انہوں نے مقامی مزدور جو کہ احتجاج میں شامل
ہوتے تھے ان کی جگہ غیر مقامی اور غیر تربیت یافتہ مزدوروں کو کام دینا
شروع کیا۔ غیر مقامی اور غیر ملکی مزدوروں کی مد کے بعد مقامی مزدوروں کی
تشویش میں اضافہ ہوگیا اور اس کے ساتھ ملک میں بیروزگاری میں بھی اچانک
اضافہ ہوگیا۔ دوسری طرف 1873 کی کساد بازاری نے مزدوروں کے حالات کو ناقابل
برداشت حد تک خراب کردیا اور مزدور اپنے حقوق کے لیے ہڑتالیں کرنے لگ گئے۔
1880 تک جپان، آسٹریلیا، لاطینی امریکہ اور یورپ میں بھی مزدور اپنے حقوق
کے لیے متحد ہوگئے۔ 1882 میں جاپان ٹراموے ورکرز کی ایک بہت بڑی ہڑتال
ہوئی، مزودر لیڈر َ َ گومبرسَ َ کا نعرہ َ َ مزدوروں ایک ہوجاؤ َ َ کی گونج
پوری دنیا میں سنی گئی۔ گومبرس کی فیڈریشن نے متحدہ جدوجہد شروع کرنے کے
لیے 1884 شکاگو میں ایک بڑا کنونشن بلایا، اس موقعے مزدوروں کی جانب سے کی
گئی ہڑتال دنیا کی پہلی عام ہڑتال ثابت ہوئی،اور اس میں مطالبہ کیا گیا کہ
یکم مئی 1886 سے اوقات کار آٹھ گھنٹے مقرر کیے جائیں اور ایسا نہ کرنے کی
صورت میں عام ہڑتال کی جائے گی۔
شکاگو اس وقت مزدور تحریک کا مرکز اور ایک بڑا صنعتی شہر تھا۔ یکم مئی 1886
کو شکاگو کے َ َ ہے مارکیٹ اسکوئر َ َ پر کم و بیش اسی ہزار مزدور جمع ہوکر
اپنے مطالبات کے حق میں ریلی نکال رہے تھے تھے، یہاں واضح رہے کہ ہڑتال کئی
روز سے جاری تھی جس نے مفاد پرست سرمایہ داروں کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور
وہ مزدوروں کے اس احتجاج کو سبو تاژ کرنا چاہتے تھے اور اسی لیے سرمایہ
داروں اور حکومتی گٹھ جوڑ کے نتیجے میں ریلی کے اختتام پر کسی نامعلوم فرد
نے ریلی پر ایک بم پھینک دیا جس میں ایک درجن کے قریب مزدور ہلاک ہوگئے جب
کہ سات پولیس والے بھی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔اس واقعے کے تیسرے روز
جب کہ مزدوروں کا احتجاج ہنوز جاری تھا پولیس نے پر امن مظاہرین پر فائرنگ
کردی جس کے نتئیجے میں متعدد مزدور ہلاک ہوگئے جب کہ کئی زخمی ہوگئے۔اور
ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ دو دن پیشتر ہونے والے بم بلاسٹ کا الزام بھی
مزدور رہنماؤں پر لگایا گیا اور آٹھ مزدوروں لیڈروں کو پھانسی دیدی گئی جب
کہ دو کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ اس واقعے کے تین سال کے بعد یہ فیصلہ
کیا گیا کہ یکم مئی کو ان مزدوروں کی شہادت کی یاد میں منایا جائے گا اور
یوں پہلا یوم مئی 1890ء کو منایا گیا۔یہ اس دن کی ایک مختصر تاریخ تھی جو
ہم نے آپ کے سامنے بیان کی ہے۔
اب اگر ہم اپنے معاشرے میں آج مزدوروں کی حالتِ زار کا جائزہ لیں تو نظر
آتا ہے کہ آج کا مزدور انتہائی مفلوک الحالی کا شکار ہے۔ فیکٹریوں وغیرہ
میں عموماً تو آٹھ گھنٹے کے اوقات کار پر عمل ہی نہیں ہوتا اور اگر کہیں
اوقات کار پر عمل بھی ہوتا ہے تو پھر دیگر سہولیات ( میڈیکل، فوڈ الاؤنس،
وغیرہ ) نہیں دیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارا محنت کش روز کنواں کھودتا
ہے اور روز پانی بھرتا ہے کی مثال بنا ہوا ہے یعنی اگر وہ کسی دن کام سے
رخصت لے گا تو اس کی تنخواہ میں سے اس دن کی رقم کاٹ لی جاتی ہے جبکہ ایک
ماہ میں ہفتہ واری چھٹی کے علاوہ کم از کم تین اتفاقی چھٹیاں ایک مزدور کا
استحقاق ہوتا ہے۔ جبکہ ہمارے یہاں مزدور اپنے ان حقوق سے آگاہ ہی نہیں۔ کئی
اداروں میں مزدوروں کی تنخواہیں روک کر دی جاتی ہیں۔اس کےعلاوہ متعدد
اداروں نے مزدوروں کے حقوق کو غصب کرنے کے لیے ٹھیکداری سسٹم کو فروغ دیا
ہوا ہے جس میں یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ متعلقہ مزدور کسی ادارے کا ملازم
نہیں ہے بلکہ َ َ آؤٹ سورس ایمپلائیَ َ ہے جس کا ادارے سے کوئی تعلق نہیں
ہے۔ کئی فیکٹریوں اور اداروں میں کم از کم اجرت کے قانون پر بھی عمل نہیں
ہوتا ہے۔( اگرچہ پاکستان میں کم از کم اجرت بھی بہت کم ہے یعنی چھ ہزار )
اور مزدوروں کو کم از کم اجرت سے بھی کم معاوضہ دیا جاتا ہے۔جس کی اوسط
ڈیڑھ سو تا دو سو روپے روز تک ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کو ملازمتوں کا تحفظ
بھی حاصل نہیں ہوتا ہے اور کئی اداروں میں مالکان اپنی مرضی سے جب چاہے کسی
بھی ایمپلائی کو نکال سکتے ہیں۔ دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ ہمارے مزدور کی
حالت اس حوالے سے انتہائی افسوسناک ہے کہ یہ مزدور اپنی زندگی کے بہترین
ایام یعنی اپنی نوجوانی اور جوانی کسی ادارے میں کھپا دیتے ہیں لیکن تیس
پیتیس سال کی ملازمت کے باوجود کئی اداروں میں پینشن اور گریجویٹی کا کوئی
تصور نہیں ہے اور یہ مزدور اتنےعرصے تک ایک ادارے کے ساتھ وفاداری نبھانے
کے باوجود آخر میں تہی دست ہوتا ہے اور وہ وہیں کھڑا ہوتا ہے جہاں سے تیس
پیتیس سال قبل اس نے آغاز کیا تھا۔
یہ تو ہمارے یہاں صنعتی مزدوروں کا حال ہے جبکہ عام مزدور ( راج مستری، رنگ
ساز، ہاتھ کا کام کرنے والے ) کی حالت بھی قابل رحم ہے۔اول تو ان کی اجرت (
دیہاڑی) ان کی محنت کے مقابلے میں کم ہوتی ہے اور ان کے کام کے اوقات بہت
طویل ہوتے ہیں کیونکہ عمومی طور پر مزدوروں سے کام لینے والے افراد ان سے
صبح جلدی کام شروع کراتے ہیں اور شام کو سورج ڈھلنے تک یعنی کم و بیش دس تا
بارہ گھنٹے تک کام کرایا جاتا ہے۔ جو معاوضہ طے کیا جاتا ہے کوشش کی جاتی
ہے کہ اس سے کم دیا جائے یا اس میں زیادہ سے زیادہ کام کرایا جائے۔ ہمارے
نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث پاک ہے کہ مزدور کو اس کی مزدوری اس
کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دو لیکن بعض اوقات اس میں بھی مزدوروں کو
تنگ کیا جاتا ہے۔ دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ ایک سب سے بڑا المیہ ہمارے
معاشرے میں یہ پیدا ہوگیا ہے کہ اب ہمارا معاشرہ طبقات تفریق کا شکار ہوگیا
ہے اور ہمارے معاشرے میں ایک محنت کش کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اس
کی وہ عزت نہیں کی جاتی ہے جس کا وہ مستحق ہوتا۔اسلام تو مساوات کا حکم
دیتا ہے لیکن ہمارے معاشرے سے یہ چیزیں آہستہ آہستہ عنقا ہوتی جارہی
ہیں۔اور ایک محنت کش کو کمی کمین سمجھا جاتا ہے۔
یہ تو شہروں کی صورتحال ہے جبکہ گاؤں دیہاتوں میں مزدور اپنے حقوق تو دور
کی بات ہے انسانی حقوق سے بھی محروم ہے آج بھی ہمارے دیہاتوں میں مزدور کو
ہاری، جاگیردار، وڈیرے، چوہدری اس کا استحصال کرتے ہیں اور اس کے ساتھ زر
خرید غلاموں کا سا سلوک کیا جاتا ہے۔اس کو قید میں رکھا جاتا ہے۔اس کو
معاوضہ کی صورت میں صرف دو وقت کا کھانا اور سال میں تین جوڑے کپڑے دیے
جاتےہیں۔اس کے علاوہ اس مزدور کی عزت بھی ان وڈیروں جاگیرداروں کے ہاتھوں
محفوظ نہیں ہوتی ہے آئے دن ان مزدوروں کی بہن بیٹیوں کی عزت لوٹ کر داغدار
کی جاتی ہے۔اس طرح یہ استحصالی طبقہ ان مزدورں کا جسمانی استحصال تو کرتا
ہی ہے اس کے ساتھ ساتھ ان کی روح تک میں تازیانے لگاتا ہے۔
آج ہم یوم مئی منارہے ہیں یعنی مزدوروں کے حقوق کا دن۔ جبکہ ہم جس دین کے
پیرو کار ہیں اس کی تعلیمات پر اگر ہم درست طریقے پر عمل کریں تو ہمیں کوئی
دن منانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے پاس تو اپنا منشور ساڑھے چودہ سو سال
پہلے ہی اللہ نے نبی مہربان صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے قرآن کی
صورت میں دیدیا ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے اس پر عمل کیا جائے۔ قرآن کو
صرف ایصال ثواب یا خیرو برکت کے بجائے قرآن کو سمجھ کر پڑھا جائے اس کی
تعلیمات کو عام کیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے تو ہمارا معاشرہ ایک مثالی
معاشرہ بن سکتا ہے پھر ہمارا مزدور بھی ایک قابل رشک زندگی گزارنے کے قابل
ہوگا ضرورت صرف قرآن پر عمل کرنے کی ہے |