کچھ عرصہ پہلے ایک رسالہ میں ایک
کہانی پڑھی تھی جو کہ مختصر تھی ایک بہت ہی سبق آموز اور پر اثر تھی اس لیے
سوچا کہ آپ لوگوں کے ساتھ اس کو شئیر کیا جائے۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ اس
کہانی کو درست طریقے سے بیان کرسکوں۔
ایک لڑکا اپنے باپ کے ساتھ ایک پہاڑی علاقے میں سفر کر رہا تھا۔ راستہ
نہایت دشوار گزار تھا ایک جگہ اس لڑکے کو ایک پتھر سے ٹھوکر لگی اور وہ
لڑکھڑا کر گرگیا۔ تکلیف کی شدت سے اس کی چیخ نکل گئی اور وہ رونے لگا لیکن
اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جب اسے رونے کی آواز سنائی دی ۔اس نے چیخ کر
کہا “تم کون ہو ؟“ آواز نے بھی چیخ کر کہا “تم کون ہو؟“َ لڑکے نے غصے سے
کہا “سامنے آؤ!“ آواز نے بھی غصے سے کہا “سامنے آؤ!“ لڑکے نے زور سے کہا،
“لعنت ہو تم پر“ ۔ آواز نے بھی زور سے کہا “لعنت ہو تم پر“
لڑکے کی سمجھ میں یہ سارا ماجرا نہیں آیا اور اس نے اپنے باپ سے یہ بات
دریافت کی۔ اس کا باپ یہ سارا ماجرا دیکھ چکا تھا اس نے لڑکے کو خاموش رہنے
کا کہا اور پھر زور سے کہا “تم بہت اچھے ہو“ آواز نے کہا “تم بہت اچھے ہو“
پھر باپ نے کہا “تم بہت نیک ہو“ آواز نے کہا “تم بہت نیک ہو“ پھر باپ نے
کہا “ میں تمہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں“ آواز نے بھی کہا “میں تمہیں خراج
تحسین پیش کرتا ہوں“ لڑکے کو اب بھی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا
معاملہ ہے۔
اب لڑکے کے باپ نے کہا یہ جو آواز تمہیں سنائی دی تھی وہ تمہاری ہی آواز
تھی جو پلٹ کر واپس آئی تھی اسے بازگشت کہتے ہیں۔ پھر باپ نے بیٹے کو
سمجھایا کہ دراصل یہی حال ہماری زندگی کا ہے دنیا ہمارے ساتھ جو کچھ کرتی
ہے وہ ہمارے ہی عمل کا عکس ہوتا ہے اگر ہم دنیا میں اچھا عمل کریں گے تو
دنیا بھی ہمیں اچھا صلہ دے گی اگر ہم برا عمل کریں گے تو دنیا بھی بدلے میں
ہمارے ساتھ برا سلوک کرے گی۔یہی اس زندگی کا فلسفہ ہے۔
یہاں یہ کہانی ختم ہوگئی ہے لیکن اس کہانی میں ہمارے لیے بہت سبق ہے اگر ہم
چاہتے ہیں کہ لوگ ہماری عزت کریں تو ہمیں لوگوں کی عزت کرنی ہوگی۔ اگر ہم
چاہتے ہیں کہ لوگ ہماری بات سنیں اور ہماری قدر کریں تو ہمیں لوگوں کی بات
سننی پڑے گی، لوگوں کی قدر کرنی پڑے گی۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ہمارے
نظریات کا احترام کریں تو ہمیں لوگوں کے نظریات کا احترام کرنا ہوگا۔ اگر
ہم چاہتے ہیں لوگ ہمارے اکابرین کو ہمارے رہنماؤں کو برا نہیں کہیں ان کی
بے ادبی نہ کریں تو پہلے ہمیں لوگوں کے اکابرین کی، رہنماؤں کی عزت اور ادب
کرنا ہوگا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ہمارے جذبات کا خیال کریں تو ہمیں
دوسروں کے جذبات کا خیال کرنا ہوگا۔ |