اس وقت امتِ مسلمہ ذلت ورسوائی میں ڈوبی نظرآتی ہے۔اس امت
کوگھِن لگ چکا ہے جواسے اندر ہی اندرسے کھائے جارہاہے۔اندرونی وبیرونی دشمن
امت کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں مگن ہیں۔ہر طرف مسلمانوں پر ظلم وستم کے
پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔آزمائشوں اور مصائب کے بظاہراََنہ ختم ہونے والے سلسلے
جاری ہو چکے ہیں۔جدھر بھی نگاہوں کارخ اٹھتا ہے تو نظریں یہ مشاہدہ کرتی
ہیں کہ مسلمان کٹ رہے ہیں ،پِٹ رہے ہیں ،کفار کے ظلم وستم کاہدف بنے نظرآتے
ہیں ۔ ان کے قرآن کو جلایا جارہا ہے ۔ان کے نبی کی توہین کی جارہی ہے۔ان کی
مساجد کو گرایا جارہاہے۔ان کے دین کی ہر نشانی کو مٹانے کی تگ ودو کی جارہی
ہے۔ حالانکہ یہ وہی مسلمان ہیں کہ جن کے گھوڑوں کی ٹاپوں نے ساری دنیا کو
روندا تھا۔یہ وہی مسلمان ہیں کہ جن کے رعب ودبدبے کے سامنے عالی شان محلات
میں رہنے والے قیصر وکسریٰ کانپتے تھے۔دشمنان ِاسلام کے دلوں پر آج بھی ان
کی عظمت کی دھاک بیٹھی ہوئی ہے۔ان مسلمانوں کی ہیبت کا تو یہ عالم تھا کہ
دشمن کی طرف نکلنے سے ایک مہینہ پہلے ہی ان کی دھاک بیٹھ جاتی تھی اور وہ
جزیہ پر مجبور ہو جایا کرتے تھے۔مگر وائے ناکامی!آخرکیا وجہ ہے کس وجہ سے
آج یہ ذلیل ہیں ۔انہیں ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔جب قرآن و
حدیث کا مطالعہ کیا جائے اور تاریخ اسلام کو ٹٹولا جائے ۔معلوم ہوتا ہے کہ
اللہ نے قرآن میں اس کی وجہ کچھ اس طرح بیان فرمائی ہے”کہ(کائنات کے
باسیوںمیں سے)جوبھی انسان (قرآن وحدیث کی) تعلیمات سے اعراض کرے گا تو اس
کی زندگی تنگ کردی جائے گی“(طٰہ:124)تاریخ ِاسلام اس بات پر شاہد ہے کہ جب
تک امتِ مسلمہ احکامِ شریعت پر عمل پیر ارہی ۔خواہشات کو پسِ پشت ڈالے
رکھا۔تو دنیا پر ان کی رفعت وبلندی کا پھریرا لہراتا رہا۔خلفائے راشدین کے
روشن زمانے کی طرف نظریں دوڑائیں۔خصوصاََسیدنا عمررضی اللہ تعالٰی عنہ اور
ان کے بعد مسلم حکمرانوں کے ادوار کو دیکھا جائے ۔تو اوراقِ تاریخ پر یہ
بات درج ملتی ہے کہ جب تک مسلمان سیدھے راستے پر گامزن رہے کامیاب رہے۔مگر
جیسے ہی انہوں نے اسلامی تعلیمات مسخ کرنا شروع کیا ۔ان کے اصل مقاصد کو
فوت کرڈالا۔موسیقی کو روح کی غذابنا ڈالا۔شراب کو شربت کانام دے کرپینے لگے
۔بدکاری وبے حیائی کو ذریعہ تفریح بنالیا۔مال ودولت کی حرص میں آگے سے آگے
نکلنے لگے ۔سودی کاروبارمیں لت پت ہوگئے ۔توان کی ذلت و بربادی کاآغاز
ہوا۔آج کفار ہم پر مسلط ہوچکے ہیں۔انہیں جہاں بھی موقع ملے مسلمانوں کو
نشانہِ ستم بناتے نظرآتے ہیں۔خاص طور پر برما میں تو بدھوﺅں نے اودھم
مچادیا ہے۔وہ کسی خونخوار درندے کی طرح مسلمانوں کا لہو بہا رہے ہیں ۔ان کی
عزتوں کو تارتار کر رہے ہیں ۔کل جو لوگ خوش وخرم زندگی بسر کررہے تھے آج ان
کی خوشیا ں اور سکون ان سے چھین لیا گیاہے۔وہاں کے مسلما ن کمزور ہیں ان کا
کوئی پرساں حال نہیں ۔نہ کوئی دفاع کرنے والا اور نہ کوئی بدلہ لینے والا
ہے۔اس کمزوری کے سبب سے ان کے اطمینان کو غارت کر دیاگیا ہے۔
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
آخر کبھی ہم نے سوچا کہ اس کی وجہ کیا ہے ؟اس سوال کے جواب کے لیئے جب ہم
قرآن وحدیث کی طرف رجوع کرتے ہیں تو رسول اللہ ﷺکا یہ فرمان اس ذلت کی طرف
اشارہ کرتا ہوا نظر آتا ہے:”کہ جب تم سودی کاروبار میں مگن ہو جاﺅ گے،بیلوں
کی دموں کوتھام لو گے،اورزراعت کھیتی باڑی پر ہی اکتفا کرلوگے(یعنی دنیاوی
آسائشوں پر تم فدا ہوجاﺅ گے )اور اللہ کے دین کی سربلندی والے عظیم کام
جہاد سے کنارہ کشی اختیار کرلوگے۔توتم پر اللہ کی طر ف سے ذلتوں کانزول
شروع ہو جائے گا۔تم پر رسوائیاں مسلط کردی جائیں گی۔تم پر مصائب آن پڑیں
گے۔غرض کہ تم ہلاکت کی راہ پر گامزن ہو جاﺅ گے اوریہ ذلتیں ،رسوائیاں ،مصائب
اورتکالیف اس وقت تک تم پر مسلط رہیں گی جب تک تم اپنے دین کی طرف واپس نہ
پلٹ آﺅ“(ابودﺅد:3462)آج جولوگ دینِ اسلام کی سربلندی کی راہ پر گامزن
ہوں۔انہیں دہشت گرد کہا جاتاہے ۔ان پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں ۔ان کی
راہوں میں روڑے اٹکا ئے جاتے ہیں۔انہیں بدنام کیا جاتا ہے۔اس کے برعکس
جولوگ حقیقی دہشت گردی میں ملوث ہیں ۔وہ انسانیت کوراہِ فطرت سے ہٹا کر غیر
فطری راہوںمیں دھکیلتے نظر آتے ہیں ۔انسانیت کو بربادی کی راہوں پر چلانے
وا لوں کو امن کا تمغہ پہنایا جاتاہے۔
آج انصاف کے نام پر نا انصافی ہو رہی ہے ۔عدل کے نام پر دھوکہ دیا جارہا
ہے۔امن کے نام پر بد امنی وبے سکونی پھیلا ئی جارہی ہے۔صراطِ مستقیم کو
چھوڑ کر دنیا کی فانی راہوں کا انتخاب کر لیا گیا ہے۔پھر بھی چاہت ہے امن و
سکون کی ،پھر بھی خواہش ہے راحت وسرور کی ۔اے متلاشیانِ امن! سنو قرآن کیا
کہہ رہا ہے:”اے نبی ﷺان لوگو ںسے کہہ دیجئے کہ اگرتمہارے والدین،تمہاری
اولادیں ،تمہارے بہن بھائی،تمہاری بیویاں،تمہارے رشتے دار،تمہارے وہ اموال
کہ جنہیں تم نے جمع کرکے رکھاہوا ہے،تمہاری وہ تجارتیں جن کے نقصان سے تم
ڈرتے ہواورتمہای کوٹھیاں ،بنگلے تمہیں اللہ سے زیادہ محبوب ہیں۔اس کے رسول
ﷺسے بڑھ کر پسند ہیںاور اللہ کے دین کی سربلندی والے عظیم عمل جہاد سے بڑھ
کر پسندیدہ ہیں توپھر اللہ کے عذاب کے نزول کا انتظار کرو۔“(التوبہ:24)اگر
اب بھی ہمیں رسوائی و بربادی کی اصل وجہ سمجھ نہیں آئی تو پھر ہم سے بڑھ کر
بڑاکم عقل کوئی نہیں۔اے مال ودولت کے انبار لگانے والواور اسے گن گن کر
سنبھال سنبھال کر رکھنے والو۔اے دنیاکی لافانی زیب وزینت پر مرمٹنے والو۔اے
خزانوں کے ڈھیروں کے مالکو۔اپنے اموال کو راہ فی سبیل اللہ میں خرچ نہ کرنے
والو۔تم ایسا کرکے راہِ ہلاکت پر رواں دواں ہو۔اگر یقین نہیں آتا تو صحابی
ِرسول سیدناابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان پڑھ لو۔آپ رضی اللہ
عنہ نے فرمایا:”کہ قرآن کی یہ آیت ”کہ تم اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ
ڈالو“ہمارے بارے میں اس وقت نازل ہوئی جب ہم نے یہ مشورہ کیاکہ اللہ نے
اپنے نبی ﷺپر فتوحات کے دروازے کھول دیئے ہیں ۔اس کی نصرت و مدد کا پختہ
وعدہ کرلیا ہے۔اسلام غالب آچکا ہے۔توکیوں نہ ہم اپنے اموال کو سنبھالیں اور
ان کی دیکھ بھال میں مصرو ف ہو جائیں۔تو اللہ نے یہ آیات نازل فرما دیں ”کہ
تم اپنے اموال کو راہ ِفی سبیل اللہ میں خرچ کرو اور اپنے آپ کو ہلا کت میں
نہ ڈالو۔“تو اس ہلاکت سے مراد یہ ہے کے اموال کی دیکھ بھال میں مگن ہو کر
دین اسلام کی چوٹی جہاد کو چھوڑ دیاجائے ۔“ (ابوداﺅد:2512)مگر افسوس کہ
اندیشہِ رسوائی کی وجہ سے نکلنا تو درکنا ر اس کا نام تک لینے کی جرائت
نہیں کرتے۔ایسا کرنے والوں کو پابندیوں اور پابندِ سلاسل جیسی تکالیف کا
سامنا کرنا پڑتا ہے۔
آج اگر یہود تربیت حاصل کریں تووہ دفاع کہلائے اورمسلمان تربیت حاصل کریں
تودہشت گردی کہلائے۔یہ کہاں کا انصاف ہے۔آج باربار ٹیری جونز قرآن جلانے کی
خبر علی الاعلان دے رہا ہے ۔تویہ جرئت اسے کس نے دی ہے ؟ہم ہی مجرم ہیں ۔جس
عمل کے ذریعے ظالموں کے ہاتھ ہم نے روکنے تھے۔وہ عمل کے جس کے بارے میں
قرآن میں سینکڑوں آیات نازل ہوئیں ۔وہ عمل کہ محدثین نے کتبِ احادیث میں اس
کے لیئے علیحدہ ابواب باندھے۔اس کو چھوڑاتو آج ہم ان کو جزیہ دے رہے ہیں جن
سے لیا کرتے تھے ۔اگر ہم نے اس بے حسی کو ختم نہ کیا تو قرآن کے مجرم ہم
ہوں گے ہمیں سکون نصیب نہ ہوگا۔
ہاں ہاں !قارئین ذی وقار !اگر آج امن وسکون کی زندگی کی چاہت ہے ۔کھوئی
ہوئی رفعت وعزت اور بلندیا ںحاصل کرنے کی تمنا ہے تو پھر سلَف صالحین صحابہ
کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ،تابعین،تبع تابعین اوربعدمیں ان کے نقش قدم
پر چلنے والوں کی راہوں کا انتخاب کرنا ہوگا ۔اسی شاہراہ پر گامزن ہو کر ہی
کامیابی ممکن ہے ۔ان جیسی تاریخ دہرانے کی ضرورت ہے۔
صفحہ دہر سے باطل کو مٹا یا کس نے ؟
نوعِ انسانی کو غلا می سے چھڑایا کس نے؟
میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے؟
میرے قرآن کو سینوں سے لگا یا کس نے؟
تھے تووہ آبا تمہارے ہی مگر تم کیا ہو؟
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فرداہو! |