نبی اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی محبت کے بغیر
آپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ایمان لانا متصورنہیں ہے، مومن کیلئے
ضروری ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اپنی جان ، باپ
، بیٹے اور مخلوق سے زیادہ محبوب رکھے، جیسے کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایاہے:
اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ (پ۲۱،الاحزاب:۶)
ترجمہ کنزالایمان:یہ نبی مسلمانوں کا ان کی جان سے زیادہ مالک ہے۔
اور سرکار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں: تم میں سے
کوئی ایک ہر گز (کامل) ایماندار نہیں ہوگا جب تک کہ میں اسے اسکی جان سے
زیادہ محبوب نہ ہوں۔‘‘
(المسند لامام احمد بن حنبل،حدیث عبداللّٰہ بن ربیعۃ السلمی، الحدیث۱۸۹۸۳،
ج۷،ص۹)
یہ بھی فرمایا: ’’تم میں سے کوئی (کامل)ایماندار نہیں ہوگا جب تک میں اسے
باپ، بیٹے اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوں۔‘‘
(صحیح البخاری،کتاب الایمان،باب حب الرسول من الایمان، الحدیث۱۵،ج۱،ص۱۷)
علاماتِ محبت
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم سے محبت کی بہت سی علامتیں اور آثار
ہیں جو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی محبت کے امتحان کے لئے کسوٹی
کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان میں سے ایک علامت حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلم کا بکثرت ذکر کرنا ہے۔حدیث شریف میں ہے: ’’ مَنْ اَحَبَّ شَیْأً
اَکْثَرَ ذِکْرَہُ ‘‘ جوشخص کسی سے محبت رکھتا ہے، ا س کا ذکر بکثرت کرتا
ہے۔
(کنزالعمال،کتاب الاذکار،الباب الاول،الحدیث۱۸۲۵،ج۱،ص۲۱۷)
تعظیم
کثرت ذکر کے ساتھ ساتھ ایک علامت یہ بھی ہے کہ تعظیم و تکریم کا کوئی دقیقہ
فروگزاشت نہ کیا جائے اور حضورسید الانام صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم
کا نام پاک کمال تعظیم وتکریم اور صلوٰۃ و سلام کے ساتھ لے اور نام پاک
لیتے وقت خوف و خشیت عجزو انکساری اور خشوع و خضوع کا اظہار کرے۔
لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَکُمْ کَدُعَآءِ بَعْضِکُمْ
بَعْضًا ( پ۱۸،النور:۶۳)
ترجمہ کنزالایمان: رسول کے پکار نے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم
میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے
تفسیر کبیر میں ہے:
لاتنادوہ کما ینادی بعضکم بعضا لا تقولوا یامحمد یا اباالقاسم ولکن قولوا
یا رسول اللّٰہ یا نبی اللّٰہ .(التفسیرالکبیر،ج۸،ص۴۲۵،پ ۱۸،النور:۶۳)
’’ نبی اکر م صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اس طرح نہ پکاروجیسے تم
ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔ یوں نہ کہو یا محمد یاابا القاسم! بلکہ عرض کرویا
رسول اﷲ، یا نبی اﷲ‘‘
(یعنی نبی اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کو نام یا کنیت سے نہ پکارو
بلکہ اوصاف اور القاب سے یاد کرو)
اﷲ تعالیٰ فرماتاہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ
صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَاتَجْھَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَھْرِ بَعْضِکُمْ
لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَا لُکُمْ وَاَنْتُمْ لَاتَشْعُرُوْنَ
(پ۲۶،الحجرات:۲)
ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو ! اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے
والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک
دوسرے کے سامنے چلاتے ہوکہ کہیں تمہارے عمل اکارت نہ ہوجائیں اور تمہیں
خبرنہ ہو۔
ابو محمد مکی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:
ای لاتسابقوہ بالکلام ولاتغلظوالہ بالخطاب ولاتنادوہ باسمہ نداء بعضکم بعضا
ولکن عظموہ ووقروہ ونادوہ باشرف مایحب ان ینادی بہ یارسول اللّٰہ! یا نبی
اللّٰہ. (الشفاء،الباب الثالث،ج۲،ص۶۵)
’’یعنی کلام میں نبی اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم سے سبقت نہ کرو
اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم سے ہم کلام ہوتے ہوئے سختی سے بات
نہ کرو اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلمکا نام لیکر نہ پکار و جس طرح
تم ایک دوسرے کوپکارتے ہو بلکہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تعظیم
و توقیرکرواور اشرف ترین اوصاف سے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کو
نداء کر و جن سے ند اء کئے جانے کو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم پسند
فرمائیں اور یوں کہو یارسول اﷲ! یانبی اﷲ !۔‘‘(عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلم )
نبی اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بے ادبی کفر ہے
اﷲ تعالیٰ نے اہل ایمان کو نبی اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے لیے
آواز بلند کرنے اور تعظیم و توقیر کے بغیر بلانے سے منع فرمایا اورحضور صلی
اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اس بے ادبی کورو انہیں رکھا اور اس عظیم جرم
کے مرتکب کو اعمال کے برباد ہوجانے کی وعید سنائی، معلوم ہوا کہ بارگاہ
رسالت کی بے ادبی اعمال کے ضائع ہو جانے کا سبب ہے اور تمام علماء کا اس پر
اتفاق ہے کہ کفر کے سواکوئی گناہ اعمال کے ضائع ہونے کا سبب نہیں ہے اور جو
چیز اعمال کے ضیاع کا سبب ہو،کفر ہے ۔
اب غور کرنا چاہیے کہ نبی اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بے ادبی
اعمال کے ضائع ہو جانے کا سبب ہے اور جو ضیاع اعمال کاسبب ہو کفرہے ، نتیجہ
یہ ہوا کہ نبی اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بے ادبی کفر ہے۔ یہ
بھی پیش نظرر ہے کہ حیات ظاہری میں اور وصال کے بعد نبی اکرم صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ واٰلہٖ وسلم کی شان تعظیم و تکریم کے سلسلے میں یکساں ہے۔
امام مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا ابو جعفر منصور سے مکالمہ
ابو جعفر منصور بادشاہ مسجد نبوی علی صاحبہ الصلوۃوالسلام میں حضرت امام
مالک علیہ الرحمۃسے ایک مسئلہ میں گفتگو کررہا تھا، امام مالک علیہ
الرحمۃنے اس سے فرمایا:
یا امیرالمؤمنین لاترفع صوتک فی ھٰذا المسجد فان اللّٰہ عزوجل ادب قوما
فقال: لَا تَرْ فَعُوْااَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ الآیۃ و مدح
قوما فقال: اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَھُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ
اللّٰہِ الآیۃ وذم قوما فقال:اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَکَ مِنْ وَّرَآءِ
الْحُجُرَاتِ الآیۃ وان حرمتہ میتاکحرمتہ حیا فاستکان لھا ابو جعفر وقال یا
اباعبداﷲ استقبل القبلۃ وادعو ام استقبل رسول اﷲ؟ فقال ولم تصرف وجھک عنہ
وھو وسیلتک ووسیلۃ ابیک آدم علیہ السلام الی اﷲ تعالی یوم القیامۃ بل
استقبلہ واستشفع بہ فیشفیعہ اﷲ عزوجل. (الشفاء ،الباب الثالث،ج۲،ص۷۲)
’’اے مسلمانوں کے امیر! اس مسجد میں آواز بلند نہ کر کیوں کہ اﷲ تعالیٰ نے
ایک جماعت کو ادب سکھایا اور فرمایا:
لَا تَرْ فَعُوْااَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ(پ۲۶،الحجرات:۲)
ترجمہ کنزالایمان:اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی
آواز سے ۔
اور ایک جماعت کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَھُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ
أُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوبَہُمْ لِلتَّقْوٰیط لَہُمْ
مَّغْفِرَۃٌ وَّأَجْرٌ عَظِیْمٌo
(پ۲۶،الحجرات:۳)
;ترجمہ کنزالایمان:بے شک وہ جو اپنی آوازیں پست کرتے ہیں رسول اﷲ کے پاس وہ
ہیں جن کا دل اﷲ نے پرہیز گاری کے لیے پرکھ لیا ہے ان کے لیے بخشش اور بڑا
ثواب ہے۔
اور ایک جماعت کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَکَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرَاتِ
(پ۲۶،الحجرات:۴)
¯ترجمہ کنزالایمان:بے شک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں
اکثر بے عقل ہیں ۔
بے شک بعد از وصال حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی عزت ایسی ہے
جیسی آپ کی حیات ظاہری میں تھی۔ (یہ سن کر) ابو جعفر نے فروتنی کا اظہار
کیا اور کہا اے ابو عبداﷲ (امام مالک رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کی کنیت) قبلہ رو
ہوکر دعا کروں یا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی طرف رخ کروں؟
امام مالک رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہنے فرمایا: تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلم سے کیوں رخ پھیرتا ہے حالانکہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلم قیامت کے دن بارگاہ الہی عزوجل میں تیرے اور تیرے جدامجد آدم علیہ
السلام کے وسیلہ ہیں، تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی طرف رخ کر
اور شفاعت کی درخواست کر، اﷲ تعالیٰ تیرے لئے شفاعت قبول فرمائیگا۔
(ماخوذ از:کتاب،صحابہ کرام علیہم الرضوان کا عشق رسول)
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف و کرم سے مجھے
بس اک بار کہا تھا میں نے یا اﷲ مجھ پر رحم فرما مصطفی کے واسطے |