عربی کی ضرورت اور اہمیت(حصہ دوم)

عمومی طور پر تمام مسلمانوں کے لیے اور خصوصی طور پر علماءکے لیے عربی سیکھنا کیوں ضروری ہے؟اسکاجواب بالکل واضح ہے کہ ہمارا عربی زبا ن سے رشتہ دین کی وجہ سے ہے۔ہماری پوری شریعت کا مدار عربی ز با ن پر ہے ۔قرآن ،حدیث ،فقہ تمام کے تمام عربی میں ہیں ۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے معروف قول "تعلموا العربیة فانھا من دینکم" کہ عربی زبان سیکھو کیوں کہ یہ آپکے دین میں سے ہے اس مختصر مگر جامع الفاظ سے امت کے لیے عربی زبان کی حیثیت کا تعین ہمیشہ کے لیے ہو تا ہے ۔

اللہ تعالیٰ کا کلام قرآن مجید عربی میں نازل ہوا،اس لیے ایک سچے مسلمان کے نزدیک عربی کے علاوہ دوسری زبان اس کے مقابلے میں اہمیت کی حامل نہیں ، اس لیے تمام مسلمانوں پر عربی کا سیکھناایک گونہ فرض ہو جاتا ہے۔ قرآن کا عربی میں ہونا یہ دلیل ہے کہ عربی زبان دنیا کی سب سے پہلی زبان ہے،ابتدائے کائنات سے لیکر بعثت نبوی تک عربی زبان کی ایک اپنی تاریخ ہے، لیکن اسلام کے ساتھ ہی یہ دماغوں پے چھا گئی ،زبانوں پر جاری ہوتے ہوئے خطوں کو عبور کر کے پوری دنیا پر پھیل گئی،مشرق سے مغرب تک اس زبان نے آپنے آپکو منوا لیا۔

حقیقت یہ ہی کہ برصغیر میں بعثت سے قبل ہی عربی زبان کا تعارف موجود تھا ،اس سلسلے میں تاریخی شواہد موجود ہیں ،ظہور اسلام کے بعد عربوںکی فتوحات سے لیکر مغلوں کے آخری دور تک عربی زبان یہاں کسی نہ کسی حوالے سے رہی ہے ،چنانچہ پورے برصغیر میں جن جن علاقوں کے باشندوں نے اسلام قبول کیا، عربی زبان نے وہاں پوری قوت سے اپنا اثر ڈالا ، یوں برصغیر میں عربی کا اثر رسوخ پختہ ہوتا چلا گیا۔

فطرت کے اصولوں سے قریب تر رہنے والی زبان عربی ہمیشہ ہی سے حیات ِجادواں کی امین رہی،نہ صرف خود زندہ رہی بلکہ دیگر زبانوں کے لیے بھی زندگی کی بخشش کا فطری کردار ادا کرتی رہی ، یہ زبا ن ابتدائے اسلام ہی تاریخ کے ہر دور میں ترقی یافتہ رہی ہے،اس میں تمام لسانی ضرورتوں کو پورا کرنے اور اظہار خیال کا ذریعہ بننے کی بھر پور صلاحیت موجود ہے، قرآن کی بدولت اپنی اصلی شکل میں محفوظ ہے۔ اسکا فطری تقاضا ہے کہ ہمارا تعلق بھی اس کے ساتھ ایک زندہ اور عملی ہو، ہم اس کو ایک وسیع انسانی زبان کی طرح جانتے ہوں، اس میں بے تکلف اظہارِ خیال بھی کر سکتے ہوں، اس کو تقریر و تحریر میں استعمال کر سکتے ہوں ، یہ ہماری تصنیفات،خط وکتابت اور مجالس کی زبان ہو۔یہ ایک بڑی ناقابل فھم با ت ہے کہ کوئی فرد یا جماعت اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ ان علوم کی تصنیف وتدریس میں لگا دے جو عربی میں ہےں،لیکن اس زبان میں اظہار ِخیال کرنے سے معذور ہو۔

اس معذوری کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اس کو زبان کی حیثیت سے پڑھنے پڑھانے کی کوشش نہیں کی ،بلکہ اسکو بھی ایک نظری علم ،اور کتابی فن کی حیثیت سے دیکھا گیا اور کتابوں کو سمجھنے کا ذریعہ سمجھا جانے لگا،اور اس کا انجام یہ ہوا کہ ہمارے مدارس کے فضلا ءعلی سبیل العموم عربی زبان میں گفتگو پر قادر نہیں۔

ہماری درسگاہوں میں عربی زبان وادب کی نہایت وقیع اور معیاری کتابوں کی تعلیم ہوتی ہے اور اسکی تدریس کئی سال جاری رہتی ہے ،جو بڑی محنت اور جانفشانی سے کی جاتی ہے، پھر خاص طور پر عربی کے حوالے سے مضامین محنتی استاذ کے حوالے کیے جاتے ہیں ،چنانچہ طلباءقواعد بڑی محنت سے پڑھتے ہیں، بلکہ حفظ کرکے فر فر سناتے ہیں، پھر بڑی جماعتوں میں عربی زبان کی بلاغت اور معانی کی مستند کتابوں کی تدریس بھی ہو تی ہے، مگران علوم پر اتنی توجہ دینے کے باوجود بھی طلباءان میں پسماند ہ کیوں ر ہ تے ہیں؟ پھر بھی عربی زبان کے عملی استعمال یعنی اس میں گفتگو کی قدرت کیوں نہیں پائی جاتی اور سخت ضرورت کے وقت بھی معمولی بول چال اور تحریر پر بے بس نظر کیوں آتے ہیں؟اہل زبان سے ملاقات کے وقت ان کی باتوں کو کیوں نہیں سمجھ پاتے ؟عصر حاضر میں اخبارات ،مجلات،اور عربی ویب سایئٹس سے استفادہ کیوں نہیں کر پاتے؟اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی طویل تعلیمی عرصے میں ان کتابوں کا ترجمہ یاد کرتے ہیں، قواعد واصول کو صرف نظر کر کے زبانی حد تک یاد کرنے کی کو شش کرتے ،روز مرہ استعمال ہونے والے محاورات تک سے ناواقف رہتے ہیں۔

یہ کمزوری تو بہت پہلے اہل علم کومحسوس ہو چکی تھی مگر اب جبکہ عرب ممالک سے ہمارے اختلاط کے مواقع بہت ہو گئے ہیں، دینی خدمات کے میدان وسیع ہو گئے، تو یہ شدت اب بہت زیادہ محسوس کی جانے لگی ہے،عصر حاضر میں عربی زبان کو سرکاری،لازمی تعلیمی زبانوں میں شامل کرنے کی تحریک ایک فیصلہ کن صورت اختےار کر چکی ہے ،چنانچہ اقوام متحدہ کی عالمی زبانوں میں اسکی حیثیت تسلیم کی جا چکی ہے-
zubair
About the Author: zubair Read More Articles by zubair: 40 Articles with 70510 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.