بہت سے ذھنوں میں یہ سوال کہ ہمارا نظامِ تعلیم محض ڈگریوں کے حصول کے
لیے ہی کیوں ہے ؟ کیا اس نظامِ تعلیم کی دیگر راہیں متعین نہیں کی جا سکتیں
؟
ہمارے پاس عمدہ تعلیمی ادارے موجود ہیں بڑی بڑی عمارتیں اور ان میں بنی
ریسرچ لیبارٹیز کے علاوہ اربوں روپے کے سالانہ بجٹ بھی ہماری تحویل میں ہیں
لیکن ان تعلیمی اداروں میں اُن علوم کی تربیت کے خاطر خواہ مواقع میسر نہیں
کیے جا رہے جو قوموں کی زندگی میں تبدیلیوں کا عنصر رکھتے ہیں۔ہمارے نظامِ
تعلیم میں روز مرّہ کی زندگی میں پیش آنے والے عوامل کے لیے کوئی ایک بھی
ایسا مضمون شامل نہیںجس کوپڑھنے اور سیکھنے کے بعد کسی قسم کی کوئی واضع
تبدیلی لائی جائے سکے۔
یہ حقیقت ہے کہ جب کوئی بچہ سیکھنے کے عمل سے گذر رہا ہو تو اُس بچے کواگر
ایسے علوم سکھائے جائیں و جس سے اُسکی زندگی میں سوسائٹی اورریاست کی ایک
واضع شبیہ نظر آئے۔
مثال کے طور پر ہمارے نظامِ تعلیم میں ٹریفک قوانین کے بارے پرائمری سطح پر
تعلیم نہیں دی جاتی نہ ہی کوئی ایک ایسا مضمون متعارف کرایا جاتاہے جس سے
بچوں میں ٹریفک قوانین کے بارے مکمل معلومات فراہم کی جا رہی ہوںاسی طرح
ماحولیات کے بارے کوئی مضمون نہیں جس سے یہ باور ہو کہ ہم اپنی نئی نسل کی
پرورش کن خطوط پر کر رہے ہیں۔
اقوامِ عالم میں سماجی علوم کی فوقیت سے کون انکار کر سکتا ہے لیکن اس کے
برعکس ہمارے نظامِ تعلیم میں ان مضامین کو پرائمری سطح سے ہی نظر انداز کر
دیا گیا ہے جس سے ہمارے اندر من حیث القوم سماجی سوجھ بوجھ نا پید ہو تی
جارہی ہے۔کسی حد تک اخلاقی اقدار پڑھائی جاتی ہیں یکن اُن کا تسلسُل برقرار
نہیں رکھا جاتا اسی طرح منشیات کے اُن عوامل کا ذکر نہیں کیا جاتاجس سے
نوجوان نسل تباہی کے دہانے بے چارگی کی موت مر جاتی ہے۔ریسکیو اور فرسٹ ایڈ
کے بارے ہمارے نصاب ِتعلیم میں کو ئی خاطر خواہ علم موجود نہیں جس کا
ابتدائی سطح پر ہونا ایک لازمی جزو ہے۔کسی بھی ہنگامی اور مشکل حالات میںہم
بے چارگی کی تصویر بنے اقوامِ عالم کی راہ تکتے رہ جاتے ہیں۔
پاکستان میں آئے روز حادثات معمول بنتے جارہے ہیں وجہ بُنیادی فہم کا نہ
ہونااور تربیت میں ربط کا فقدان ہے اسی لیے ان حادثات کا تناسُب پوری دُنیا
میں سب سے زیادہ ہے۔ ماحول میں جو گھُٹن اور شدت دھیرے دھیرے بڑھتی چلی جا
رہی ہے اُس کے بارے جاننا نہایت اہم ہے۔منشیات کے استعمال کی وجہ سے ایک
پوری نسل تباہی وبربادی کے دہانے پر قطار در قطارپہنچ رہی ہے جوکسی سے
پوشیدہ نہیں۔
آئے روز ہنگامے،لوٹ مار اور مختلف بہانوں سے آتش زنی کے واقعات سب کے سامنے
ہیں اخلاقی قدروں سے لا علمی ان وجوہات کا بُنیادی سبب ہیں۔سماجی علوم اور
انتھروپالوجی جیسے مضامین کوابتدائی تعلیمی سطح پر متعارف کروا دینے سے
ہماری نئی نسل میں شائستگی کے ساتھ ساتھ خاندانی نظام کی بقاءکو دوام میسر
رہے گا۔
ہمارے پاس تمام ذرائع موجود ہیں لیکن طریق کار کے اختیار کرنے میں نامعلوم
خوف اور خود ساختہ پیچیدگیاں سر اُٹھائے کھڑی ہیں محض نظام تعلیم میں جو
کمی ہے اُسے پورا کرنے کے ،ہم آنے والا ہر دن قدم قدم ایک گہری کھائی کی
جانب پیچھے ہٹتے جا رہے ہیںجس میں گرتے ہی ہماری آوازیں چند لمحوں کے سکوت
میں بدمزگی کا سبب بنیں گی۔
خلیل جبران نے کہا تھا،
”انسان اگر صحیح راستے پر چل رہا ہو تو سانچ کو آنچ نہیں،کوئی گرفت اُسے
نقصان نہیں پہنچا سکتی نہ مخالفت اُسے مٹا سکتی ہے۔سقراط نے زہر پیا تو اُس
کے ہونٹوں پر تبسم تھا اور جب سٹیفن کو سنگ سار کیا گیا تو ہنس رہا تھا
حقیقتاً جوچیز ہمیں مجروح کرتی ہے وہ ہمارا ضمیر ہے جو اُس وقت خلش پیدا
کرتا ہے جب ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں اور اُس وقت تو اُس کی موت ہو جاتی ہے
جب ہم اس کو دھوکہ دیتے ہیں“ - |