رانی کی راج دھانی

بچپن کے آنگن سے سسرال کی دہلیز کا سفر عورت کی زندگی میں عجیب نشیب و فراز لیے ہوتا ہے۔ بچپن کا آنگن میکے کا گھر ماں باپ بہن ، بھائی مزے مزے کی نوک جھوک عمر بھر جیسے دماغ میں پیوست ہوجاتی ہے۔ وقت پنکھ لگا کر اُڑ جاتا ہے۔ ماں باپ کی ننھی گڑیا۔ جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھتی ہے اور پھر عقد النّکاح کے بندھن سے بندھ کر پیّا گھر چلی جاتی ہے۔ آنکھوں میں ہزار خواب سجائے زندگی کی تلخیوں سے ناآشنا ایک خیالی زندگی کا تانہ بانہ دماغ بُنتا چلا جاتا ہے۔ ان خیالات کی خوبصورت چادر اُڑھے سسرال کی دنیا استقبال کرتی ہے۔

اپنے اہم ہونے کا احساس اِس نئی جگہ پر قدم رکھتے ہی اتنا شدید ہوتا ہے کہ سر سے لے کر پاﺅ ںتک رُوا رُوا اک عجب ذوم اور فخر سے سرشار کہہ رہا ہوتا ہے کہ ”اب میں اِس گھر کی رانی ہوں یہ میرا گھر ہے“ لیکن در حقیقت اِس رانی کو اپنی راج دھانی چلانے کے لئے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔حقیقی دنیا میں افسانوی کرداروں کیلئے کوئی جگہ نہیں۔ عورت بیوی بننے سے پہلے کسی کی بیٹی ہے۔ اُسکا خاوند کے گھر کو بسانا ایک فطری عمل ہے۔ شوہر کا گھر ہی عورت کا گھر کہلاتا ہے۔ لیکن پھر بھی عورت جب ماں باپ کا گھر چھوڑ کر شوہر کے گھر پہنچتی ہے تو اُس کے دل میں غیر محسوس طریقے سے ایک نفسیاتی اور جذباتی خلا پیدا ہوتا ہے۔ اور اِس خلا کو پُر کرنے کے لئے اُس کی زندگی کا محور اُسکے شوہر تک محدود ہوجاتا ہے۔ اِس جذباتی ہیجان کو نہ عورت سمجھ پاتی ہے نہ اُسکا خاوند نہ سسرال والے۔ بیٹی کو یہ سمجھا کر رخصت کیا جاتا ہے کہ گرہستی سنبھالنا ، ساس سسر کی خدمت کرنا، تمھارا جنازہ اِس گھر سے رخصت ہونا چاہیے۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ہیں ۔ پر طریقہ کار۔ وہ نہیں سمجھایا جاتا۔ لیکن اگر سسرال میں روزِ اوّل ہی سے چند باتوں کو اپنے پَلو سے باندھ لیا جائے تو یقینا زندگی روز بروز خوبصورت بنتی چلی جائے گی۔ اور یوں نئی نویلی دُلہن نہ صرف رانی بن کر راج کرے گی بلکہ اپنے خاوند کے دل میں جگہ بھی بنالے گی۔

نئے گھر میں جگہ بنانا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ نئی نویلی دلہن اکثر اُن رشتوں کی مضبوطی اور اہمیت کو فراموش کر بیٹھتی ہے جو خاوند سے جڑے ہوئے ہیں۔ساس، سسر، دیور ، جیٹھ ،نند یہ سب رشتے سسرال کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ اگر عورت اِن رشتوں کا خیال نہ رکھے تو گھر میں ناچاکی جنم لیتی ہے۔

بعض مرد اِس معاملے میں لاپروا ہوتے ہیں کہ اُن کے گھر والوں کا خیال رکھا جائے نہ رکھا جائے اُنہیں فرق نہیں پڑتا لیکن بہر حال سارا دن گھر والوں کے ساتھ تو اُس عورت کو ہی رہنا ہے۔ اُن کے دل جیتنا اور اخلاق سے پیش آنا گھر میں جگہ بنانے کا پہلا قدم ہے۔ عورت اگر اخلاق اور صبر سے کا م لے تو رفتہ رفتہ سارا گھر اُسکا گرویدہ ہوجاتا ہے۔ اپنے مزاج سے ہٹ کر حرکات و سکنات برداشت کرنا آسان نہیں۔ اکثر سسرالیوں سے زچ کر غصّے میں غلط لفظوں کا استعمال بھی ہو جاتا ہے جو شرمندگی کا باعث بنتے ہیں۔

عورت کے خلوص اور نیت میں اتنی چاشنی اور صبر ہونا چاہےے کہ سسرال والے اُس کے پیار سے مرید بن جائیں۔ رشتوں میں محبت صرف لفظی کھیل نہیں۔ بلکہ عورت کا اعلیٰ قسم کا کردار ، خیالات ، حرکات اِس کا ثبوت ہوتا ہے۔ گرہستی چلانے کے لئے عقل ، تحمل اور بردباری کی ضرورت ہوتی ہے۔

سسرال میں مزاج کے خلاف بہت سی باتیں ہوتیں ہیں اُس وقت یہ دُعا کرنی چاہیے کہ ”اے اللہ مجھے صبر دے اور اِسکا اجر دے“ صبر درحقیقت کوئی آسان کام نہیں یہ ہر چھوٹی بات سے بڑی بات تک کرنا پڑتا ہے۔ شادی سے پہلے میکے کی دنیا میں صبر سے کم ہی واسطہ پڑتا ہے۔ اپنا گھر چلانے کے لئے عورت کو زیادہ قربانیاں صبر و تحمل اور ہر قسم کے سمجھوتے سے کام لینا ضروری ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ دوسروں کی مانی بھی جائے اور اپنی منوائی بھی جائے۔ بس ذرا پیار اور سمجھداری کی ضرورت ہے۔

سسرال والوں سے اچھے تعلقات اَستوار کرنے کے ساتھ ساتھ خاوند کے دل میں پہلے دن کی سی محبت کو برقرار رکھنا بھی کسی محاذ سے کم نہیں۔ بیوی کا دھیمہ لہجہ اور پرسکون اندازِ گفتگو شوہر کی توجہ حاصل کرنے کا پہلا گُر ہے۔ بعض خواتین روزانہ بندوق کی گولیوں کی طرح برستی رہتی ہیں۔ نتیجتاً گھر گھر نہیں رہتا جہنم بن جاتا ہے۔

مرد تھکا ہارا گھر لوٹتا ہے ابھی سانس بھی نہیں لے پاتا کہ سوالات اور شکوں کی بوچھاڑہوجاتی ہے۔ اتنی دیر کیوں لگادی کہاں چلے گئے تھے۔ گھر میں آٹا دال نہیں تمھاری امّاں بہنوں نے آج یہ کارنامہ دکھا یا وغیرہ وغیرہ۔ روزانہ کی یلغار سے تنگ آکر مرد گھر سے باہر رہنے لگتے ہیں اور یوں باہمی رابطے محض خانہ پوری تک رہ جائینگے۔ اگر معاملہ فہمی سے وقت پر کام نہ لیا جائے تو شوہر ایسا ہاتھ سے جائیگا کہ لوٹ کر واپس نہ آئیگا۔ اُس وقت اپنا سر پیٹنا اور بال نوچنا بیکار ہوگا۔ بیوی اگر اپنے بناﺅ سنگھار جسمانی دیکھ بھال ، دھیمے لہجے ، ہنستے چہرے کے ساتھ اپنے شوہر کا استقبال کرے گی تو اِن پر سکون لمحات سے بھرپور زندگی کبھی بھی شوہر کو گھر کے معاملات سے دور نہ رہنے دیگی۔ وہ خود ہی بڑھ چڑھ کر گھریلو مسائل میں دلچسپی لے گا۔ اور اپنی بیوی کے سکون کا خیال رکھے گا۔

بیوی کے لئے یہ نقطہ سب سے زیادہ اہم ہے کہ وہ اپنے شوہر کو اپنا دوست بنالے ساری پریشانیاں ، مسائل خود بخود حل ہوتے چلے جائیں گے۔ شوہر کے من پسند کھانے کا اہتمام کرنا اُسکے پہناوے میں دلچسپی لینا۔ غیر محسوس انداز میں اِس تعلق کی پہلے دن کی سی محبت کو بر قرار رکھتا ہے۔

شوہر اور سسرال کی باتیں میکے میں جاکر کرنا عقلمندی نہیں یہ بلکل ایسا ہی ہے جیسے اپنے گھر کا تماشہ بیچ بازار لگا دیا جائے۔ آپ کے اندر اتنی صلاحیت ہونی چاہیے کہ آپ تن تنہا اپنے مسائل کو حل کر سکیں ۔ ظالم کو زیر ، بد کو اچھا ، نرم مزاج کو مرید کرنا آپ کے لئے قطعاً مشکل نہیں فقط ذرا دماغ کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔

آپ کے جسم کے مرکز دل میں خلوص ، صاف نیت اور پیار ہوگا تو دنیا آپ کے گُن گائے گی۔ آپ سے غلطی سر زد ہو سکتی ہے پر اُس غلطی کا سدھاربھی آپ کے اپنے ہاتھوں میں ہے۔ اگر صبر و تحمل کا دامن نہ چھوڑا جائے اور روا داری درگزر سے کام لیا جائے تو جھگڑے پیدا ہی نہیں ہوتے اور باہمی تعلقات خوشگوار ماحول میں پرورش پاتے ہیں۔
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 282702 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.