سربجیت کا قتل، میڈیا کا زہریلا پروپیگنڈہ اور مسلمان

دنیامیں اگرمیڈیا بے لگام ہوجاتا ہے تو فوراً اس پر کارروائی کی جاتی ہے ۔ نئی بندشیں لگائی جاتی ہے، اقدار کا سبق پڑھایا جاتا ہے،نیوز اور ویوز(خبریں اور خیالات) میں فرق سمجھایا جاتا ہے لیکن جب کسی ملک کا پورا کا پورا میڈیا اس دلدل میں دھنسے کو قوم پرستی، دیش بھکتی اور اس بیہودہ رویہ کو وطن دوستی تصور کرے تو پھر یہاں اصلاح کی گنجائش اور صحیح راستے پر چلنے کا امکان ختم ہوجاتا ہے۔ میڈیا کا کام سچ کو اجاگر کرنا ہوتا ہے خواہ اپنے ملک کے خلاف ہی کیوں نہ ہو ۔ اس کا کام ہی ظلم و زیادتی اور امتیاز کے خلاف آواز اٹھانا ہے خواہ وہ کسی فرقہ، طبقہ، قوم اور مذہب کے خلاف ہو لیکن ہندوستانی میڈیا کا ان اصولوں میں ذرہ برابر یقین نہیں ہے۔ جھوٹ اس روانی سے بولتا ہے مسیلمہ کذاب بھی شرما جائے۔ میڈیا کے جتنے بھی اصول طے کئے گئے ہیں وہ ہندوستانی میڈیا اس پر عمل نہیں کرتا۔ یہاں نیوز اور ویوز میں فرق کرنا ناممکن ہے۔ کسی واقعہ کے بارے میں خصوصی طور پر اگر وہ اس کا تعلق مسلمان اور پاکستان سے ہے خبرکی جگہ نامہ نگار، ٹی وی رپورٹر، ٹی وی اینکرز اپنے زہر آلود خیالات پیش کرتے ہیں اور خبریں کہیں دب کر دم توڑ دیتی ہیں اور اس کی جگہ نفرت اور اشتعال انگیزی لے لیتی ہے۔ نام پاکستان کا ہوتا ہے لیکن اس کا اصل مقصد ہندستانی مسلمانوں کو لعن طعن کرنا ، ذلیل کرنا اور ان کے مورل ڈاؤن کرنا ہوتا ہے۔ حکومت کو اس سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوتی کیوں کہ وہ سوچتی ہے کہ کچھ روز کے لئے ہی سہی اس سے چھٹکار ہ تو ملا۔ میڈیا اہلکار سمجھتے ہیں کہ ایک بار پھر ہم نے پوری قوم ایک نشے میں مبتلا کردیاہے۔جس طرح کسی کمیونٹی کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے اس سے ہر انسان کاخون کھول اٹھتا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ خون میں ابال زندہ قوموں میں آتا ہے مردہ قوموں میں نہیں۔ مسلمان بحیثیت مجموعی مردہ قوم ہیں۔ زندہ قوم کس طرح ہوتی ہے اس کا مظاہرہ گزشتہ دنوں سکھوں نے دہلی کی سڑکوں پر کیاہے۔ جج پر جوتے پھینکے، ہندوستان میں انصاف نہ ملنے کی بات کہی۔ پورے سسٹم کو گالی دی۔ میٹرو اسٹیشن پر قبضہ کرلیا، سونیا گاندھی، راہل گاندھی کو کھلے عام گالیاں دیں ۔ سونیا گاندھی ہی ہیں جس نے ایک سکھ کو وزیر اعظم کی کرسی پر دو میعاد کے لئے مقرر کیا ۔ پلاننگ کمیشن کا ڈپٹی چیرمین بنایا۔ اسی حکومت کے دو ٹرم میں دو سکھ جنرل آرمی چیف بنے لیکن سکھوں نے ان تمام احسانات کو فراموش کرتے ہوئے گزشتہ دنوں جس طرح کے نعرے لگائے اور جو باتیں کہیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے اگر یہی باتیں مسلم احتجاجیوں نے کی ہوتی تو ان کا کیا حشر ہوتا۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ توہین رسالت کے خلاف گزشتہ سال ممبئی کے آزاد میدان میں مسلمانوں نے احتجا ج کیا تھا جس میں کئی مسلمان مارے گئے تھے لیکن اس کے بعد کئی درجن مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرلیا گیا تھا ۔ گرفتار شدگان میں وہ نوجوان بھی تھے جن کا احتجاج کرنے والوں سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ اس وقت کے پولس کمشنر کامحض اس لئے تبادلہ کردیا تھا کہ انہوں نے گولیاں چلانے کا حکم کیوں نہیں دیا اور زیادہ سے زیادہ مسلم نوجوانوں کی جانیں کیوں نہیں لیں۔ اس کے برعکس دہلی میں پولیس کے ساتھ سکھوں نے بدتمیزی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔ بیرک توڑے، گالیاں دیں اور کیا کیا نہیں کیا لیکن پولیس نے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیںیہی نہیں جج پر جوتا پھینکنے والے کو اگلے دن ضمانت مل گئی۔ ذرا تصور کیجئے اگر مسلما نوں نے بیرک توڑے ہوتے، پولیس کو گالیاں دی ہوتیں، میٹرو اسٹیشن پر قبضہ کیا ہوتا اور ٹریفک نظام کو تہس نہس کیا ہوتا تو ان کے ساتھ کیا کیا سلوک کیا گیا ہوتا۔سکھوں کے ساتھ 1984 میں جو کچھ ہوا مسلمان آزاد ہندوستان میں بارہا اس درد سے گزرے ہیں اور سکھوں کے درد کو سمجھتے ہیں۔

سرب جیت سنگھ کے قتل کے معاملے پر ہندوستانی میڈیا نے جس طرح ایک کمیونٹی کو گالی دینے اور ایک مذہب کو جلاد قرار دینے کی کوشش کی وہ انتہائی شرمناک ہے ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستانی میڈیا میں نفرت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ پاکستان کی کوٹ لکھپت جیل میں سربجیت سنگھ کے ساتھ جو کچھ ہوا اسے کسی طرح جائز نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ اس واقعہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ موت کی سزا یافتہ قیدی کو اس طرح مارنا کسی بھی مہذب معاشرہ میں صحیح قرار نہیں دیا جاسکتا۔ وہ پاکستانی سپریم کورٹ سے سزا یافتہ قیدی تھا۔وہ گزشتہ 23 برس سے ایک بم دھماکے کے جرم میں قید تھا جس میں 14 افراد مارے گئے تھے۔ ہندوستان نے اسے جاسوس تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور کوئی بھی حکومت کسی جاسوس کو اگر پکڑا جائے تو جاسوس تسلیم نہیں کرتی۔ عدالت کے فیصلے کا تمام ممالک احترام کرتے ہیں۔پاکستان کے معاملے میں بھی یہی سوچ ہونی چاہئے۔ اگر ہم دوسرے ملک کے عدالتی فیصلے کو غلط اور ناانصافی پر محمول کریں گے توہماری عدالتوں پر بھی انگلیاں اٹھیں گی اور ہمارے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوگا اور ہم صرف مینڈک کی طرح ہندوستان میں ہی ٹر ٹر کریں گے۔سونے پر سہاگہ یہ کہ ابھی سربجیت سنگھ کی آخری رسم بھی ادا نہیں ہوپائی تھی کہ ہندوستانی میڈیا کی نفرت کی مہم رنگ لائی اور جموں کے جیل میں بند ایک پاکستانی قیدیِ ثناء اللہ کو ایک سابق فوجی نے کدال سے حملہ کرکے موت کے دہانے پر پہنچادیا ۔ ہوسکتا ہے کہ جس وقت یہ کالم پڑھ رہے ہوں یہ خبر آچکی ہوگی کہ وہ زخموں کی تاب نہ لاکر دم توڑ گیا۔ دہلی کی تہاڑ جیل میں بھی جاوید نامی ایک مسلم قیدی پر حملہ کرکے موت کے گھاٹ اتار دیاگیا۔تہاڑ جیل میں قیدیوں کے درمیان ہونے والی مار پیٹ کے نام پرجاوید کا قتل کیا گیا ۔ عدالت نے سات سال کی سزا دی جو پوری ہونے والی تھی ۔ پورا میڈیا خاموش ہے محض اس لئے مرنے والا مسلمان تھا اور مارنے والا کوئی اور ۔ اب یہ واضح ہوگیا ہے کہ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ ہندوستانی جیلوں میں بھی مسلمان محفوظ نہیں ہیں۔ اب میڈیا کو سانپ کیوں سونگھ گیا ہے۔ کیا جاوید کے خاندان کو معاوضے کی ضرورت نہیں ہے کوئی لیڈر تسلی دینے کے لئے ان کے گھر کیوں نہیں پہنچا۔ محض اس لئے مسلمان ہے اور مردہ قوم سے تعلق ہے۔اس کو قتل سربجیت کے قتل کے ردعمل کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ حکام، میڈیایا جیل حکام کچھ بھی کہے لیکن سچ یہی ہے کہ اسے انتقام کے طور پر قتل کیا گیاہے۔ اب ہندوستانی میڈیا، دفاعی ماہرین اورسماجی تجزیہ کار اس گھناؤنی حرکت کو کس زمرے میں رکھیں گے کیوں کہ وہ پاکستانی قوم (مسلمان) کو سربجیت کے قتل پر وحشی ، درندہ، جلاد اور غیر مہذب قوم قرار دے چکے ہیں۔

ہندوستانی میڈیا،سیاست داں، حکام، تجزیہ کار،سماجی امور کے ماہرین اس وقت خواب خرگوش میں کیوں مبتلا ہوجاتے ہیں جب ہندوستان میں انسانیت کا ننگا ناچ ہوتا ہے۔ پولیس حراست، عدالتی حراست اور جیل میں قتل کے معاملے میں ہندوستان کا شمار صف اول کے ملکوں میں ہوتا ہے۔ پہلی بات یہ ہوتی ہے اس طرح کے اموات کو فطری موت یا دل کا دورہ پڑنے دیگر بیماری سے ہونے والی موت قرار دے دی جاتی ہے بہت مشکل سے جیل حکام کی درندگی سامنے آپاتی ہے۔ ہندوستان میں سال دو ہزار دو سے دو ہزار سات کے درمیان پولیس تحویل یا جیل میں ہر برس تقریبا پندرہ سو افراد کی اموات ہوئی ہیں۔ ایشئن سنٹر فار ہیومن رائٹس کی جانب سے دلی میں جاری کیے گئے ’’ٹارچر ان انڈیا، 2008 ‘‘(اسٹیسٹ آف ڈینائل) نامی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے پانچ برس میں ہندوستان میں 7468 اموات ہوئی ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ملک کے شورش زدہ علاقوں میں بھی اتنی ہی تعداد میں نیم فوجی دستوں ، فوج اور مرکزی مسلح افواج کی تحویل میں افراد مارے گئے ہیں۔ رپورٹ میں ان ہلاکتوں کی وجہ عام طور پر’ ٹارچر‘ یعنی ایذا رسانی بتائی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں گھریلو تشدد کے واقعات کے انسداد کے لیے قانون ہے، دلتوں اور قبائلیوں کے ساتھ ایذا رسانی روکنے کے لیے قانون ہے لیکن تحویل کے دوران ایذا رسانی اور اس سے ہونے والی اموات سے متعلق کوئی قانون نہیں ہے۔ ایشئن ہیومن رائٹس کے ڈائریکٹر سہاس چکما کے مطابق’ان تحویل میں ہونے والی ہلاکتوں کی کوئی تفتیش نہیں کرائی جاتی اور اس قسم کی بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ ڈاکٹر پولیس کے زبردست دباؤ میں رہتے ہیں اور اسی دباؤ میں وہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں یہ لکھ دیتے ہیں کہ مرنے والے شخص کے ساتھ ایذا رسانی نہیں ہوئی ہے۔رپوٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہندوستان ایذا رسانی سے ہونے والی اموات کو قبول کرنے سے انکار کرتا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہندوستان کے وزیر داخلہ نے بیماری، قدرتی اموات، جیل سے بھاگنے، خودکشی، دیگر قیدی کی جانب سے حملہ، فساد، حادثہ اور سپتال میں علاج کے دوران موت کو ان 7468 اموات کی وجوہات قرار دیا ہے۔ ایشئن سنٹر فار ہیومن رائٹس نے حکومت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے ’ وزیر داخلہ نے یہ واضح نہیں کیا ہے کہ تحویل میں جاتے ہی کیوں لوگ خودکشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور خودکشی کرنے میں استعمال کیے جانے والی چیزوں جیسے چاقو ، زہر اور کھلے ہوئے بجلی کے تاروں تک خودکشی کرنے والوں کی رسائی کیسے ممکن ہے۔اس کے علاوہ ہزاروں کشمیری نوجوانوں کو حراست میں فوج اور پولیس نے ہلاک کیااور آج تک ان کا اتہ پتہ نہیں ہے۔ کشمیر ہزاروں خواتین نصف بیوہ (ہاف ویڈو)کی شکل میں ہیں۔ کشمیریوں کو اس کیلئے احتجاج کرنے تک کی اجازت نہیں ہے جیسا کہ گزشتہ دنوں دہلی میں انہیں احتجاج کرنے نہیں دیا گیا۔پھر بھی ہم مہذب اور انصاف پسند ہیں۔ کشمیر میں اب 80ہزار مارے جاچکے ہیں۔

سربجیت سنگھ کے معاملے میں حکومت جس طرح اتاؤلی ہورہی ہے اسی طرح ہندوستان سمیت دیگر ممالک میں قید ہندوستانی قیدی کے بارے میں حکومت دلچسپی دکھائے گی۔پاکستان کی جیلوں میں اب بھی 254 ہندوستانی قید ہیں۔ اسی طرح دنیا کے دیگر ممالک کی جیلوں میں بھی کل 6569 ہندوستانی قیدی ہیں۔اس فہرست میں عرب ملک سب سے اوپر ہیں جہاں سعودی عرب میں 1691، کویت میں 1161 اور متحدہ عرب امارات میں 1012 ہندوستانی قیدی بند ہیں۔اٹلی میں 121 ہندوستانی قیدی جیلوں میں بند ہیں جب کہ دیگر بیرون ممالک میں برطانیہ میں 426، امریکہ میں 155، چین میں 157، بنگلہ دیش میں 62، افغانستان میں 28، بحرین میں 18 اور نیپال میں 377 قیدی ہیں۔ عراق، ایران، الجزائر، بیلجیم اور فرانس کی جیلوں میں بھی کچھ ہندوستانی قید ہیں۔ سربجیت معاملے پر مودی کی دہاڑہم سب نے سنی ہے لیکن ذرا اس حقیقت کو بھی دیکھئے کہ کلدیپ کمار یادو نامی قیدی بھی پاکستان کی اسی کوٹ لکھپت جیل میں اسی جاسوسی کے الزام میں بند ہے جہاں سربجیت بند تھا. کلدیپ کی 76 سالہ ماں مایادیوی احمد آباد کے چاند کھیڑا میں رہتی ہے۔کلدیپ اپنے وکیل ایم کے پال کے ذریعے گجرات حکومت سے گزارش کر چکا ہے کہ اس کی ماں کی گزارے کے لیے ان کی کچھ مالی مدد کی جائے لیکن سربجیت پر سر جھکانے والے اور سیاست کا کھیل کھیلنے والے مودی کی حکومت نے آج تک اپنے گجراتی سربجیت کی بوڑھی ماں کے لئے کچھ نہیں کیا۔اسی طرح درجنوں قیدی کے اقربا ہیں جو دانے دانے کو محتاج ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سارے وہ بھی ہیں جو جیل سے رہا ہوکر آگئے لیکن حکومت نے اسے بے سہارا چھوڑ دیا اس کا کوئی پرسان حال نہیں۔اس سے حکومت اور میڈیا کا دوہرا پیمانہ بھی اجاگر ہوتا ہے۔

سربجیت سنگھ کے قتل کو ہم انتہائی گھناؤنی حرکت مانتے ہیں لیکن قتیل صدیقی خواجہ یونس اور دیگر مسلم نوجوانوں کو اذیت دیکر ہندوستانی جیلوں میں قتل کیا جاتا ہے کیا وہ قابل مذمت نہیں ہے؟ پنے کی یروڈا جیل میں گذشتہ سال جون میں جمعہ کے دن جیل کے اندر محمد قتیل صدیقی کو قتل کردیا گیا۔ قتیل صدیقی کے قتل میں چھوٹا راجن کا ہاتھ ہے اور خفیہ ایجنسیاں اس طرح کا قتل مافیاؤں سے کراتی رہی ہیں۔ کیا کسی ہندوستانی میڈیا نے کسی مسلم قیدی حالانکہ زیادہ تر سزا یافتہ نہیں ہوتے بلکہ زیر سماعت قیدی ہوتے ہیں جو ایک سازش کے تحت جیل میں ٹھوس دئے جاتے ہیں، کے قتل پر واویلا مچایا تھا۔ سربجیت سنگھ اور مسلم قیدی میں کیا فرق ہے؟۔ قتل چاہے ہندوستان کی جیل میں ہو یا پاکستان کی جیل میں وہ انسان کا قتل ہوتا ہے اور اسے اسی نظر سے دیکھاجانا چاہئے لیکن ہندوستان میں صرف اور صرف ہندو مسلم کے نظریے سے دیکھا جاتا ہے۔سربجیت کو آخری وقت میں اس کے خاندان سے ملنے کا موقع دیا گیا، اس کی بہن، بیٹی اور بیوی نے دیکھا۔ سربجیت کی موت کے بعد اس کی لاش کو پاکستان نے ہندوستان کو لوٹا دیا! بنیاد پرست، قدامت، ’ناپاک ‘قسم کا ملک پاکستان، اپنے یہاں جاسوسی اور بم دھماکے کے ملزم کی لاش دشمن ملک کو لوٹا دیتا ہے اور مگر ہندوستان اپنے ہی ملک کے شہری کی لاش اس کے گھر والوں کو نہیں سونپتا اور نہ ہی ان کے مذہب کے مطابق آخری رسم ادا کرتا ہے۔ جان تو جان ہے چاہے سربجیت کی ہو یا قتیل صدیقی کی۔ گزشتہ سال جیل میں قید قتیل صدیقی کے قتل کے بعد اگر مکمل ہندوستان ایک ساتھ مل کر اس کی مخالفت کرتا تو شاید پاکستان میں خطرناک سے خطرناک مجرم پر بھی قاتلانہ حملہ کرنے کی کسی کی ہمت نہیں ہوتی۔ ہم اپنے یہاں جب اپنے شہریوں کے ساتھ انصاف نہیں کر پاتے تو پھر دوسرے شہریوں سے انصاف کی امید کیسے کی جا سکتی ہے؟ جب تک ہماری اپنی ذہنیت اور سوچ میں تبدیلی نہیں آئے گی تب تک نہ جانے کتنے ہی سربجیت،خواجہ یونس، قتیل صدیقی ، جاویدعلی قاتلانہ جیل حکام حملوں کے شکار ہوتے رہیں گے۔ ہماری حکومت اور ہمارے ملک کے میڈیا کی روح کب زندہ ہوگی اورکب شعور پیدا ہوگا کہ وہ ہندو مسلم کے بجائے صرف انسانیت کی نظر سے دیکھے۔

انصاف اسے ملتا ہے جس قوم میں انتقام لینے کی طاقت ہوتی ہے ۔ انصاف کرنے والے کوجب یہ معلوم ہوجائے اس کا کچھ نہیں بگڑے گا وہ کبھی بھی انصاف نہیں کرے گا یہی فرق مسلمان اور سکھ میں ہے۔سکھ انصاف کرنے پر مجبور کرنا جانتے ہیں۔ ان کے لیڈر پارٹی وابستگی سے اوپر اٹھ کر اپنے طبقے کے لئے ایک ساتھ ہوجاتے ہیں جب کہ مسلم لیڈر ایک ساتھ ہونا تو دور کی بات اس طرح کے مسئلے پر زبان سی لیتے ہیں۔ گولڈن ٹمپل پر حملہ کرنے والے تمام کرداروں کو یکے بعد دیگرے سکھوں نے قتل کردیا تھا۔ اگر کوئی صحافی سکھ فرقے کے خلاف لکھتا ہے تو اگلے ہی اسے معافی مانگتی پڑتی ہے ۔ سکھ وزیر داخلہ سمیت جج صاحب پر جوتے پھینک چکے ہیں جب کہ مسلمان بابری مسجد شہید کرنے والوں خلاف صرف معمولی احتجاج اور سزا کا مطالبہ کرنے کے لئے میمورنڈم پیش کرنے پرہی اکتفا کرتے رہے ہیں۔
Abid Anwer
About the Author: Abid Anwer Read More Articles by Abid Anwer: 132 Articles with 87365 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.