عوام اور ان کے خواص

عوام کا نام سامنے آتے ہی ذہن میں صابروشاکر اور دکھ درد سہنے والے انسانوں کی تصویر سامنے آجاتی ہے۔انسانوں کا نام عوام کیسے پڑ گیا یہ تو معلوم نہیں تاہم پروفیسر غیرت بور کا خیال ہے کہ پس جب انسان صرف انسان تھےتو خواص ان پر خاص قسم کے تجربات کرنے لگے۔ بے چارے عوام ہائے ہائے کرکے اور رفتہ رفتہ زمانے کے سرد وگرم تپھیڑے کھا کر “آہ و ہاہ“ کرنے لگےرفتہ رفتہ اسی آہ و ہاہ سے عوام کا نام وجود میں آگیا۔

مغرب میں خواص نے کافی غور و خوص اور فکر سازی کے بعد اپنے کمیوں (چھوٹے لوگوں) کو (Folk) کا نام دیا۔ فوک یعنی ڑیوڑ سے متاثر ہو کر یہ نام دیاانھیں گیا۔کیونکہ بھیڑ بکریاں مالک کے رحم و کرم پہ ہوتی ہیں ۔جب چاہے انھیں ہانکو ،جب چاہے انھیں مارو کچھ ایسی ہی حالت عوام کی ہوتی ہے۔اسی لئے انہیں یہ نام پسند آیا۔بعد میں جب مغربی زبانوں نے ترقی کی تو عوام کے لئے “Mass“ اور “Public“ جیسے مہزب الفاظ استعمال ہونے لگے۔

ہندوستان میں عوام کو جنتا کہتے ہیں۔عوام کی تعریف مختلف مفکرین اور دانشوروں نے کی ہے۔پروفیسر بامدار نے لکھا یے کہ عوام سی کیٹگری کے بی کلاس لوگ ہیں۔ضرورت پڑنے پر ان کے ساتھ کچھ بھی کرنا ممکن ہے۔وہ ہر شے میں فٹ ہو سکتے ہیں۔ایک اور مشرقی مفکر الف ب جمال نے اپنی کتاب “عوام بننا سیکھئے“ میں لکھا ہے۔ عوام وہ قیمتی لوگ ہیں جن کی کوئی بھی قیمت نھیں ہے۔عوام بہت ہی معمولی قسم کے لوگ ہیں۔ یہ ایک لفظ کی ضد ہوتی ہے اور عوام کی ضد خواص ہے۔دونوں مہں مریخ اور آسمان کا فرق ہے زیادہ تو ہو سکتا ہے لیکن کم کا سوال ہی پیدا نھیں ہوتا۔

عوام جو کچھ کرتے ہیں وہ خواص نھیں کرنا چاھتے اور جو کچھ خواص کرتے ہیں وہ عوام کی بس کی بات ہھیں۔ عوام عام کام کرتے ہیں جیسے کھیتی باڑی کرنا ،ہائے ہائے کرنا، آنسو بہانا اور محنٹ کرنا۔خواص خاص کام کرتے ہیں حکومت کرنا، حکومت چلانا۔ حکومت چلانے کے لئے تیل عوام کے جسموں سے نکالا جاتا ہے۔عامی ہو یا خاصی دونوں کے لئے حیوانی شہبات استعمال کی جاتی ہیں۔مثلا خواص کو عموما مگر مچھ کہا جاتا ہے اور عوام کے لئے اونٹ استعمال ہوتا ہے۔اونٹ اور عوام بقدر مشترق ہیں کہ دونوں بلبلاتے ہیں۔اونٹ غصے سے بلبلاتا ہے جبکہ آئے دن ہم اخبار کی شہ سرخیاں پڑھتے ہیں کہ عوام گرمی یا لوڈشیڈنگ سے بلبلا اٹھے۔ریگستان میں عوام کو جہاز کہتے ہیں اور پاکستان میں عوام کو اونٹ، اونٹ کبھی کبھی بے مہار ہو جاتا ہے لیکن عوام بے مہار نھیں ہوتے کیونکہ مہار ہمیشہ حکمرانوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔وہ عوام پہ سوار ہو کر اقتدار کی منزلیں طے کرتے ہیں عموما یہ سفر پانچ سال کا ہوتا ہے لیکن کمی و بیشی ہونا ممکن ہے۔ سب سے لمبا سفر گیارہ برس کا ہوا ہے۔کبھی کبھی یہ سفر وقفے کی صورت میں ہوتا ہےتاکہ اقتدار کے شہسوار کچھ دیر آرام کر سکے۔یہ سفر حرف عام میں نگران سفر کہلاتا ہے۔ (جاری ہے)
Rizwan Ahmed
About the Author: Rizwan Ahmed Read More Articles by Rizwan Ahmed: 3 Articles with 1827 views i like to live alone and want to improve my writing skills... View More