گزشتہ دنوں ایک خبر کسی اخبار
میں چھپی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس خبر نے آزاد جموں کشمیر بھر کے اخبارات
کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔۔۔بات آگے بڑھی اوراس خبر نے کچھ ایسا اثر دکھایا
کہ اس خطہ کے تمام سیاسی پارٹیوں کے رہنماء کجا ایک ایک سیاسی و سماجی
کارکن جو ملک میں ہے یا ملک سے باہر دنیا کے کسی بھی کونے میں وہ اس معاملے
سے جوڑ کر اپنا بیان اخبار میں چھپوانااور مذکورہ خاتون سے ہمدردی جتانا
اور خطہ کی اجتماعی غیرت کی بات کرنے کو اپنا قومی فرض سمجھا جبکہ اس دوران
خطہ بھر کے تمام ضلعی ہیڈکوارٹرز تحصیلوں چھوٹے چھوٹے بازاروں سمیت کوئی
گاؤں ایسا نہیں رہا جہاں پر اس معاملہ کے حوالے سے احتجاجی مظائرہ نہ ہوا
ہو اور اس سارے احتجاج میں دو طرح کے احکامات صادر کئے جاتے رہے ہیں کہ
متعلقہ لوگ اپنے عہدوں سے استیفعیٰ دیں ،،،اور حکومت تحقیقات کیلئے کمیشن
قائم کرے ۔۔۔ایک محتاط اندازے کیمطابق اب تک ریاستی اخبارات میں اس موضوع
پر کم از کم تیس ہزارلوگوں کی جانب سے انفرادی واجتماعی بیانات آئے ہیں ۔جبکہ
دوسری جانب میڈیا کے اس دور میں ابھی تک اس مذکورہ ’’خاتون‘‘ یا اسکے کسی
رشتہ دار نے باضابطہ اس معاملہ کے حوالے سے کوئی تردید یا تصدیق نہیں کی جو
ایک ’’ اہم سوال ‘‘ہے البتہ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اس سارے معاملے کو بے
بنیاد اور من گھڑت کہتا ہے اور کل تو کئی اخبارات میں معہ تصویر ایک خبر
چھپی جسمیں ’’خاتون‘‘کی جانب سے کہا گیا کہ ایک من گھڑت کہانی بنا کر اسکی
عزت کو اچھالا جا رہا ہے۔۔۔۔۔
حقیقت کیا ہے؟کیا واقعی ایسا کچھ ہوا؟کیا یہ سب من گھڑت کہانی ہے؟اگر واقعی
کچھ ہوا ہے تو اتنے بڑے احتجاج اور عوامی حمائت کے باوجود مظلوم سامنے کیوں
نہیں آتا؟یہ چند اہم سوال ہیں جنکے جواب تلاش کرنا بہر حال ضروری ہے ۔۔۔اولاًہمارے
معاشرے کا ایک منفی پہلوہے کہ مرد عورت سے ناانصافی کرے اسے طلاق دیدے ،جبراً
عصمت دری کرے یا راہ چلتے کسی کو پریشان کرے اسکے باوجود عورت کو بے عزت
اور مرد کو باعزت (شاہی) کہا و مانا جاتا ہے ایسے واقعات میں’’صاحب عزت‘‘
مرد تو کئی شادیاں ڈھول دھماکے سے کر لیتا ہے معاشرے میں اسے کوئی روک
رکاوٹ نہیں جب کہ ایک معمولی سی بدنامی جو شائد کسی مرد کی جانب سے دانستہ
کی گئی ہو تو اس بد نصیب عورت کو اس نا کردہ گناہ کی تاحیات سزا جھیلنا
ہوتی ہے ۔
آج ایک ’’خاتون‘‘کے ساتھ زیادتی کے حوالے سے چند اعلی ترین حکومتی اہلکاران
کا نام لیا جارہا ہے ۔جنکے پاس دولت ،طاقت اور اختیارات ہیں جبکہ دوسری
جانب ایک مظلوم ہے جو غریب و نادار ہے بے اختیار ہے اور سب سے بڑھکر یےکہ
وہ عورت ہے جسکا ان حالات میں سامنے نہ آنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن اگر یہ
معاملہ من گھڑت ہے تو ان صاحب عزت و اکرام ’’احباب‘‘پر بھی تو الزام ہے وہ
اپنے داغدار دامن کو صاف کرنے الزام لگانے والوں کیخلاف عدالت سے رجوح کر
سکتے تھے لیکن نہیں کیا جو یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہیکہ کچھ ہوا ضرور ہے
اور ان پر یہ بھی الزام ہیکہ وہ ’’اسے‘‘ زبان بند رکھنے پر مجبور کر رہے
ہیں تو ملک میں اتنے بڑے پیمانے پر احتجاج اور عوامی حمائت کے باوجود ’’ اس‘‘
کی خامشی معنی خیز ہے اور مقام فکر بھی ہے کہ کون سی ایسی بات جو اسے ایسا
کرنے پر مجبور کر رہی ہے ؟
پاکستان میں روزانہ ہزاروں عزت ماب اس طرح کے درندہ صفت انسانوں کی حوس کا
شکار بنتی ہیں انمیں سے چند ایک واقعات ہی منظر عام پر آتے ہیں ۔کل ہی کی
بات ہے کہ لاہور میں پاکستان مسلم لیگ کے بنیادی رہنما’’ سردار شوکت‘‘کی
عزت پر دن دہاڑے ڈاکہ پڑھا جو کوئی معمولی بات نہ تھی ۔کوئٹہ میں ڈاکٹر
شازیہ خالد کا واقعہ ابھی بھی لوگوں کو یاد ہو گا کہ وہ بھی کوئی غریب
نادار لوگ نہ تھے مگر کیا ہوا کیا کسی کو انصاف ملا؟تو کیا مظفر آباد میں
بیٹھنے والے انکے شاگرد کیا نہیں کرتے ہونگے ؟در حقیقت انکی بڑی اکثریت
وہاں صرف عیاشی اور موج مستی کیلئے جاتے ہیں ناں کے عوامی خدمت کیلئے ۔۔۔اور
یہ ایک قومی جرم ہے جسمیں اس دیس کی عوام برابر مجرم ہے جو انہیں وہاں
جانیکی راہداری فراہم کرتے ہیں ۔
آج انکے مستعفی ہونے اور کمیشن بنانے کا مطالبہ ہو رہا ہے جبکہ وہ مستعفی
ہو جائیں اور کمیشن بھی بن جائے تب کیا ہو جائیگا ؟اس سے پہلے کتنی عصمتیں
لٹیں کتنے گھر برباد ہوئے کیا کبھی کسی کو انصاف ملا ہے ؟ جج انکے وپولیس
انکی حکومت انکی کمیشن انکا اور ملک میں نافذ العمل ’’ایکٹ‘‘اسلام آباد
کا۔۔۔یہ سب کیا ہے ؟کس کو بے وقوف بنا رہے ہو؟خنجراب سے تاؤ بٹ تک اور گلف
سے یو کے امریکہ تک اگر واقعی غیرت بیدار ہو چکی ہے توپھر کیسے آج بھی مجرم
ریاست میں اقتدار کے نشے میں بد مست گھوم رہے ہیں؟ نہیں ! سب مکر فریب ہے
بس یہ چند روز احتجاجیوں کو اخبارات میں بیانات چھپوانے کا ایک بہانہ ملا
ہے اور بیان چھپتے رہیں گے نعرے لگتے رہے گے اور بس تھوڑے دنوں بعد سب ختم
شد۔۔۔پھرناں کوئی آگے ناں پیچھے اور وہ ’’ غریب ‘‘اکیلی تنہا اور اسکی
بدنام زندگی ،،،ناں کوئی ہمدرد ناں مدد گار ۔۔۔۔ماضی میں کون حصول انصاف تک
کسی کیساتھ کھڑا رہا جو اسکے ساتھ رہیگا؟ یہی وہ عوامل و سوال ہیں جنہوں نے
اسے زبان بندی پر مجبور کر رکھا ہے جو اسکے شعور کی گواہی ہے ۔یہ سب ایک
ڈرامہ ہے اس سے وہ اچھی طرح آگاہ ہے ۔ان احتجاجیوں نے پہلے کسے انصاف
دلوایا جو اب اسے دلا دینگے۔یہ تیس ہزار احتجاجیوں میں سے صرف دس ہزار لوگ
غیرت کا مظائرہ کرتے ہوئے ایک ایک ہزار روپئے جمع کریں تو صرف سات دن کے
اندر مجرم عوامی عدالت کے کٹہرے میں ہوں ۔۔۔ایک ایسی عدالت جو عوام قائم
کرے جو عوام علاقہ کی موجودگی میں مقدمہ سنے اور اسی مقام پر جہاں سبزعلی
خان شہید نے قومی غیرت کی خاطر شہادت قبول کی تھی اسی درخت پر انہیں الٹا
لٹکا یا جائے تب انصاف ہو تاکہ آئندہ کوئی غنڈا بد معاش خطہ کی کسی بیٹی کی
طرف میلی آنکھ سے دیکھ نہ سکے کہ یہ غیرت مندوں کا دیس ہے اور تب خطہ کی
عزت ماب بیٹیوں کی جانب بڑھتے ہاتھ رک سکتے ہیں ۔اسلئے آج اگر ’’ وہ ‘‘
خاموش ہے تو یہ خامشی اس خطہ کی غیرت کیلئے بھی ایک سوالیہ نشان ہے کہ ایک
بیٹی کو اپنے ورثا پر بھروسہ نہیں کہ انکی وہ ’’تاریخی غیرت‘‘ زندہ بھی ہے
یا مر گئی۔۔۔۔
کیونکہ غیرت مند ہونیکے لئے صرف اخباری بیان جاری کرنا کافی نہیں ہوتا۔ |