اگر ہم نے غور و فکر کی صلاحیتوں سے کام نہ
لیا تو پھر جمود ہمارا مقدر ہوگا۔ ہماری انقلابیت سرد پڑ جائے گی اور پھر
منزل ِ مقصودہم سے دور ہوتی چلی جائے گی۔ اس سے محفوظ رہنے کی صرف ایک ہی
راہ ہے اور وہ ہے عقلی و سائنسی بنیادوں پر اپنی فکر اور پروگرام کا بے لاگ
تنقیدی و تجزیاتی جائزہ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم حقیقی اور بنیادی مسائل کی نشان
دہی کریں اور انہیں نئی فکر اور قوت کے ذریعے حل کرنے کی سمت میں آگے
بڑھیں۔زمانہ اس پر شاہد ہے کہ ہمارے ذہن کی ساخت، سوچنے اور غور و فکر کرنے
کا اندازہمیشہ ہمارے ذاتی حالات سے متاثر رہاہے۔ آج ہم غربت کی زندگی بسر
کر رہے ہیں اور یہ کوئی برائی نہیں لیکن برائی اس وقت بن جاتی ہے جب کہ ہم
پس ماندگی ، اخلاقی گراوٹ، علمی فقدان، سائنسی رویہ اور رجحان کی کمی سے
دوبالا ہوتے ہیں اور یہ ساری چیزیں مل کر ہماری فکر و فہم پر اثر انداز
ہونے لگتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ہماری قوتِ فیصلہ و تدبّر ہم سے چھن جاتی ہے
اور ہمارے نظریات اور حقیقت (idialismاور realism) میں فرق رونما ہونے لگتا
ہے۔ جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہونا چاہیے یعنی ان میں توازن قائم ہو اور ہم
حقیقت پر مبنی سوچ رکھتے ہوں جو ہمارے نظریات سے مطابقت رکھتی ہو۔ یہ تب ہی
ممکن ہے جبکہ ہم بصیرت سے محروم نہ ہوں۔حالات حاضرہ کا تجزیہ ہو یا قرآن و
حدیث کی تفہیم و تشریح، سب کچھ بصیرت افروز نگاہوں اور انقلابی نقطہ نظر سے
کیا جانا چاہیے۔اس راہ میں ہمارے لیے سب سے بڑی رکاوٹ وہ غیر متّقی، خوفِ
خدا سے عاری اور اخلاص و دیانت کے ہتھیاروں سے محروم قیادت ہے جسے نہ تو
قوم و ملت کی کوئی فکر ہے اور نہ حالاتِ حاضرہ کی عالمانہ اور حقیقت
پسندانہ بصیرت۔جب تک ہم ان موجودہ ناعاقبت اندیش قیادت کو چلانے اور قائم
کرنے والوں میں شمار ہوتے رہیں گے تب تک یہ وبا ہمارے سروں پر اسی طرح منڈ
لاتی رہے گی۔
انکار و اقرار کی بنیاد یں:
قرآنِ حکیم میں مختلف مقامات پر فرمایا گیا ہے کہ کیا تم غور و فکر نہیں
کرتے‘ کیا تم تدبر نہیں کرتے‘ کیا تم جاننے کی کوشش نہیں کرتے۔ یہ انداز
قرآن حکیم کا ایک الگ انداز ہے جس میں لوگوں کو متوجہ کیا گیا، انھیں غور و
فکر کرنے کی جانب متوجہ کیا گیا ہے، ان سے کہا گیا ہے کہ کسی بھی چیزکے
اقرار یا انکار سے سے پہلے ضروری ہے کہ انسان اس کے بارے میں سوچ سمجھ لے،
یہی جاننا اور نہ جاننا‘ یہی فکر و تدبر اور یہی فکر و نظر قرآن میں ایک
ایسے نظریے اور تفکر و فلسفہ کی تخلیق کرتا ہے‘ جو ملت اسلامیہ کی ذہنی‘
علمی‘ فکری‘ نفسیاتی‘ قومی‘ سماجی‘ معاشرتی‘ معاشی‘ سیاسی‘ دینی اور بین
الاقوامی حیثیت کو مکمل طور پر جداگانہ حیثیت میں ممیز کرتا ہے۔ یہی قرآنی
نظریہ اور فلسفہ حیات ہے اور یہی ملت اسلامیہ کی قرآنی تعلیم و تربیت ہے‘
یہی کیفیت دینی اور ملی اساس کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔ قرآن حکیم نے مزید
فرمایا: ہم نے تمہیں واضح طور پر ان امور و معاملات سے آگاہ کر دیا ہے‘ اگر
تم عقل و فکر سے کام لو گے ۔یعنی زندگی کے صحیح راستے پر گامزن رہو
گے۔اسلام اور قرآن کے نزول کے ساتھ ہی بنی نوع انسان دو مختلف نظریات اور
دو حتمی مختلف طبقات میں تقسیم ہو گئے تھے ایک نظریہ ایمان لانے والوں کا
دوسرا ایمان نہ لانے والوں کا۔ چنانچہ اولاد آدم دو کیمپوں میں تقسیم ہو
گئی شرارِ بولہبی ایک جانب اور چراغ مصطفوی دوسری جانب‘ اس نظریے نے خون
اور حسب و نسب کی نفی بھی کر دی۔ برادری‘ قبیلے اور ذات پات کو ملیامیٹ کر
کے رکھ دیا۔ اس کی بہترین مثال جنگ بدر اور جنگ احد ہے جس میں نبی
آخرالزماں حضور اکرم اور دوسرے صحابہ ¿ کرام کے قریبی رشتہ دار دشمن کی صف
میں تھے اور ایمان لانے والے غیر رشتہ دار حضور اکرم کی صف میں موجودتھے۔
چنانچہ قرآن نے کافروں اور منافقین کے ضمن میں ملت اسلامیہ کو بڑی سختی سے
متنبہ کیا ہے۔ ان کی بغض‘ عداوت اور دشمنی کی بعض باتیں تو ان کے منہ پر آ
جاتی ہیں لیکن جو کچھ ان کے دلوں میں چھپا رہتا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ
خطرناک ہوتا ہے۔
نظریہ قوت و طاقت:
تبدیلی کب کہاں اور کیسے آتی ہے یہ مسلئہ صرف تھامس ہابس اور جان لاک ہی کا
نہیںتھا۔ بلکہ ہیگل نے تو پوری انسانی تاریخ کو ”نظریات کی جنگ“ کا سفر
قرار دیا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ ایک نظریہ پیدا ہوتا ہے اور دنیا میں اپنے
اثرات پھیلاتا رہتا ہے جسے اس نے thesis کہا۔ ہیگل کہتا ہے کہ یہ اثرات
مرتب ہوتے رہتے ہیں یہاں تک کہ اس نظریے کی ”ضد“ پیدا ہونا شروع ہو جاتی
ہی، جسے اس نے anti-thesis کہا۔ ہیگل کے مطابق تھیسس اور اینٹی تھیسس میں
تصادم ہوتا ہے اور اس تصادم سے ایک تیسری چیز synthesis نمودار ہوتا ہے۔ یہ
synthesis صالح یا بہترین اجزاءپر مشتمل ہوتا ہے۔ ہیگل کے اس نظریے کا کارل
مارکس پر گہرا اثر پڑا، البتہ مارکس نے یہ کیا کہ ہیگل نے جس معرکہ آرائی
کو ”نظریات“ میں دکھایا تھا، مارکس نے اس آویزش کو طبقات میں دکھایا۔ مارکس
نے اس تبدیلی کو معنی خیز انداز میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہیگل سر کے بل
کھڑا تھا میں نے اسے سیدھا کھڑا کردیا۔ اسی طرح چین میں ماو ¿زے تنگ کے
نظریات میں بھی طاقت کو مرکزیت حاصل ہوئی۔ ماؤ کا یہ قول مشہور زمانہ ہے کہ
طاقت بندوق کی نال سے برآمد ہوتی ہے۔ اگرچہ کمیونسٹ انقلابات نے خود کو
”نظریاتی“ کہا، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کی نظریاتی طاقت ثانوی چیز تھی۔ ان
کا اوّل و آخر طاقت تھی۔ چوں کہ ان کا آغاز طاقت تھی اس لیے ان کا انجام
بھی طاقت ہی کے حوالے سے سامنے آیا۔ بیسویں صدی کے وسط تک آتے آتے طاقت کا
ایک نیا مظہر ”مارشل لا“ کی صورت میں سامنے آیا۔ نوآبادیاتی طاقتوں سے
آزادی حاصل کرنے والے تیسری دنیا کے اکثر ملکوں میں فوج سب سے منظم، باخبر،
تعلیم یافتہ اور طاقتور ادارہ تھا۔ اس ادارے نے اپنی اس حیثیت کو ملک و قوم
کے حق میں استعمال کرنے کے بجائے ان کے خلاف استعمال کیا۔ ایشیا اور افریقہ
کے متعدد ممالک میں مارشل لا نمودار ہوئے اور ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کا
فلسفہ جگہ جگہ حقیقت بنتا نظر آیا۔
اہم بات یہ ہے کہ مارشل لا نے ہر جگہ معاشرے کی تشکیلِ نو کی۔ پاکستان میں
مارشل لا لگانے والے جنرل ایوب اور جنرل پرویزمشرف سیکولرتھے، چنانچہ ان کے
دور میں معاشرے میں سیکولرازم کو قوت حاصل ہوئی۔ جنرل ضیاءالحق کا ذہن
مذہبی تھا، ان کے دور میں معاشرے میں مذہبی رجحانات کو فروغ حاصل ہوا۔
جمہوریت اگرچہ کمیونزم اور مارشل لا کی ضد ہے، لیکن طاقت کا تصور تینوں
نظاموں میں مشترک ہے۔ فرق یہ ہے کہ کمیونزم میں طاقت کا سرچشمہ کمیونسٹ
پارٹی، مارشل لا میں طاقت کا سرچشمہ فوج ہوتی ہی، اور جمہوریت میں طاقت کا
سرچشمہ عوام ہوتے ہیں۔ افراد اور معاشروں کو نسلی، قومی، لسانی اور مذہبی
تعصبات بھی متاثر اور تبدیل کرتے رہے ہیں۔ یہودیت ایک آسمانی مذہب تھا مگر
اس کے ماننے والوں نے اسے ایک نسلی مذہب بنادیا۔ ہندوازم کے بارے میں بھی
غالب گمان یہی ہے کہ وہ بھی کبھی ایک الہامی مذہب رہا ہوگا مگر ہندوازم چار
ذاتوں کا مذہب بن گیا۔ ہندوستان کی تاریخ، سماجیات، یہاں تک کہ معاشیات پر
بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ ایسے موقع پر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ
نیکی کی بنیاد پر ہونے والی تبدیلی، تقوے کے ابلاغ سے ہونے والی قلب ِماہیت
کئی نسلوں تک باقی رہتی ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ نیکی ایسا نعرہ، ایسا
نظریہ اور ایسا فلسفہ ہے جوکئی نسلوں کو اپنا اسیر کرسکتا ہے۔ پھر جس کا
انحصار ہر صورت میں اللہ پر ہو وہ نہ طاقت پرست ہوسکتا ہے اورنہ طاقت کے
ذریعے اپنے نظریے کو پھیلا سکتا ہے۔ معلوم ہوا کہ اسلامی معاشرہ اپنی روح
میں ایک جہادی اور مزاحمتی معاشرہ ہوتا ہے اور اس کی مزاحمت اپنے نفس سے لے
کر بین الاقوامی زندگی تک پھیلی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے علمبردار
ایک مضبوط،واضح اور مکمل نظام حیات کے فروغ و استحکام کے لیے ہر دم کوشاں
رہتے ہیں۔لہذا ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسلامی معاشرے کے فروغ، اس
کی بقا، اس کے استحکام اور اس کے قیام کے لیے سعی و جہد کرے ۔اور ایک
متبادل نظام حکومت فراہم کرے جس میں لوگوں کے لیے امن ہو اور ان کی بنیادی
ضرورتیں پوری ہو سکیں۔ مختلف مذاہب کے لوگ اپنے مذہب پر بہ آسانی عمل پیرا
رہ سکیں اور ان کا خاندان تعمیر و ترقی کی منزلیں طے کر سکے۔یہ ہے وہ
تبدیلی ِ قیادت کا نعرہ جس کا آغاز عملی ہونا چاہیے نہ کہ زبانی۔ اور اس
مقصد کے حصول کی راہ ہمواری ذاتی فکرو عمل کی تبدیلی سے ہونا چاہیے۔چند
افراد نے جب اس تبدیلی قیادت کے عزم کا مظاہرہ کیا اور رفتہ رفتہ اس فکر کو
فروغ دیاتو آج دنیا شاہی ہے کہ یہ چند افراد گروہ کثیر میں تبدیل ہو ا
چاہتے ہیں۔اس کے باوجود اس گروہ میں مزید افراد درکار ہیں۔یہ فرد آپ بھی ہو
سکتے ہیں!آج سعی و جہد کا آغاز میدان عمل میں اتر کر ہوگا یا کم از کم
میدان عمل میں موجود صحیح فکر و عمل پر استوار لوگوں کا معاون بن کر۔یہ
دونوں ہی صورتیں آپ کو گروہ کثیر سے ملحق کردیں گی۔ان حالات میںجب کہ سعی و
جہد کسی کونے میں بیٹھ کر کرنے کی بجائے میدان عمل میں اترکر یا اس سے
منسلک ہوکر کی جائے تو ممکن ہے کہ یہ جدوجہد اللہ کی نظر میں تخلیہ میں ادا
کی جانے والی عبادت سے بڑھ کر ہو جائے۔یہ تبدیلی قیادت کس درجہ درکار ہے
؟آئیے اس کی بھی وضاحت کرتے چلیں۔
تبدیلیِ قیادت:
تبدیلی ِقیادت سے ہماری مراد وہ قیادت ہے جو خوف خدا سے سے عاری نہ ہو بلکہ
قیادت ان لوگوں کے ہاتھوں میں منتقل کی جائے جو انسانی قوانین کا پاس و
لحاظ رکھنے کے علاوہ اُس ہستی کو بھی مانتے ہوں جو خود انسانوں کا موجد
اعلیٰ ہے۔لہذا اس مرحلے میں قیادت کی تبدیلی ناگزیر عمل بن جائے گی۔یہ
تبدیلی قیادت کی سعی و جہد اس بات کی بھی وضاحت کرے گی کہ ہماری
جدوجہد"اپنوں" کے خلاف نہیں ہے بلکہ ان طاقتوں کے خلاف ہے جو اپنے قومی و
ذاتی مفادات کی وجہ سے عالم ِ انسانیت کو تباہ و برباد کرنے پر آمادہ ہیں
نیز اس تباہی و بربادی کو وہ خوبصورت ناموں سے تعبیر کرتے ہوئے روبہ ¿ عمل
ہیں۔دوسری جانب ایک وہ قیادت بھی آج موجود ہے جو ناکارہ، بے مقصد، اور نفس
پرست انسانوں کی بھیڑ پر مشتمل ہے۔یہ نفس پرست قائد اعلیٰ ڈگریاں رکھنے کے
باوجود اخلاق و کردار کے میدان میں کورے ہیں۔ان کی تعلیم و تربیت کی مثال
سمندر پر چھائے اس جھاگ سے ذرہ برابر بھی زائد نہیں جو بلاشبہ پورے سمندر
پر چھایا ہوا ہے اس کے باوجودنہ اس کا کوئی وزن ہے نہ حیثیت۔یہی وجہ ہے کہ
انسانیت سسک رہی ہے اورعالم انسانیت کی چیخیں چہار جانب تیز سے تیز تر ہی
ہوتی جارہی ہیں ۔لیکن اندھے ،گونگے اور بہرے قائد کہ نہ انہیں کچھ نظر آتا
ہے اور نہ ہی کچھ سوجھتاہے۔ایسا نہیں ہے کہ یہ بے کار یا ناکارہ لوگ ہیںفرق
صرف اتنا ہے کہ ان کی فکر کی تصحیح نہیں ہو سکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ
تعلیمی سندیں رکھنے والے جب عمل میدان میں آتے ہیں تو وہ دوسروں کے لیے
نہیںبلکہ خود کے لیے جینا پسند کرتے ہیں۔ ان کا ہر عمل صرف ان کی ذات تک
محدود رہتاہے، اس کے فائدے اور نقصانات وہ اپنی ذات میں تلاش کرتے ہیں، اور
جب کہیں بھی کسی بھی طرح کا فائدہ حاصل ہوتا ہے، وہ اس بات کی ذرا بھی پروا
نہیں کرتے کہ دوسروں کو اس سے کس قدر نقصان پہنچے گا۔ وجہ بس اتنی کہ وہ
علم سے تو بہرہ مند ہوئے لیکن وہ علم ہی ناقص تھا کہ جو ان کو صحیح راستہ
پر گامزن نہ کرسکا۔علم تو درحقیقت وہ ہے جو خود شناسی اور خدا شناسی پیدا
کرنے والا ہو ۔وہ علم ہی کیا جو نہ خود سے باخبر کراسکے، نہ خودی سے اور نہ
ہی خدا سے،کہ جس نے اس کو پیدا کیا اور زمین کا نظم و نسق اس کے ذمہ کیا۔
ہمیں یہ شعور بھی بیدار کرنا ہے کہ خرابی کی اصل جڑ موجودہ نظام اور اس کی
پروردہ مفاد پرست، ملت فروش اور دنیا پرست قیادت ہے کہ جس پر نوٹس نہ لیا
گیا تو اصلاح و فلاح کے پہلو مدھم پڑ جائیں گے۔ ان طاقتوں کے خلاف اقدام سے
ہم یہ مراد لیتے ہیں کہ موجودہ فلسفہ زندگی پر تفکر کیا جائے، اس میں اصلاح
کے پہلوﺅں کو ابھارا جائے، اور سب سے بہتر یہ ہوگا کہ اسلامی فلسفہ زندگی
کو نافذ العمل بنانے کی سعی و جہد کی جائے۔ آج چہار جانب ظلم و بربیت کا
دور دورہ ہے اور ہماری حالت یہ ہے کہ ہمیں صرف اپنے طرز معاشرت کو بہتر
بنانے کی فکر نے ،مسائل کو سمجھنے، ان پر غور و فکر کرنے اور ان کے خاتمہ
کی سعی و جہدکرنے سے بہت دور کر رکھا ہے۔اسلام کی رو سے یہ ظلم جو آج ہم
خود پر کر رہے ہیں،کٹہرے سے باہرہم خود بھی نہیں۔بنی کریم کا ارشاد ہے
برائی کو ہاتھ سے روکا جائے، اس کو زبان سے برا کہا جائے اور اگر اتنی بھی
طاقت نہ ہو تو کم از کم دل میں برا سمجھاجائے۔ لیکن ایک لمحہ کے لیے ٹھہریں
!اور اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر !خو د سے معلوم کریںکہ کیا کبھی ہم نے اس جانب
بھی توجہ کی ہے؟کہا کہ :"اور اگر خدا لوگوں کو ان کے ظلم کے سبب پکڑنے لگے
تو ایک جاندار کو زمین پر نہ چھوڑے لیکن ان کو ایک وقت مقرر تک مہلت دیئے
جاتا ہے ۔ جب وہ وقت آجاتا ہے تو ایک گھڑی نہ پیچھے رہ سکتے ہیں نہ آگے بڑھ
سکتے ہیں"(النحل:61)۔فرصت کے لمحات کو گنوانا نادانی کے سوا اور کیا ہو
سکتا ہے؟لازم ہے کہ جو لمحات بھی مہلت کے باقی ہیں ان کا استعمال کرتے ہوئے
میدان عمل میں اٹھ کھڑا ہونا چاہیے ۔یہی وقت کی آواز ہے اور یہی ہمارا
اولین فرض منصبی بھی۔آج ضرورت ہے کہ ظلم و بربیت سے نجات دلانے والے امن
پسند طریقہ اختیار کرتے ہوئے دوسروں کے لیے مشعل راہ بن جائیں۔اور یہ تب ہی
ممکن ہے کہ جب ہم موجودہ قیادت کو تبدیل کرنے کا عزم مسمم کر لیں! |