ہندستان میں ہر 20 منٹ میں ایک لڑکی
عصمت دری اور جسمانی زیادتی کا شکار ہوتی ہیں
دہلی میں ہو ئی اجتماعی آبرو ریزی کو لے کر ملک بھر میں غصہ ہے۔ جگہ جگہ
مظاہرے کر اس واقعہ کے ملزمان کو سخت سے سخت سزا دیئے جانے کا مطالبہ کیا
جا رہا ہے۔ کسی لڑکی کی آبرو ریزی صرف اس کی عصمت پر وار نہیں ہوتا، بلکہ
یہ اس کی روح پر لگنے والا ایسا زخم ہے جو اسے زندگی بھررولاتا رہے گا۔ اس
سے بھی زیادہ شرمناک یہ ہے کہ عصمت دری اور جسمانی استحصال کے معاملات کو
زیادہ تر لوگ احساسات کے علاوہ صرف دل لگی خبر واحد کے طور پر دیکھتے ہیں۔
جب بھی اس طرح کے واقعات سامنے آتے ہیں تو اکثر ایسی خاتون نیوز روم میں
گفتگو کا مرکز بن جاتی ہے جہاں آزادی کے نام پر اس کی عزت کی دھجیاں اڑائی
جاتی ہیں ۔
خاتون سیاستداں اپنی لگژری کار سے نیچے اتر کر کسی دن اکیلے فٹ پاتھ پر
پیدل چلیں، تب کہیں جا کر انہیں پتہ چلے گا کہ روز چھیڑ چھاڑ کی شکار ہونے
والی لڑکیاں کس طرح کے حالات کا سامنا کر رہی ہیں۔ پورے ملک بھر میں لڑکیوں
کے ساتھ ہونے والے عصمت دری کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مظلوم لڑکی کو
لے کر پولیس انتظامیہ کے ساتھ ہی سماج کا رویہ بھی تھوڑا عجیب رہتا ہے۔
گزشتہ دنوں پولیس تھانوں میں ہوئے سروے میں یہ بات کھل کر سامنے آئی، کہ
آخر ہماری حفاظت کے لئے تعینات کئے گئے کوتوال صاحب عصمت دری کو لے کر کیا
سوچتے ہیں۔ سروے میں کسی نے جہاں ریپ کیس کے لئے لڑکیوں کے کپڑوں کو ذمہ
دار قرار دیتے ہوئے انہیں ہمیشہ سوٹ شلوار پہننے کی ہدایت دے ڈالی وہیں ایک
اور تھانیدار نے عصمت دری کے لئے موبائل فون کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ یہی نہیں
ایک کا تو یہاں تک کہنا تھا کہ جو ریپ کیس تھانے تک پہنچتے ہیں وہ جعلی
ہوتے ہیں، کیونکہ جس لڑکی کے ساتھ اصل میں عصمت دری ہوئی ہو وہ خود اپنا
مقدمہ درج کرانے نہیں آئے گی۔ اب آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ حالت کتنے خراب
ہیں۔ اس واقعہ کو لے کر دہلی کی سی ا یم شیلا دکشت کا بیان ہے کہ ’’لڑکیوں
کو بیباک بننے سے بچنا ہوگا‘‘ ان کے اس بیان کا مذاق اڑایا گیا، لیکن یہ
کافی حد تک صحیح ہے۔ ہم بھلے ہی لڑکیوں کے آگے بڑھنے کی بات کر رہے ہوں،
لیکن یہ سچ ہے کہ سماج میں گھٹیا سوچ رکھنے والے لوگوں کی ذہنیت نہیں بدلی
جا سکتی۔ علاج سے بہتر ہے احتیاط۔ کیونکہ جب سماج کے حیوان حیوانیت پر
آمادہ ہوں تو ہم انہیں بنیادی حقوق کا درس نہیں پڑھا سکتے۔ کسی ذہنی مریض
کی جلن کا شکار ہونے سے ہمیں خود بچنا ہوگا۔ احتیاط برتنے سے کسی طرح کا
نقصان نہیں ہے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں ہیں جہاں کوئی
بھی جانور عورت کی عزت پر کبھی بھی حملہ کر سکتا ہے۔ تو کیا ہم ایک بار پھر
دور جہا لت کی جانب لوٹ گئے ہیں ۔دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہندستان میں
خواتین کس قدر غیر محفوظ ہیں ۔لڑکیوں کی پیدائش کو منحوس سمجھنا ،لڑکیوں پر
لڑکوں کو فوقیت دینا،انہیں تعلیم سے محروم رکھنا اور کسی طرح شادی کر کے
اپنے سر سے ان کا بوجھ اتار پھیکنا،انہیں گھر کی چار دیوارں میں بند رکھنے
کو جہالت سمجھا جاتا ۔آج کے مہذب سماج میں مادر رحم میں بچییوں کے قتل کو
سنگین گنا قرار دیا گیا ۔ لیکن کیا کوئی باپ اپنی لڑکی کو جنم دے پالے پوسے
بڑا کرے اس لئے کے اس کے ساتھ عصمت دری ہو ، یا اس لئے کے جہیز نہ دے پانے
کی مجبوری کے بعد اپنی جان سے بھی پیاری لڑکی کی جلی ہوئی لاش دیکھنے کو
ملے ، یا پھر اس لئے کے اسکول کالج جاتے وقت چوراہے پر بیٹھے غنڈے اس کی
لڑکی کو چھیڑے، اور اگر غنڈوں کو جواب دو تو وہ اس کے منہ پر تیزاب پھینکے
... ؟
کیا پورے ہندستان میں ایک بھی ایسا لیڈر، ایک بھی ایسے سماجی ٹھیکے دار،
ایک بھی ایسی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے ہیں جس نے اس موضوع پر ہنگامہ
کرنے کی بجائے ایک سچی اور اماندار نہ کوشس کی ہو ؟ میں ضمانت لیتی ہوں اور
بلکہ ہندستان میں ہر لڑکی کے والدین یہ وعدہ کرنے کو تیار ہوں گے اگر ان کی
لڑکی کی عزت وآبرو کے سا تھ کھلواڑ بند ہو جائے تو کسی کے دل میں اپنی بچی
کو مادر رحم میں مارنے کا خیا ل بھی نہیں آئے گا ۔آج ذرائع ابلاغ چیخ چیخ
کر اعلان کر رہا ہے کہ ملک میں خواتین کے حقوق کا خاص خیال رکھا جارہا
ہے۔مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔
نیشنل کرائم رکارڈ بیورو کی تحقیق کے مطابق پچھلی پانچ دہائیوں میں خواتین
سے زیادتی کے واقعات میں 73 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔یہ اضافہ ہندستان کی ان
ریاستوں اور شہروں میں ہوا جو دیگر شہروں سے زیادہ ترقی یافتہ ہے ان میں
دہلی سب سے آگے ہے ۔اس کے بعد راجستھان ،ہریانہ ،مہاراشٹر،کرناٹک مغربی
بنگال اور مدھیہ پردیش قابل ذکر ہیں ۔2011 کی رپورٹ کے مطابق خواتین سے زور
ذبردستی کے واقعات کی شرح 9.1فیصد تھی مگر سال 2012 میں اس شرح میں افسوس
ناک اضافہ ہوا۔
2011 میں جہاں 5 2 ہزار خواتین سے زبردستی کے واقعات ہوئے ۔مدھیہ پردیش
3406 ،مغر بی بنگال میں 2363،یو پی میں 2042 واقعات رکارڈ کئے گئے جبکہ
ہندستان کی راجدھانی دہلی میں سب سے زیادہ 5086
واقعات ہوئے۔نشنل کرائم رکارڈ بیور کے مطابق 2011 میں ہریانہ میں 725
خواتین جنسی زیادتی کا شکار ہوئیں یعنی 60 خواتین ہر ماہ درنندگی کا شکار
بنتی ہیں جسکا کسی میڈیا یا اداروں میں کہیں کوئی ذکر نہیں ہوتا۔نیشنل
کرائم رکارڈ بیورو کی تازہ پیش کردہ رپورٹ میں عصمت دری کے واقعات کی ایک
فہرست جاری کی ہے اس کے مطابق ہندستان کا دل دہلی آبرو ریزی میں اول مقام
پر ہے جبکہ ممبئی دوسرے نمبر پر۔ہندستان میں لڑکیوں کے ساتھ زیادتی اور
عصمت دری کے واقعات میں بے دریغ اضافہ ہوا ہے۔1990 کی بہ نسبت یہ تعداد بڑ
ھ کر 2008 میں بالکل دوگنی ہوگئی ۔نشنل کرائم رکارڈ کے مطابق 256,329کرمنل
کیسس میں 228,650خواتین نشانہ بنی تھیں ۔ماہرین کے مطابق صرف 10 فیصد
آبروریزی کے معاملات درج کرائے جاتے ہیں ۔ایک رپورٹ کے مطابق دس ملین دلیت
خواتین عصمت دری کا شکار بنی ۔حالانکہ دلتوں کو اچھوت کہا جاتا ہے انہیں
کسی چیز کو ہاتھ لگانے کی اجازت بھی نہیں لیکن اپنی ہوس مٹانے والے حیوان
اس وقت یہ بھول جاتے ہیں۔2000 سے زیادہ وارداتیں صرف کشمیر میں سامنے آئیں
ہیں لیکن ان پر کوئی کاروائی نہیں کی جاتی اور نہ ہی ان کی روداد سنی جاتی
ہے کیوں کہ اس میں آرمی افسران ملوث ہوتے ہیں۔ میزورم ،تری پورہ اور آسام
ایسی ریاستں ہیں جہاں خواتین سے زیادتی کے واقعات سب سے زیادہ ہے۔زیادہ تر
دہی علاقوں میں خواتین سے زیادتی کے معاملے تو درج بھی نہیں ہوپاتے اس کی
وجہ ہمارا سماج ہے جو ہر معاملے کا ذمہ دار خواتین کو ٹھیرآتا ہے۔ یہی وجہ
ہے خواتین خوف اور ذلت کے ڈر سے اپنے ساتھ ہونے والی زیادیتی کو چھپا لیتی
ہیں اور وہ گنہگار منظر عام پر نہیں آتے ۔اس کی وجہ بھی ہمارا قانون ہے جس
نے اس کے لئے آسان راہ رکھی ہے۔ ہریانہ میں دل دہلانے والے ایک واقع میں 16
سال کی دلت لڑکی کے ساتھ گاؤں کے آٹھ لوگوں نے اجتماعی آبرو ریزی کی اور
اپنے موبائل پر اس کی وڈیو بھی بنائی ۔ لڑکی نے 10دنوں تک اپنے والدین سے
چھپائے رکھا ۔لیکن جب شبنم کے والد نے اپنی بیٹی کی گاؤں والوں کے موبائل
میں دیکھی تو شرمندگی سے خود کشی کرلی اور لڑ کی کی رہی سہی ہمت بھی ٹوٹ
گئی۔
یونیین ہوم منسٹری نے تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ امسال پہلے 9مہینوں
میں ہندستان میں 18,359 آبروریزی کے واردات درج کرائے گئے جبکہ امریکہ میں
93,934 اور جنوبی افریکہ میں 54,926 کیس درج ہوئے مطلب جب ہم عصمت دری کی
بات کرتے ہیں تو ہندستان تیسرے نمبر پر آتا ہے ۔یہ تو حکومت کو سوچنا ہے کہ
امریکہ سے خواتین کی عصمت کا مقابلہ کرکے وہ ملک کو آگے بڑھانا چاہتی ہے یا
پیچھے؟اگر حال ہی میں دہلی میں ہونے والی اجتماعی آبروریزی کی بات کریں تو
یہ بات قابل غور ہے کہ ہندستان کے ہر چھوٹے بڑے معاملات میں ٹانگ اڑانے
والا مغربی میڈیا اس معاملے میں بالکل خاموش ہے ۔امریکہ کے این جی اوزاور
دیگر ادارے بھی خاموشی برتے ہوئے ہیں ان کی یہ خاموشی خود کو بچانے کے لئے
ہے اس لئے بہتر ہے کہ ہم مغربی ممالک میں آبروریزی کی بڑھتی واقعات سے اپنا
موازنہ نہ کریں ۔حکومت کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا ہیں
کہ ہندستان میں ہر 0 2 منٹ میں ایک خاتون عصمت دری اور جنسی تشدد کا شکار
ہوتی ہیں ۔
چند مہینے پہلے گوہاٹی کی ایک لڑکی کے ساتھ بدسلو کی کئے جانے کا معاملہ
سامنے آیا تھا ۔ ایسے ملک میں جہاں خواتین زیادہ تر سیاسی عہدوں پر فائز
ہیں ملک کی باگ ڈور سنبھال رہی ہیں اقتدار اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے ہیں،
وہاں اس طرح کے واقعات کا مسلسل سامنے آنا واقعی شرمناک ہے۔اگر یہ اقتدار
میں نہ ہوتیں تو آج خوتین کے حقوق اور عصمت کو لے کر ولولہ مچاتی لیکن
اقتدار میں رہنے کے باوجو د اس ضمن میں کوئی کاروائی نہیں کرنا قابل مزمت
ہے ۔ بی جے پی کی سنیر لیڈر سشما سوراج نے عصمت دری کرنے والوں کو پھانسی
کی سزا دینے کی وکالت کی اس سے قبل اڈوانی نے بھی زانی کو سزائے موت دینے
کی حمایت کی۔کانگریس رکن اور قومی خواتین کمیشن کی سابق صدر گرجا ویاس نے
بھی اس بات کا اعتراف کیاکہ شہروں میں خواتین غیر محفوظ ہیں ۔مرکزی وزیر
داخلہ نے جنسی استحصال کے معاملے میں موجود قانون میں ترمیم کی بات کہی۔آج
ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسا قانون بنایا جائے کہ ملزم جرم کرنے کے بعد نہیں
جرم کرنے سے پہلے کانپ اٹھے۔فاسٹ ٹریک عدالت کا قیام عمل میں لایا
جائے۔مجرموں کو سرے عام پھانسی کی سزا دی جائے تاکہ کوئی کسی لڑکی کو آنکھ
اٹھا کر دکھنے سے پہلے ہزار بار سوچے۔ |