کیا پاکستان میں انا ہزارے جنم
لے سکتا ہے یا انقلاب آ سکتا ہے- اس سوال کا جواب اگر ہاں میں دیا جائے اور
زور شور سے کہا جائے کہ کیوں پیدا نہیں ہو سکتا تو عوام الناس اور سطحی علم
رکھنے والے دانشور ایک دم خوش ہو جائیں گے اور اسی میں دین کی فتح سمجھنے
لگ جائیں گے- ہمارا المیہ ہی یہ ہے کہ ہم کسی بھی بات میں انصاف نہیں کرتے-
اپنے آپ کے ساتھ بھی انصاف نہیں کرتے- ہم بڑی برائی اور چھوٹی برائی کے
پیچھے لگ کر کسی نہ کسی برائی کا ساتھ دیتے ہیں لیکن برائیوں کا ساتھ نہیں
چھوڑتے- تعصبات پر فخر کرتے ہیں اور عصبیت میں ہی اپنا بقاءڈھونڈتے ہیں-
بقول چینیوں کے کہ جو قومیں زیادتی کی حد تک گوشت خور ہوتی ہیں وہ ماضی میں
زندہ رہنا چاہتی ہیں اور جو زیادتی کی حد تک سبزی خور قومیں ہیں وہ مستقبل
میں رہنا پسند کرتی ہیں- مسلمانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کو اعتدال کا سبق
دیا گیا ہے- مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ جن جن چیزوں اور باتوں سے ان کو
صدر اسلام خاتم پاک منع فرماتے ہیں زیادہ تر یہ امت وہ کام زیادہ شوق سے
کرتی ہے- مثلا صفائی کے بارے میں ارشاد ربانی ہے جو خاتم پاک کے منہ سے
نکلا کہ یہ نصف ایمان ہے- اب نصف ایمان تو گندگی سے چلا گیا باقی نصف میں
جھوٹ‘ دھوکہ دہی‘ ملاوٹ‘ ناجائز منافع خوری‘ دولت کا ناجائز ارتکاز شامل ہو
گا تو بقایا کیا رہ جائے گا- حالت یہ ہے کہ پورے پاکستان میں دس سرکاری
ملازم بھی ایسے نہ ملیں گے جو صد فیصد رزق حلال کما رہے ہوں- پورے پاکستان
میں دس تاجر بھی ایسے نہ ملیں گے جو صد فیصد پورا ٹیکس دیتے ہوں- ہمارا
نظریہ ہے کہ ہمیں فائدہ ملنا چاہئے خواہ کہیں سے بھی ہو اور کیسے بھی
ہو-خیرات کے پیسوں میں سے بھی ہم بھاری بھاری تنخواہیں لینے میں کچھ عار
محسوس نہیں کرتے- خیرات‘ زکواة کے پیسوں میں بھی ہیرا پھیری سے باز نہیں
آتے- یہ بات یعنی رزق حرام کے حصول میں عار محسوس نہ کرنا کسی ایک طبقہ یا
مکتبہ فکر تک محدود نہیں- کیا امیر لوگ اور کیا مفلس و قلاش لوگ یا کیا
پڑھے لکھے لوگ اور کیا ان پڑھ لوگ ‘ کیا عالم اور کیا جاہل‘ کیا آجر اور
کیا اجیر‘ کیا طبیب اور کیا مریض ہر کوئی اس چکر میں ہے کہ زیادہ سے زیادہ
وصولی کرے اور کم سے کم ادائیگی کرے- ڈاکٹروں نے اپنی تنخواہوں میں اضافہ
کروا لیا- اب وہ خاموش ہو جائیں گے- اس ملک کا مزدور آج بھی چھ ہزار روپے
ماہانہ تنخواہ لے رہا ہے- ہمارا یہ ڈاکٹر بھی اتنا ہی بددیانت ہے جتنا ایک
مزدور بددیانت ہے- ہر کوئی مجبوری سے کام کرتا ہے- بہت مشکل سے چند لوگ
ایسے ملیں گے جو یہ کہتے نظر آئیں گے کہ وہ اپنا کام شوق سے کر رہے ہیں-
یہاں ان لوگوں کی بات ہو رہی ہے جو کسی نہ کسی جگہ ملازمت کرتے ہیں- اپنا
کاروبار یا اپنا کام لوگ شوق سے کرتے ہوں گے لیکن پورے پاکستان میں دس لوگ
بھی ایسے نہ ملیں گے جو دیانتداری سے اپنا کام کرتے ہیں- ہم وہ قوم ہیں
جوچوری کی گاڑی خرید رہے ہوتے ہیں اور چور سے کہتے ہیں رکو مجھے نماز پڑھ
لینے دو- نماز گناہوں سے روکتی ہے لیکن ہماری نماز ہمیں برائیوں سے نہیں
روکتی- دھونس دھاندلی اور بدمعاشی سے ہم اپنے کام نکالتے ہیں اور اس پر فخر
بھی کرتے ہیں- یہ مختصر سی ہماری کہانی ہے- اب ایسے لوگوں میں انا ہزارے تو
کیا کوئی انّی ہزاری بھی پیدا نہیں ہو سکتی- اس ساری گفتگو سے یہ ثابت ہوتا
ہے کہ بددیانت اور بدطینت لوگوں میں انا ہزارے پیدا نہیں ہوا کرتے-بددیانت
لوگوں میں انقلابی پیدا نہیں ہوا کرتے- بددیانت قوموں میں عبدالستار ایدھی‘
عمران خان‘ ابرار الحق اور انصار برنی جیسے لوگ ضرور پیدا ہو سکتے ہیں- میں
ان کو بددیانت یا خائن کہنے یا بنانے یا ثابت کرنے کی کوشش میں نہیں ہوں
بلکہ اس خیال سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں- مذکورہ بالا اشخاص کا پیدا ہونا
ہی اس بات کی علامت ہے کہ ہمارا معاشرے انصاف سے خالی ہے- چونکہ لوگوں کا
استحصال ہو رہا ہے اس لیے ان لوگوں کی گنجائش بنتی ہے کہ وہ اس طرح کے
خیراتی ادارے قائم کر کے شہرت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں- ماسکو کی
سوشلسٹ حکومت قائم تھی کوئی ایدھی‘ کوئی عاصمہ جہانگیر‘ کوئی عمران خان‘
کوئی چھیپا پیدا نہیں ہوا کیونکہ وہاں اس بات کی گنجائش ہی نہیں تھی- اسی
طرح جرمنی‘ فرانس‘ ناروے‘ ڈنمارک کسی جگہ نہ کوئی ایدھی ہے نہ عمران خان ہے-
لیکن ہر شخص کو علاج کی سہولت موجود ہے- ہاں سوشل ویلفیئر کے ادارے ہیں
لیکن اس طرح جھولی پھیلا پھیلا کر اور اشتہار بازیوں سے نہ شہرت حاصل کرتے
ہیں اور نہ اس طرح چندہ یا بھتہ اکٹھا کرتے ہیں- پس اس لحاظ سے بھی یہی
ثابت ہے کہ انقلاب ہمارے جیسے ملکوں یا ہماری جیسی قوموں میں نہیں آیا
کرتے-نیم ملّا اور جعلی دانشور ہمیشہ عرب کا حوالہ دے دیا کرتے ہیں کہ عرب
کے جہلاءمیں کیسا انقلاب آیا کہ دنیا کو ہلا کر رکھ دیا-
چونکہ ایسے لوگوں کا مطالعہ کم ہوتا ہے اس لیے وہ تصویر کا ایک ہی رخ
دیکھتے ہیں اور پھر اپنی جہالت پر فخر کرتے ہیں اور اگر کوئی سچی بات بتانے
کی کوشش کرے تو اس کے بارے فتویٰ جات لے آتے ہیں- آئیں ایک نظر عرب کے اس
زمانہ قبل از اسلام پر ڈالتے ہیں- یہ عرب لوگ عورتوں پر ہاتھ اٹھانا اپنی
توہین سمجھتے تھے- ہمارے یہاں عورتوں پر تشدد کیا جاتا ہے- انہیں برہنہ کر
کے سربازار پھرایا جاتا ہے- زمانہ جہالت کا عرب جب کسی کو پناہ دیتا تھا تو
اپنے قول پر قائم رہتا تھا- ہم جس کو پناہ دےتے ہیں اس کو ڈالر لیکر فروخت
کر دیتے ہیں- ابوجہل خانہ کعبہ کے حاجیوں کیلئے کھانے اور پانی کا انتظام
کرتا تھا اور اس کے بدلے میں معاوضہ نہیں لیتا تھا- وہ ابوالحکمت تھا لیکن
پیغمبر وقت کا انکار کر کے تکبر کی وجہ سے آگ میں گرایا گیا- ہم میں ابوجہل
کا تکبر تو موجود ہے لیکن اس کا جذبہ ایثار نہیں- جب اس کی گردن کاٹی جانے
والی تھی تو اس نے یہ کہا تھا کہ میری گردن کو لمبی رکھ کر کاٹنا کیونکہ جب
محمدﷺ کے سامنے میرا سر رکھا جائے تو معلوم ہو کہ کسی سردار کا سر ہے-
ابوجہل کا سر کاٹنے والے اگر ایمان میں مضبوط تھے تو ابوجہل اپنے کفر میں
مضبوط تھا- فتح تو ظاہر ہے کہ اہل حق کا ہی مقدر ہوتی ہے لیکن بات کردار کی
بھی ہوتی ہے-
جنگ خیبر میں عمرو کے سامنے حضرت علیؓ آتے ہیں- عمرو لڑنے سے انکار کر دیتا
ہے اور کہتا ہے کہ تمہارا باپ میرا دوست تھا- مولا نے تردید کی کہ ایک مومن
کا دوست کافر نہیں ہو سکتا- پھر فرمایا کہ تم نے قول دے رکھا ہے کہ اگر
کوئی تین باتیں تم سے کہے تو تم ایک ضرور مان لو گے-اس نے کہا کہ ہاں یعنی
وہ اپنے قول کا پکا تھا اور واقعہ سب کو معلوم ہے یہاں دہرانا بات کو طویل
کرنا ہی تو ہے- مقصدیہ ہے کہ یہاں تو لوگ قرآن پاک کو درمیان میں لا کر ایک
تحریری معاہدہ کرتے ہیں اور بعد ازاں کہتے ہیں کہ وہ تو ایک سیاسی بیان تھا
اور لاکھوں لوگ اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں کہ ہمارے لیڈر نے ٹھیک کیا اور
ٹھیک کہا- اب جس قوم میں کافروں کے برابر بھی اپنی بات کا پاس رکھنے کا
حوصلہ اور قابلیت نہ ہو اس قوم میں کوئی انا ہزارے پیدا ہو یاکوئی انقلاب آ
جائے ناممکن سی بات ہے اور خود فریبی ہی تو ہے- |