بچے کی ذہنی استعداد میں اضافہ کیجئے

اساتذہ ایسے بچے کی مشکلات کو عام طور پر سمجھ نہیں پاتے اور ایسے بچے ان کے غصے کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ روایتی اصلاحی طریق تدریس ہے جس کے کوئی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوتے۔ آخر کار اس بچے کو بگڑا ہوا‘ سست‘ ضدی‘ ناقابل تدریس اور نکما وغیرہ گردانا جاتا ہے۔

سیکھنا انسانی جبلت میں شامل ہے اور یہ ایک قدرتی عمل ہے‘ جو پیدائش کے وقت سے شروع ہوجاتا ہے۔ قدرت بچے کو دیکھنے کے ایک جامع نظام سے آراستہ کرکے وجود میں لاتی ہے اور یہ نظام وقت کے ساتھ ساتھ مخصوص ترتیب و تناسب سے پختگی کے مراحل طے کرتا رہتا ہے اور بچے اپنی عمر کے لحاظ سے سیکھتے اور تعلیم حاصل کرتے رہتے ہیں۔

بعض حالات میں یہ صورتحال مختلف ہوجاتی ہے کچھ بچے یا تو پیدائشی طور پر یا بعد میں ناتوانی کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان کے سیکھنے کی صلاحیت کے ابھرنے میں دیر ہوجاتی ہے۔

سیکھنے کا عمل دماغ میں وقوع پذیر ہوتا ہے اور تمام تحاریک اعصاب کے ایک پیچیدہ نظام کے ذریعے سے دماغ تک پہنچتی ہیں۔ اگر بچے کا اعصابی نظام مناسب رفتار سے پختگی کے مراحل طے نہ کرپائے یا اس میں کوئی خلل واقع ہوجائے تو اس بچے کی سمجھ بوجھ اور سیکھنے کی صلاحیت متاثر ہوجاتی ہے۔

اب ہم چند علامات کا ذکر کرتے ہیں جن کا تعلق بچوں کی نشوونما سے ہوتا ہے۔ ان علامات کی خصوصیت یہ ہے کہ بچہ جسمانی طور پر ایک حد تک نشوونما پانے کے باوجود نسبتاً پسماندہ دکھائی دیتا ہے لیکن یہ پسماندگی ایک یا دو ذہنی اعمال تک ہی محدود ہوتی ہے اور بچہ اپنے روز مرہ کے باقی ماندہ افعال زندگی میں عام بچوں کی طرح تندرست و توانا اور نارمل معلوم ہوتا ہے۔

عام طور پر تعلیمی صلاحیت کی کمی یا نشوونما کی تاخیر کی علامات کچھ دماغی وجوہ کی بنا پر پیدا ہوسکتی ہیں اور پھر ان میں نفسیاتی علامات بھی شامل ہوتی ہیں۔ نشوونما کی تاخیر کی علامات میں پڑھنے میں مشکلات‘ ریاضی کی دشواریاں‘ لکھنے کی صلاحیت میں بے ربطی‘ بیش حرکی علامات‘ گفتار میں خلل‘ حرکات میں بے ربطی ان میں سے کوئی دو یا دو سے زائد علامات کا مجموعہ شامل ہوسکتا ہے۔

تعلیمی صلاحیت کی کمی مختلف النوع بے ترتیبوں کی مظہر ہے‘ جو علیحدہ سے واقع ہوتی ہیں۔ یہ بنیادی نفسیاتی کارکردگی کے عدم توازن اور بے ترتیبی کا نام ہے۔ سادہ الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ اگر بچہ اپنی عمر کے مطابق لکھنے‘ حساب کرنے‘ بولنے اور یاد رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتا اور وہ متاثرہ سماعت‘ متاثرہ بصارت کا حامل یا ذہنی معذور نہیں تو ایسی صورت میں وہ تعلیمی عدم استطاعت کا شکار قرار پاتا ہے۔

پڑھنے لکھنے کی مشکلات کا شکار بچے عام طور پر الٹا پڑھتے اور لکھتے ہیں‘ یعنی اردو حروف دائیں سے بائیں جانب کے بجائے بائیں سے دائیں پڑھتے اور لکھتے ہیں اسی طرح انگریزی الفاظ بائیں سے دائیں پڑھنے کے بجائے دائیں سے بائیں پڑھتے اور لکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس بنا پر ان کی پڑھائی اور لکھائی میں واضح خلل واقع ہوجاتا ہے۔ عام طور پر ایسے بچوں کی لکھائی‘ پڑھنے والے کو یوں دکھائی دیتی ہے جیسے وہ لکھی ہوئی چیز کا عکس آئینے میں دیکھ رہا ہو یعنی حروف الٹے نظر آتے ہیں۔ اسی بنا پر اس قسم کی لکھائی کو (Mirror Image Writing) بھی کہا جاتا ہے۔

بچوں میں پیش حرکی علامات کو تین مختلف درجوں میں منقسم کیا جاتا ہے۔ علامات کی پہلی درجہ بندی وہ ہے جس میں مبتلا بچے محض بے توجہی اور بے جا طور پر متحرک یا نچلا نہ بیٹھنے کا شکار ہوتے ہیں۔ دوسری درجہ بندی وہ ہے جس میں مبتلا بچے ان علامات کے ساتھ ساتھ گفتار کے خلل‘ مطالعے کے خلل اور کردار میں بے ربطی کا شکار ہوتے ہیں۔ تیسری درجہ بندی میں شامل بچے گفتار اور مطالعے کے خلل میں مبتلا تو نہیں ہوتے لیکن ان کے علاوہ کردار سے متعلق باقی تمام بیش حرکی علامات ان میں نمایاں طور پر پائی جاتی ہیں۔

ریاضی کی دشواریوں کا شکار بچہ ماسوائے ریاضی کے باقی تمام شعبہ جات زندگی میں عام بچوں کی طرح ہوتا ہے۔ گفتار میں خلل لکنت سے مختلف شکایت ہے۔ اس کا شکار بچہ بعض الفاظ واضح اور درست طور پر ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔ حرکت میں بے ربطی کا شکار بچہ اپنی جسمانی حرکات پر مکمل طور پر قابو نہیں کرپاتا اور وہ جسمانی حرکات میں بے ربط سا نظر آتا ہے۔

مندرجہ بالا تعلیمی عدم استطاعت کی علامتوں میں اعصابی نظام کے عدم توازن یا نقص کا طبی ثبوت حاصل کرنا ایک پیچیدہ کام ہے۔ چنانچہ ماہرین عام طور پر ایسے شواہد اور نشانیوں کو نظر میں رکھتے ہیں جن سے اعصابی نظام کی کارکردگی کی جانچ ہوسکے۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل نکات کو ذہن میں رکھا جاتا ہے:
(۱) ابتدائی غیرشعوری اعصابی حرکات جو ایک خاص عمر کے بعد موجود نہیں ہونی چاہئیں۔
(۲) عدم توجہ اور کسی بھی چیز پر محدود وقفے کیلئے دھیان۔
(۳) بہت زیادہ حرکت اور اضافی جوش۔
(۴) ہیجانی اور اضطرابی جوش۔
(۵) ایک ہی حرکت کو طویل دورانیے تک دہراتے رہنا۔
(۶) چڑچڑاپن اور ذرا ذرا سی بات پر شدید جذباتی ردعمل۔
(۷) دائیں اور بائیں کے تصور میں دشواری
(۸) بول چال میں مشکل اور لہجے میں بگاڑ
(۹) عدم سلیقہ‘ بھونڈا پن‘ توازن رکھنے میں مشکلات اور اندازہ لگانے میں غلطی۔

دوتین سال کی عمر کے بچے ایسی نشانیاں عموماً ظاہر کرتے ہیں اس عمر میںیہ عام بات ہے لیکن اگر یہی نشانیاں چھے یا سات سال کے بچے میں موجود ہوں تو کسی ماہر سے رجوع کرنا چاہیے۔

والدین بچے کیلئے اہم ترین معلم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کاکردار بچے کی ذات کیلئے بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ عام طور پر بچے میں کسی قسم کی کمزوری یا عدم استطاعت کا احساس سب سے پہلے والدین کو ہی ہوتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچے کی بھلائی کیلئے اپنے کردار کو سمجھیں‘ بچہ مکمل طور پر والدین پر انحصار کرتا ہے۔ ایسے بچے کی بروقت مدد کرنی چاہیے۔ بروقت تشخیص مشکلات کو بہت حد تک کم کردے گی۔ بچوں کی نشوونما کے بارے میں ضروری معلومات حاصل کرنی چاہیے اس سے والدین کو اندازہ ہوسکے گا کہ کس عمر میں بچے کو کیا کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ والدین کو بچے کی حرکات و سکنات پر نظر رکھنی چاہیے۔ اس کی کمزوریوں اور غیرمعمولی صلاحیتوں کی پہچان کی کوشش کرنی چاہیے۔

اساتذہ ایسے بچے کی مشکلات کو عام طور پر سمجھ نہیں پاتے اور ایسے بچے ان کے غصے کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ روایتی اصلاحی طریق تدریس ہے جس کے کوئی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوتے۔ آخر کار اس بچے کو بگڑا ہوا‘ سست‘ ضدی‘ ناقابل تدریس اور نکما وغیرہ گردانا جاتا ہے۔ تعلیمی عدم استطاعت نہ تو کوئی بیماری ہے اور نہ لاعلاج مسئلہ۔ ایسے بچوں کو زیادہ توجہ اور بہتر نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا اگر اسے اساتذہ کی بھرپور توجہ حاصل ہوجائے تو وہ جلد یا ذرا دیر سے تعلیم حاصل کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔

یہاں چند ایسے لوگوں کا ذکر ضروری ہے جو تعلیمی عدم استطاعت یا تعلیمی صلاحیت میں کمی کے باوجود بروقت مدد کی وجہ سے بہت بلند مقام تک پہنچے۔ اس سے والدین کو یہ اندازہ ہوگا کہ بروقت اور موثر تدابیر اور اقدامات ان کے بچے کا مستقبل سنوار سکتے ہیں۔ مشہور سائنس دان البرٹ آئن سٹائن نے تین سال کی عمر تک بولنا نہیں سیکھا تھا اور حساب میں کمزور اور بولنے میں دقت محسوس کرتا تھا۔ ایڈیسن جس کی ایجادات کی فہرست بڑی طویل ہے‘ بچپن میں ذہنی معذور سمجھا گیا تھا۔ ڈاکٹر فریڈ جے الپسٹائن موجودہ دور کے عالمی شہرت یافتہ بچوں کے نیورو سرجن بچپن میں تعلیمی عدم استطاعت کا شکار رہے تھے۔

abdul razzaq wahidi
About the Author: abdul razzaq wahidi Read More Articles by abdul razzaq wahidi: 52 Articles with 86986 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.