اصطلاحات وِفاق
الشیخ ولی خان المظفر
مَعْہَدْ:ادارہ، اکیڈیمی، انسٹی ٹیوٹ، ج۔ مَعَاھِدْ۔ کچھ برسوں سے یہ لفظ
ہماری تعلیم گاہوں میں بطورشعبہ ، اکیڈیمی اور ادارہ استعمال ہونے لگا ہے،
جامعہ فاروقیہ کراچی کا۔ معھداللغۃ العربیۃ والدراسات الإسلامیۃ۔کافی شہرت
کا حامل ہے۔ لغۃً باب سمع سے آتا ہے: وصیت کرنا، پیشگی حکم کرنا،وعدہ
لینا۔الاکادیمیۃ: اکیڈمی۔
اَلمَدْرسَۃُ:یہ باب نَصَرَسے صیغہ ٔ اسم ظرف ہے۔ (ۃ) اس میں مبالغے کی ہے۔
معنی ہیں: کثرتِ پڑھائی کی جگہ بروزن مَأْسَدَۃ: وہ جگہ جہاں شیروں کی کثرت
ہو۔اس کی جمع مَدَارِسْ ہے (دَرَسَ ، یَدْرُسُ، دَرْسًاوَدُرُوْسًا)……
النقش مِٹنا، مٹانا، الثوبَُ: بوسیدہ ہونا/بوسیدہ کرنا۔ الناقۃَ: سدھانا۔
الکتابَ والعلمَ دَرْسًا ودِرَاسَۃً: پڑھنا، یاد کرنا،جائزہ لینا۔ الحنطۃَ:
گیہوں گاھنا، (درَّس و أدْرَسَ): ‘‘پڑھانا، سَدھانا، (دَارَسَ، مُدَارَسَۃً
ودِرَاساً): باھم پڑھناتکرار کرنا، مذاکرہ کرنا۔ الذنوبَ: ارتکاب کرنا باب
تفاعل اور افّاعل سے مفاعلہ اور نصر کا مطاوع ہے (اِنْدرَس): ناپید ہونا (الدرْسُ):
سبق، مخفی راستہ ۔ ج: دُروس ومنہ قول الشاعر:
وَمَنْ طلب العلومَ بغیر دَرْسٍ
/سید رکہا إذاشاب الغرابُ
– ترجمہ: جو شخص بغیر درس (پڑھائی) کے عالم بننا چاہتا ہو (اسے معلوم ہونا
چاہیے کہ) وہ عالم بن جائے گا کّو ے کے سفیدریش ہونے کے وقت (اور وہ محال
ہے، لہذا اس طرح عالم بننا بھی محال ہے)۔ (الدِرْس، والدَرْس،
والدریس)پرانا کپڑا، اونٹ کی دُم ۔ ج: أدراس ودِرْسان۔ (الدَرَّاسُ) بہت
پڑھنے والا۔ (إدریس)بہت زیادہ پڑھنے والا۔ ایک نبی (حضرت أخنُوخ علیہ
السلام)کا نام ۔(المدرُوس):پرانا کپڑا، اوراسی طرح پاگل کے لیے بھی یہ لفظ
استعمال ہوتا ہے۔ (المِدْرَاسُ) قرآن اور توریت پڑھنے کی جگہ۔بطرس البستانی
نے محیط المحیط میں لکھا ہے کہ مدرسۃ بھی مِدراس سے ماخوذ ہے، لیکن یہ
بظاہر ناقابل فہم اس لیے ہے کہ مدرسۃ باب نصر سے ظرف مکان کا صیغہ ہے جس کے
معنی بنتے ہیں’’ پڑھنے کی جگہ‘‘لہذا اس کو مِدراس سے ماخوذ ماننا دور از
قیاس ہے۔ آگے چل کر (المدرسۃ)کے متعلق وہ لکھتے ہیں: ’’موضع یُدرس فیہ
القرآن وغیرہ، ویتعلم فیہ الطلبۃ، سُمّیت بہ لکثرۃ الدرس فیہا، ج ۔
مَدَارِسُٗ ‘‘۔
ایک اور غلط روایت ہمارے یہاں یہ چل نکلی ہے کہ دینی درسگاہوں کے موجودہ
فروق کا لحاظ کیے بغیر کئی جگہ جگہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ادارہ مکتب لیول
یا پھر مدرسہ لیول کا ہوگا، نام اسے جامعہ کا دیا جائے گا۔ حالانکہ یہ
نامناسب ہے۔ وفاق کے مرکزی دفتر کو الحاق سند جاری کرتے وقت مذکورہ بالا
مستویات ، لیولز اور معاییر کو اہتمام سے مدنظر رکھنا چاہیے تاکہ ملحقہ
مدارس بین الاقوامی معیار ومستوی کی طرف گامزن ہوں اور کہیں مسخرہ پن کا
شکار نہ ہوں۔
نیزبعض مدارس و جامعات کے ناموں میں فنّی لحاظ سے کلام کی گنجائش ہوتی ہے،
اس واسطے مسؤلین وفاق کو الحاق کرتے وقت عربی قواعد کے لحاظ سے بھی اس کا
خیال رکھنا چاہیے،تاکہ مدرسے کا نام ہمارے بریلوی حضرات کے(المدرسۃ
المدینۃ)کے بجائے مدرسۃ المدینۃ ہی ہو۔ بعض مشہور و معروف جامعات ایسی ہیں
کہ اگر ان کے نام پر غور کیا جائے تو اس میں تصحیح کی کچھ نہ کچھ ضرورت کا
احساس ہوتا ہے۔ اور وفاق کو یہ بھی کرنا چاہیے کہ مدارس کے اپنے یہاں الحاق
(رجسٹریشن) کے وقت کم سے کم صوبائی سطح پر یہ امر ملحوظ رکھے کہ ایک ہی نام
سے دو مدرسوں کا الحاق نہ ہونے پائے۔ بلکہ سابقہ الحاق شدہ مدرسہ کے نام پر
اگر کسی اہل مدرسے نے الحاق کی درخواست دی تو انہیں بتایا جائے کہ اس نام
کا ایک مدرسہ ہمارے یہاں پہلے سے ملحق ہے۔
دَارُالعُلوم:یہ دولفظوں پر مشتمل ہے۔دَارُٗ اور عُلُومُٗ پر۔اول الذکر کے
معنی ہیں: گھر۔ ج دُوْرُٗ و دِیَارُٗ۔ ثانی الذکر عِلْمُٗ کی جمع ہے تو اس
کا لغوی معنی بنا: علموں کا گھر۔ اور اصطلاح میں اس کا اطلاق عام طور پر
دینی چھوٹے بڑے مدرسے/ جامعہ پر ہوتا ہے۔ لفظ جامعہ کی شہرت کے بعد لفظ
دارالعلوم پس منظر میں جارہا ہے۔ اسی لیے جہاں جہاں دارالعلوم ہے اس کے
شروع میں جامعہ کا سابقہ لگایا جاتا ہے اور جامعہ دارالعلوم کہا، لکھا اور
پڑھا جاتا ہے۔
جامعہ ٔ پنجاب کے ’’دائرہ ٔ معارفِ اسلامیہ‘‘ میں مدارس کے حوالے سے قریباً
۴۰ صفحات پر مشتمل زبردست تاریخی و تحقیقی گفتگو کی گئی ہے جس کی تمہید میں
تعارف مدارس پر یوں نگاہ ڈالی گئی ہے:
((…… مدرسہ کی جمع مدارس اور مکتب کی جمع مکاتب ہے، مدرسہ پڑھنے پڑھانے کی
جگہ کو کہتے ہیں،اور مکتب لکھنے کی جگہ کو۔ ایران، ہند، پاکستان
(وافغانستان) میں عموماً لوگ بچوں کے ابتدائی حروف تہجی سیکھنے اور پڑھنے
کی جگہ کو مکتب اور بالغوں کی پڑھنے کی جگہ کو مدرسہ سے تعبیر کرتے ہیں۔
سکول کا لفظ دونوں کو شامل ہے، اس لیے کہ جونیئر اور سینیر کے لحاظ سے اس
کی تقسیم پرائمری اسکول اور ہائی یا سیکنڈری (ثانوی) سکول میں کرتے ہیں۔
سرزمین عرب اور شمالی افریقہ میں بچوں کے سکولوں کو کُتَّاب (ج۔ کتاتیب)
اور مکتب بھی کہتے ہیں………………مدرسہ مکتبۂ فکر کے معنی میں بھی
آتاہے۔فصلٌ،زاویۃٌ،حلقۃٌ:درسگاہ ۔صف :جماعت کو کہتے ہیں۔
ہجرت کے بعد خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم۔ اور سربرآوردہ صحابہ ٔ کرام رضی
اﷲ عنہم۔ قرآن مجید کی تعلیم دیتے تھے۔ غزوۂ بدر کے بعض قیدیوں کو مسلمانوں
کے دس دس لڑکوں کو پڑھنا لکھنا سکھانے کے عوض آزاد کیا گیا، بعد میں مسجدِ
نبوی کے چبوترے (صُفہ) پر تقریباً (۷۰)صحابہ (أصحاب صفّہ) جمع ہوگئے، جو
اپنے اوقات قرآن مجید اور احادیث کے حفظ کرنے، دین کی باتیں سیکھنے، اور اﷲ
کی یاد میں صرف کرتے تھے، (اور یہی اسلام کا اولیں مدرسہ کہلایا)۔
یہ طریقہ صدیوں سے گذرتا ہوا آج تک کم و بیش ہر مسلم ملک میں رائج ہے کہ
بچوں کو قرآن مجید پڑھنا سکھاتے ہیں، بعدازاں ترجمہ ٔ قرآن ، تفسیر، حدیث
اور فقہ نیز علوم عربیہ ادبیہ کی تدریس و تعلیم کا انتظام و اہتمام ہوتا
ہے، ہمارے علماء انہی دینی مدارس کے فارغ التحصیل (فضلاء) ہوتے ہیں))
(ج/۲۰، ص۱۵۴ تا ۱۹۴)
(اَلْعَرَبِیَّۃ) :عرَبک،ارَبک۔ عَرَبی (عَرُبَ، یَعرُبُ، عَرْباً،
وعَرُوْباً، وعَرَابۃً، وعُرُوْبَۃ، وعُرُوْبِیَّۃً) فصیح عربی زبان بولنا،
خالص عربی ہونا( عَرِب یَعْرَبُ، عَرَباً)بگڑے ہوئے معدے والا ہونا، معدہ
خرب ہونا، الجُرحُ: سوجنا اور پیپ والا ہونا۔البئرُ:کنوئیں میں پانی بکثرت
ہونا۔ الرَّجُلُ: لکنت کے بعد فصیح ہونا۔ (عَرَبَ،
یَعْرِبُ،عَرْباً)الطعامَ: کھانا۔ (عَرَّبَ) المنطقَ:کلام کوعربی غلطی سے
پاک کرنا۔ الکتابَ والمقالۃَ ونحوَھما:عربی میں ترجمہ کرنا۔تعریب کرنا۔(
احقرکی کتابتعریب علم الصیغۃ اسی سے ہے) العُرْبُوْنَ
والعَرَبون:(بیعانہ)سائز دینا، بیعانہ دینا، الاسمَ الأعجمَّي: عجمی لفظ کو
عربی لہجہ میں ادا کرنا، معرّب بنانا۔ (أَعْرَبَ) :ظاہر کرنا، عن حاجتہ:
صاف بیان کرنا، کلامہ: فصاحت سے بولنا، غلطی نہ کرنا، اس کی مشابہت کرنا،
دیہات میں اقامت کرنا، اعرابی بننا (اِسْتَعْرَبَ) عربوں میں ضم ہوجانا۔
قبیح بات بولنا (العُرْبُ والعَرَبُ): عرب لوگ اس کا واحد عربی اور ج
أَعْرُبْ و عُرُوْبُٗآتی ہے۔ (العُرْبُ، والعَرْبَاءُ، والعَارِبَۃُ،
والعَرِبَۃُ، والعَرَبِیَّۃُ)خالص عربی النسل لوگ (اللُّغۃ۔
العربِیَّۃ):عربی زبان ۔ الأَعْرابی: عرب دیہاتی ج: أعْرَاب۔ العَرَبَۃ:
تانگہ ، ریل کا ڈبہ، رکشہ، نیز بہنے والی نہر، العَرُوْبَۃ: شوہر سے محبت
کرنے والی خاتون ۔ ج: عُرُبْ۔ ومنہ: ﴿عُرُباً أتْرَاباً﴾بعض مفسرین (عبداﷲ
بن عباس)نے یہاں عُرُباً سے مُتَکَلِّماتٍ بالعربیۃ بھی مراد لیا ہے۔ جمعہ
کو اسلام سے پہلے عرب لوگ :یوم العُروبۃ کہا کرتے تھے۔اسلام سے قبل کے
عربوں کے نظامِ معاشرت ،سماج کو بھی عُروبۃ کہاجاہے۔
وِفاق کے نام میں شامل چوتھا لفظ ’’پاکستان‘‘ہے۔ یہ دو کلموں سے مرکب ہے:
پاک، جس کے معنی مشہور و متداول ہیں۔ ستان، یہ جگہ اور زمین کے معنی میں
مستعمل ہوتا ہے۔افغانستان: افغانوں کی زمین، عربستان: عربوں کی زمین،
انگلستان: انگریزوں کی زمین۔ پاکستان: پاک زمین: الأرض الطاھرۃ (پاک
لینڈ)۔عربی میں (پ ) کو (ب) سے تبدیل کیا جاتا ہے، اس لیے عربوں کے یہاں
پاکستان کا پورانام (جمہوریۃباکستان الاسلامیۃ) ہے۔
اگر وفاق کے لفظ میں صرف (والجامعات) کا لفظ بڑھایا جائے اور پورا نام یوں
ہو:( وفاق المدارس والجامعات العربیۃ بباکستان ) تو زیادہ مناسب اس لیے رہے
گا کہ اس نام میں جامعات کا تذکرہ باقاعدہ آجائے گا، جن کی باقاعدہ شمولیت
اور الحاق پہلے سے موجود ہے،اصل نام میں کوئی بڑی اور نامانوس تبدیلی بھی
نہیں ہوگی۔ (جاری ہے) |