جس طرح یہ مثال صادق ہے کہ ! “Picture has both sides” اسی طرح یہ بھی
حقیقت ہے کہ جہاں "وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ" اسی طرح کسی مہربان
کے بقول یہ بھی کچھ غلط نہیں کہ "وجود زن سے ہے عرصہ کائنات میں جنگ" یعنی
وجود زن سے جہاں کائنات میں رنگ ہے وہیں وجود زن سے عرصہ کائنات میں جنگ کا
عمل بھی جاری ہے عرصہ دراز سے کائنات کا یہ رنگ وجود زن کے باعث لہو کے سرخ
رنگ کی صورت بھی اختیار کرتا رہا ہے انسانی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ
حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ وجود زن سے عرصہ کائنات کس طرح جنگ و جدل
اور قتل و غارت گری کا میدان بنا رہا ہے
ایسے بیشتر واقعات کی صداقت کی شہادت انسانی تاریخ کے مطالعے سے بخوبی عیاں
ہے یہاں تک کے دنیا میں انسان کی اپنے آپ سے دشمنی کا باعث حوا کی حیثیت سے
عورت ہی ہے کہ جو ابلیس کے بہکاوے اور فتنہ میں آکر آدم کو اپنے ساتھ جنت
سے نکل جانے کی اذیت اٹھانے کا باعث ہوئی بہر حال یہ تو ایک بہانہ تھا قدرت
نے انسان کو زمین پر بسانا تھا
لیکن "وجود زن سے ہے عرصہ کائنات میں جنگ " کی صداقت ہابیل و قابیل کی آپسی
عداوت سے ثابت ہے کہ انسان کی انسان سے دشمنی کے آغاز کا سبب یہی عورت بنی
کہ جس کے وجود سے کائنات میں رنگ ہے حسن ہے خوبصورتی ہے زندگی ہے
جس طرح ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں اسی طرح انسانی شخصیات کے بھی دو پہلو
بلکہ بعض افراد تو اپنی شخصیت میں ہمہ جہت پہلو لئے ہوتے ہیں جن میں سے
جہاں روشن اور مثبت پہلو ہیں تو وہاں پر کچھ منفی پہلو بھی دکھائی دیتے ہیں
اسی طرح عورت جہاں بےشمار خوبیوں کا مرقع ہے وہیں پر عورت میں کچھ خامیاں
بھی ہیں جہاں وجود زن سے کائنات میں رنگ ہے وہیں وجود زن کائنات میں جنگ و
جدل اور فتنہ و فساد کا سبب بھی بنی رہی ہے کہتے ہیں کہ زر ، زمین اور زن
یہ تین چیزیں ایسی ہیں جو دنیا میں فتنہ و فساد اور جنگ و جدل کا باعث بنتی
ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں تاریخی و موجودہ حالات و واقعات کا جائزہ اس
حقیقت پر شاہد ہے کہ وجود زن سے دنیا نے کیا کیا فتنے پائے ہیں
مغلیہ سلطنت کے زوال کے اسباب میں سے ایک اہم سبب فتنہ زنانہ بھی ہے،
شہنشہاہ اکبر کی کنیز خاص المعروف “انار کلی“ کی مثال بھی فتنہ زن پر دال
ہے کہ جس کی محبت میں بیٹا باپ کے مقابل آگیا اور باپ بیٹا ایک دوسرے سے
نبرد آزما ہوئے
آج بھی آخبارات و رسائل میں بہت سے خبریں ایسے واقعات اور کہانیاں موجود
ہیں کہ جن سے عرصہ کائنات میں جنگ کے کئی مناظر دیکھنے میں آتے ہیں
شادی خانہ آبادی جو کے عورت کے باعث گھر بنانے اور بسانے کے لئے کی جاتی ہے
یہ خانہ آبادی کئی ہنستے بستے خوشحال گھرانوں کی بربادی کا باعث بھی ثابت
ہوئی ہے کہ جس نے تمام نہ سہی کئی افراد کے دل میں شادی خانہ آبادی کے خیال
کو ترک کرنے پر اس حد تک مجبور کر دیا ہے کہ وہ شادی کے ذکر سے بھی متنفر
دکھائی دیتے ہیں ایسے بہت سے واقعات منظر عام پر آئے ہیں کہ دوست دوست کے
خلاف ہوا ، بھائی بھئی سے جدا ہوا، خاندانوں میں فساد برپا ہوا یہاں تک کے
عورت ہی عورت کی دشمن ہے“ یہ بات بھی بہت سی صورتوں میں ظاہر ہوئی کے اکثر
مرد حضرات شادی سے پہلے جن بہنوں پر جان چھڑکتے تھے شادی کے بعد بہنوں کے
متعلق ان کے نظریات اور انکی محبت یکسر تبدیل ہو گئے اپنی ماں کے تابع
فرمان بچے ماں سے تکرار پر آمادہ ہونے لگے (اگرچہ ہر گھر میں ایسا نہیں ہے)
اور یہ ساری عنایات وجود زن کی مرہون منت ہیں
مگر بات وہی آجاتی ہے کہ ہر بات کا کوئی محرک ضرور ہے ایسا کیوں ہوتا ہے اس
کا سدباب کیونکر ممکن ہے اور آئندہ کے لئے اسے کیسے روکا جا سکتا ہے
بہرحال اب تک جو ہو چکا سو ہو چکا آگے سوچنا یہ ہے کہ آگے کے لئے کیا کیا
جائے
کہتے ہیں کہ ‘تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے‘ ، ‘جہاں چار برتن اکھٹے ہوں
وہاں آوازیں پیدا ہوتی ہی ہیں‘، لیکن یہ تالی مستقل بجنے لگے یا آوازیں
مسلسل سنائی دی جانے لگیں تو یہ کیفیت رفتہ رفتہ انتہائی گمبھیر صورت
اختیار کرتی چلی جاتی ہے لہٰذا ہر چیز کو حدود کے اندر رہنا چاہیے ہر
معاملے میں توازن ہونا چاہیے
اگر تالی بجانے والا ایک ہاتھ رک جائے تو دوسرا ہاتھ بھی خود بخود رک جائے
گا کیوں کے ایک ہاتھ سے تالی بجانا ممکن نہیں، اور برتنوں کو ایک دوسرے کے
اس قدر قریب نہ رکھا جائے کہ ان کے آپس میں زیادہ سے زیادہ ٹکرانے سے زیادہ
آوازیں پیدا ہونے کا امکان ہو یعنی آپس کی قربت اور معاملات کو مناسب حد تک
محدود رکھا جائے، ایک دوسرے کے جائز معاملات میں ناجائز مداخلت سے گریز کیا
جائے، اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے احساسات اور جذبات کا خیال رکھا جائے، کسی
کے ساتھ بھی ناانصافی اور غیر مساویانہ رویہ نہ رکھے جائے ، دوران گفتگو
ادائیگی الفاظ میں نفاست و شائستگی اور لہجے میں نرمی و مٹھاس کا خیال رکھا
جائے تو میرے خیال میں بہت کچھ سنوارا جا سکتا ہے اور وجود زن سے عرصہ
کائنات میں پیدا ہونے والی ممکنہ جنگ کی صورت حال پر کافی حد تک قابو پایا
جا سکتا ہے
ازل سے یہی دستور رہا ہے کہ روشنی ہے تو اندھیر بھی ہے خوشی ہے تو غم بھی
ہے پانی ہے تو آگ بھی ہے دھوپ ہے تو برسات بھی ہے دن ہے تو رات بھی ہے لیکن
اندھیرے میں روشنی کی جاسکتی ہے غم کے اندھیروں میں آس کی شمع جلا کر خوشی
کی امید اداس چہروں پر مسکراہٹوں کے پھول کھلا سکتی ہے آگ بجھائی جا سکتی
ہے دنیا میں جاری و ساری مسائل کا حل موجود ہے صرف تھوڑی سی ہمت کوشش اور
تدبیر سے تمام مسائل حل تلاش کر کے رفتہ رفتہ تمام مسائل کو حل کیا جا سکتا
ہے
جب تمام مسائل کا حل دنیا میں موجود ہے تو عرصہ کائنات میں وجود زن سے جاری
جنگ پر قابو پانا بھی ممکن ہے اور‘وجود زن سے ہے عرصہ کائنات میں جنگ‘ کو
اس کی متضاد کیفیت میں تبدیل کرنا ممکن ہے کہ ‘وجود زن سے ہے تصویر کائنات
میں رنگ‘ |