قوموں کی زندگی میں تعلیم کو
بنیادی حیثیت حاصل ہے ۔اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسی انسانی جسم میں خون کی۔
جیسے خون کے اثرات جسم کے ہر حصے تک پہنچتے ہیں ایسے ہی تعلیم سے قومیں
براہ ِراست متاثر ہوتی ہیں۔ اگر خون صاف اور بیماریوں سے پاک ہو تو جسم
تندرست رہتا ہے۔ کسی مریض کو خون لگوانا ہو تو سب سے پہلے چیک کیا جاتا ہے
کہ خون بیماریوں سے پاک ہو کیوںکہ بصورت دیگر خون میں موجود بیماری دوسرے
فرد میں بھی منتقل ہونے کا خدشہ رہتاہے۔ بالکل اسی طرح تعلیم میں کوئی چیز
اپناتے ہوئے اُسے دیکھ لینا چاہیے کہ کہیں اُس میں کوئی مضراثرات تو نہیں
جس سے قومی زندگی متاثر ہو جائے۔
جس طرح کسی قوم لئے دفاع کا شعبہ بہت ضروری ہے ، کیوں کہ اِس سے ملک کی
جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کی جاتی ہے ، اسی طرح تعلیم کا شعبہ اِس سے بھی
زیادہ ضروری ہے کیوں کہ اس سے نظریاتی سرحدوں کی حفاظت ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے
زندہ قومیں اِن دونوں شعبوں پر خصوصی توجہ مرکوز کرتی ہیں۔اور دفاع کے ساتھ
ساتھ تعلیمی محاذ پر بھی دشمنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہیں۔ جس طرح کسی ملک
کی سلامتی اور حفاظت کے لئے محکمہ دفاع کو وفاقی محکمہ قرار دیا جاتا ہے
اِس سے بھی زیادہ ضروری ہیے کہ تعلیم کا شعبہ بھی وفاقی ہو۔
اور ماہرینِ تعلیم اِس بات پر متفق ہیں کہ تعلیم میں نصاب سازی انسانی جسم
میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے اِسی وجہ نصاب سازی کے وقت عصری تقاضوں کے
ساتھ ساتھ قومی اُمنگوں، تہذیبی و دینی اقدار، سیاسی ومعاشی حالات کا لحاظ
بھی رکھا جاتا ہے۔ کسی بھی قوم کو متحد ومتفق رکھنے کے لئے بھی ایک قو می
زبان اور قومی نصاب کا ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ عصرِ حاضر میں دنیا پر غلبہ کی شوقین طاقتیں آج اسی تعلیم کے
ذریعے ترقی پذیرممالک میں عمومًااور اسلامی ممالک میں خصوصًا اپنی مرضی کے
مطابق انقلاب لانے کے لئے ہر طرح کے وسائل بروِ کار لا رہی ہیں۔لھٰذا وہ
اِس سلسلے میں ہر محاذ پر برسرِپیکار ہیں۔
اسی وجہ سے آج کل استعماری وطاغوتی طاقتوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو
اپنے نشانے پہ رکھا ہوا ہے حالانکہ اِس سے پہلے بھی تاجِ برطانیہ کو اپنی
دورِ حکمرانی میں انگریزی انقلاب بذریعہ تعلیم میں اپنی تمام تر کوششوں کے
باوجود ناکام ونامرادہوکرجانا پڑا تھا۔
قیامِ پاکستان سے پہلے انگریزی اِنقلاب بذریعہ تعلیم کو ہمارے قومی شاعروں
نے موضوعِ سخن بنایا ہے۔ جیسا کہ اِس بارے میں شاعرِمشرق علامہ اقبال نے
فرمایا:
تعلیم کے تیزاب میں ڈال ان کی خودی کو
ہوجائے ملائم تو جدھر چاہے اُدھر پھیر
تائثیر میں اکسیرسے بڑھ کر ہے یہ تیزاب
سونے کا ہمالہ ہو تو مٹی کا ہے اِک ڈھیر
اکبر اِلٰہ آبادی نے اِس بارے میں فرمایا:
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
ایک دوسرے مقام پر یوں فرمایا :
شیخ مرحوم کا قول اب مجھے یاد آتا ہے
دِل بدل جاتے ہیں تعلیم بدل جانے سے
یورپی ممالک ، چین ، جاپان وامریکہ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک بھی صرف
اپنی تعلیمی ترقی کی بدولت ہی موجودہ دنیا پر راج کر رہے ہیں۔ دنیا میں کسی
بھی طرح کاکوئی انقلاب تعلیم کے بغیر برپا نہیں کیا جاسکتا۔ آج تک جتنے بھی
انقلاب دنیا نے دیکھے ہیں وہ سب تعلیم ہی کے مرہونِ منت ہیں۔ ذیل میں چند
ایک مثالیں بطورِدلیل کے پیش کی جاتی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ کسی بھی طرح
کا مثبت یا منفی انقلاب تعلیم ہی کے ذریعے وقوع پذیر ہو سکتا ہے۔
قبل از اسلام عرب کا بعد ازاسلا م عرب سے موازنہ کیا جائے تو اُن کے انداز
واطوارمیں ، فکرونظر میں ، لین دین اور معاملات اور عقائد وعبادات میں بہت
زیادہ فرق نظر آئے گا۔ وہ کونسی چیز تھی جس نے غیر مہذب اوروحشی قوم کودنیا
کو تہذیب وتمدن سکھانے والا بنا دیا ، ایک دوسرے کے جان کے دشمن کس طرح ایک
دوسرے کے لئے جان دینے والے بن گئے اور جن پر کوئی حکومت کرنا پسند نہ کرتا
تھا وہ کس طرح مھذب ومتمدن دنیا کے امام بن گئے؟ تہذیب وتمدن سے نا
آشنادنیا کو سیاست وحکومت کے گُر سکھانے والے بن گئے؟ اِس کا جواب صرف یہی
ہے کہ اسلامی تعلیم نے اُنہیں انقلاب کی راہ پر ڈال دیااور قرآن نے اُن کی
زندگیوں کو بدل کر رکھ دیا۔ اسی لئے تو کہتے ہیں: ” قرآن وہ کتاب ہے جو
درسِ انقلاب ہے۔“
(یہی وجہ ہے کہ ہمارے دشمن ہمیشہ سے اس کوشش میں رہے ہیں کہ کسی طرح
مسلمانوں کو اِس کتابِ انقلاب سے کاٹ دیا جائے۔ اِس سلسلے میں اُن کی
سازشیں کل بھی جاری تھیں اور آج بھی جاری ہیں۔ اسی سلسلے میں بیرونی آشیر
باد سے دینی وملی حمیت سے عاری حکمرانوں نے پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ
پنجاب کے تعلیمی سال 2012ءمیں جماعت نہم کی اسلامیات لازمی سے قرآن مجیدکی
تمام سورتوں ( الانفال ، الاحزاب اور الممتحنة ) کو خارج کر دیا اور احادیث
شریفة بھی نکال دیں۔ اس کی جگہ ایسی کتاب چھپوا کر تقسیم کر دی گئی جس میں
نہ کوئی قرآنی آیت تھی اور نہ کوئی حدیث۔ بعد میں عوامی دباﺅ کی وجہ سے اور
ملک وملت کے خیر خواہ طبقہ کی کاوشوں سے سابقہ نصاب بحال کردیا گیا)
نبی اکرم ﷺکے مبارک دور میں حضرت عُمر فاروق ؓ کو ایک دفعہ تورات کے چند
اوراق (کسی چیز پر لکھے ہوئے ) ملے تو آپؓ اُن اوراق کو لے کر آپ ﷺ کی خدمت
میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ کو اِس بارے میں بتایا تو آپ ﷺ کا چہرہ غصہ کی وجہ
سے سُرخ ہوگیا اور آپ ﷺ نے فرمایا: کیا جو اﷲ تعالیٰ نے مجھ پر نازل کیا وہ
آپ لوگوں کی ہدایت کے لئے کافی نہیں؟ آپ ﷺ نے صرف اِس لئے منع کیا کہیں اُس
لٹریچر کا اثر اُن پر نہ پڑ جائے حالانکہ آپؓ بڑے زیرک اور دانا انسان تھے
اور آپ ؓکی انتظامی صلاحیتوں کو اپنے وپرائے سبھی مانتے ہیں۔ کیا ہم نے بھی
اپنے بچوں کو کوئی لٹریچر یا نصاب دینے سے پہلے کبھی ایسا سوچا ہے؟ کیا
ہمارے بچے حضرت عمرفاروقؓ سے زیادہ دانا ہیں کہ اُن پر کسی مُضِر لٹریچر یا
نصاب کا کوئی اثر نہیں پڑ سکتا؟
امام غزالیؒ کے بارے میں مشہور ہے کہ آپ ؒنے اُس زمانے کے تقاضوں کے مطابق
فلسفہ و منطق کے مطابق اﷲ تعالیٰ کے وجود کو ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن جوں
جوں وہ اپنی تحقیق میں بڑھتے گئے اپنی دینی اقدار سے دُور ہوتے گئے حتٰی کہ
اﷲ تعالیٰ کے انکار تک نوبت جا پہنچی تو آپؒ نے توبہ کی اورکہا کہ میں اﷲ
تعالٰی کو ایسے ہی مانتا ہوں جیسے نبی اکرم ﷺ نے ہمیں بتایا ہے۔
1857ء کی جنگِ آزادی میں ہزاروں عُلَماءکو شہید کیا گیا اور ہزاروں کو
قیدوبند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جنگِ آزادی کے ان اسیروں میں سے ایک
مشہور شخصیت مولانا جعفر تھانیسری کی ہے۔ آپ کو کالاپانی نامی جزیرے میں
پچیس سال کیے لئے قید کیا گیا۔ اِس عرصہ میں آپ کے دِل میں انگریزی ادب کے
مطالعہ کا شوق پیدا ہوا۔ جوں جوں آپ انگریزی ادب کے مطالعہ میں بڑھتے
گئےدین سے دور ہوتے گئے ۔ آخر کار آنہوں نے اس لٹریچر کو ترک کر دیا کہ
کہیں ملحِد (بے دین) ہی نہ ہو جائیں۔ اِس بات کا تذکرہ اُنہوں نے اپنی
مشہورِ زمانہ کتاب تواریخِ عجیب المعروف بہ کالا پانی میں کیا ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعدقومی مطالبہ تھا کہ دیگر شعبہ جات کی طرح تعلیم کے
شعبہ میں بھی قومی اُمنگوں اور جدید تقاضوں کے مطابق تبدیلیاں کی جائیں۔ یہ
مطالبہ فطری بھی تھا لیکن بدقِسمتی سے پاکستان کے نظام ِتعلیم اور نصابِ
تعلیم میں کوئی خاص تبدیلیاں نہ لائی گئیں۔ نصابِ تعلیم میںمختلف اوقات میں
کچھ تبدیلیاں لانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ بھی ٹاٹ میں مخمل کے پیوند کی
طرح ثابت ہوئیں۔ لارڈمیکالے کے مرتب کردہ نظام ونصاب ِ تعلیم میں کوئی خاطر
خواہ تبدیلی نہ لائی جا سکی۔ نصاب میں موجود اسلامی اسباق اونٹ کے منہ میں
زیرہ کے برابر تھے۔ ہر دور میں قوم کی طرف سے قومی زبان اور قومی نصاب کا
مطالبہ زور پکڑتا رہا حتٰی کہ کئی تعلیمی پالیسیوں اور 1973ءکے آئینِ
پاکستان میں اس کے بارے میں شقیں بھی منظور کی گئیں۔ لیکن افسوس کہ قوم کے
غدار اور انگریزکے وفادار نام نہاد حکمرانوں نے قوم کا یہ خواب کبھی شرمندہ
تعبیر نہ ہونے دیا۔
اس نصابِ تعلیم کی خرابی کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ پاکستان بنے چھیاسٹھ سال
سے زائد عرصہ گزر چکا ہے لیکن آج تک ہم ایک قوم نہیں بن سکے۔ جس قوم کاکوئی
قومی لباس، کوئی قومی زبان اور کوئی یکساں نصابِ تعلیم نہ ہو ،وہ ایک قوم
بن بھی کیسے سکتی ہے؟ اسی نصاب کی وجہ اب ایک ایسا طبقہ بھی وجود میں آ چکا
ہے جو سِرے سے قیامِ پاکستان کا ہی مخالف ہے۔ آئے روز ہمیں ایسے لوگوں سے
پالا پڑتا رہتا ہے۔ نظریہ پاکستان کو بھی متنازعہ بنا دیا گیا ہے۔ اب ہمارے
کئی رُفقاءپاکستان کے قیام کی وجوہات میں سے اسلام کے عُنصر کا انکار کرتے
نظر آتے ہیں۔ ایک دفعہ میری اپنے چند رُفقائِ کار سے اِس بارے میں بحث ہوئی
تو اُنہوں نے نظریہ پاکستان کا انکار کیا ۔میں نے اُن سے پوچھا: پھر
پاکستان کس وجہ سے بنایا گیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا کہ پاکستان معاشی طور
پرہندﺅوں سے آزادی حاصل کرنے کے لئے بنایا گیا تھا اسلام کے نفاذ کے لئے
نہیں۔ میں نے کہا: اِس معمولیمقصد کے لئے دس لاکھ جانوں کی قربانی دینے اور
دنیا کی تاریخ میں سب سے بڑی ہجرت کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ مقصد تو ہندو
¾وں کے ساتھ رَہ کر بھی حاصل کیا جاسکتا تھا۔ میں نے اِس بارے میں تحریکِ
پاکستان کے عینی شاہد چنیوٹ کے بزرگ صحافی جناب حاجی عبدالغفور صاحب سے بات
کی اور انہیں سارا واقعہ سنایا اور اپنی پریشانی کا اظہار کیا تو اُنہوں نے
کہا: آپ پریشان نہ ہوں۔ اگر کچھ لوگ نظریہ پاکستان کے منکر آپ کو نظر آئیں
گے تو اُن سے زیادہ لوگ اﷲ کے وُجود کا انکار کرنے والے بھی موجود ہیں تو
کیا اُن کے انکار کی وجہ سے ہم بھی اﷲ تعالیٰ کے وُجود کا انکار کردیں؟ میں
نے قائدِاعظمؒ کی تقریریں براہِ راست سنی ہیں ۔ اُس وقت سب مسلمانوں کی
زبان پر یہ نعرہ زبان زدِعام تھا : بن کے رہے گا پاکستان ۔ لے کے رہیں گے
پاکستان ۔ پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الا اﷲ۔
اِس ساری بات کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ جیسی تعلیم ہوگی قوم بھی ویسی ہی
ہو گی۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم ایک قوم بنیں اور پاکستان ایک خوددار ،
مضبوط اور مستحکم مملکت کے طور دنیا میں اُبھرے تو ہمیں ایک قومی زبان ،
قومی پہچان (لباس) اور قومی نصاب کو اپنانا ہوگا بصورتِ دیگر ہم پانی
سمجھتے ہوئے سراب کے پیچھے بھاگتے رہیں گے جس کا نتیجہ سوائے موت کے کچھ
برآمد نہ ہوگا۔
ہمارا قومی المیہ ہے کہ قوم جس چیز کا مطالبہ کرتی ہے ، اقدامات ہمیشہ اُس
کے اُلٹ کئے جاتے ہیں۔ قومی زبان کا مطالبہ تو قیامِ پاکستان سے بھی پہلے
کا ہے۔ قائدِ اعظمؒ نے اِس بارے میں وضاحت بھی کی تھی کہ پاکستان کی قومی
زبان اُردو ہوگی۔ اِسی طرح قومی نصاب کا مطالبہ بھی بڑا دیرینہ ہے۔ لیکن
مقامِ افسوس ہے کہ ایک سازش کے تحت سابقہ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں
تعلیم کو صوبائی محکمہ قرار دے دیا گیا اور قومی زبان کی رہی سہی ساکھ بھی
تباہ کر دی گئی تاکہ اس قوم کے ایک بننے کے امکانات بھی ختم ہو جائیں اور
ہر طرف میر جعفر اور میر صادق طرز کے بیرونی آقاوئں کے وفادار قوم کے غدار
پیدا ہوتے رہیں۔
اِس سے بھی بڑا افسوس اِس بات پہ ہے کہ صوبہ پنجاب ، جو وفاقِ پاکستان کی
علامت سمجھا جاتاہے ، میں نظریاتی جماعت ہونے کے دعویدار حکمرانوں نے رہی
سہی کسر بھی نکال دی اور اپنے نظامِ تعلیم کو 2009ءکو DSDٓٓ (ڈائریکٹوریٹ
آف سٹاف ڈویلپمنٹ ) لاہور میں کئے گئے معاہدے کے تحت برطانیہ کے ہاتھ گروی
رکھدیا۔ اب پنجاب میں تعلیم سے متعلق تمام اُمور برطانوی روڈ میپ کے تحت
سرانجام پاتے ہیں۔ اِس سلسلے میں برطانوی مائیکل باربر اور امریکی ریمنڈ سب
سے بڑے صوبے کے شریف خادمِ اعلیٰ کے مشیرِ خاص کے فرائض سر انجام دے رہے
ہیں۔
اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر صوبہ پنجاب میں موجودہ تعلیمی سال 2013ءمیں
نصابِ تعلیم میں وہ تبدیلیاں کی گئیں کہ شاید اُن کا خواب تو لارڈمیکالے نے
بھی نہ دیکھا ہوگا اور جو کام ہزاروں لارڈمیکالے نہ کر سکتے تھے وہ ایک
اکیلے خادمِ اعلیٰ نے کر دکھایا۔ یہ الگ بات ہے کہ اِن خدمات کی وجہ سے
تاریخ اُنہیں قوم کے خادم کے طور پہ یاد رکھے گی یاکسی اور کے خادم کے طور
پر؟ موجودہ نصابی تبدیلیوں کا اندازہ بآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ اِن کا
مقصد کِس کی خوشنودی حاصل کرنا ہے؟ موجودہ نصاب میں جماعت پنجم سے لے کر
دہم تک اُردو سمیت مختلف مضامین میںسے سیرت النبی ﷺ ، اسلام کے ابطال
(ہیروز) اور تاریخِ اسلام و تاریخِ پاکستان سے متعلق تمام مواد کو خارج
کردیا گیا ہے۔ معمولی سی فہم و فراست کے حامِل افراد بھی یہ سمجھ سکتے ہیں
کہ نصابِ تعلیم کے اثرات نسلوں تک جاری رہتے ہیں۔ بجائے اِ س کے کہ قومی
زبان و قومی نصاب کو پروان چڑھایا جاتا ، اُلٹا قومی زبان وقومی نصاب کی
باقیات کو بھی اپنے ہاتھوں ملیا میٹ کر دیا گیا۔ آنے والے وقت میں کِس طرح
کے افراد تیار ہونگے اِس بارے میں اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں۔ سورج کی
تیز روشنی میںستارے کسی کوکب نظر آتے ہیں اسی طرح ڈالروں کی چکا چوند میں
کب اِس ملک و ملت کے نگہبانوں کو نصاب کی تبدیلی سے ہونے والا قومی زیاں
دکھائی دے سکتاہے؟
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس ِزیاں جاتا رہا |