جب اقوام متحدہ کی جانب سے پہلی مرتبہ لڑکیوں کا عالمی دن
منایا گیا تو واشنگٹن کی ایک غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ میں بتا یا جارہا
تھا کہ دنیا بھر میں گیارہ سے پندرہ برس کی عمر کی لگ بھگ چار کروڑ لڑکیاں
بنیادی تعلیم سے محروم ہیں۔ " پلان انٹرنیشنل کے سربراہ" انجیل جیب " کے
بقول کم عمر بچیوں میں تعلیم مکمل کرنے سے رکنے کے کئی عوامل ہیں جن میں سر
فہرست بچیوں کی کم عمر میں شادی اور تعلیم میں اٹھنے والے اخراجات
ہیں۔طالبان پر افغانستان حکومت کیجانب سے الزام عائد کیا جاتا ہے کہ
افغانستان میں حالیہ تشدد اور دہشت گردانہ حملوں کی لہر کے بعد بانچ سو
اسکولوں کو بند کردیا گیا اور 30ہزار سے زائد طلبا ءعلم حاصل کرنے سے محروم
ہوگئے ہیں۔ افغانستان کے 16ہزار اسکولوں میں 83لاکھ کے قریب طلباءزیر تعلیم
ہیں۔جس میں سے39فیصد لڑکیاں ہیں۔ جبکہ افغانستان حکومت نے تحریک طالبان پر
یہ بھی الزام لگایا کہ افغانستان کے صو بے نحار میں گذشتہ مہینوں کے دوران
لڑکیوں کے چار اسکولوں پر حملے کے دوران پانی میں زہر ملا دیا گیا جس سے
سینکڑوں طالبات کو طبی امداد دینی پڑی۔ایسی طرح پاکستان میں طالبان پر
الزام عائد کیا گیا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں گذشتہ پانچ برس کے
دوران محکمہ تعلیم فاٹا کے ڈپٹی ڈائریکٹر ہاشم خان آفریدی کے مطابق چار سو
پچاسی اسکول تباہ کئے گئے جس کی وجہ سے پانچ لاکھ بچوں کا تعلیمی سلسلہ
متاثر ہوا۔جبکہ تحریک طالبان کے مذہبی علما ﺅں نے اسکولوں کو نذر آتش کرنے
کی سختی سے مذمت کرتے ہوئے مذہبی عالم ولی محمد نے کہا کہ "کسی اسکول کو
نذرآتش کرنا غیر اسلامی اور غیر انسانی فعل ہے۔اسکولوں کو نذر آتش کرنےوالے
افغانستان اور اس کے مستقبل کے دشمن ہیں۔ مساجد ، اسکولوں اور ان تمام
مقامات کی حفاظت کرنے کی ضرورت ہے جہاں لوگ کچھ نہ کچھ سیکھتے ہوں ۔"ایسی
طرح ایک سینئر صحافی کے مطابق انھیں طالبان کے سابق ترجمان ذبیح اللہ مجاہد
نے ۸۲ مارچ کی ای میل میں ملا عمر کا موقف دیا ہے کہ" ملا عمر تعلیم و
تربیت کی اہمیت کو جانتے ہیں اور وہ دنیا اور آخرت کی کامیابی کاذریعہ علم
کے حصول ہی کو سمجھتے ہیں۔ سابق ترجمان کے مطابق طالبان کبھی بھی افغان
عوام کے لئے بنائے گئے تعلیمی اداروں ، اسپتالوں اور عوامی مقامات کو بموں
سے اڑانے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ایسا کرنے والوں کا طالبان سے کوئی تعلق
نہیں۔"
گزشتہ کئی دہائیوں سے خانہ جنگی اور بیرونی جارحیت کا شکار افغانستان میں
امریکی اور نیٹو کی جانب سے فروغ تعلیم کےلئے کی جانے پیش رفت کا بھی جائزہ
لے لیتے ہیں۔ افغان وزرات تعلیم کے ترجمان امان اللہ ایمان کے مطابق وزرات
کونئے نصاب کی تیاری اور نفاذ کے آغاز میں دس سال کا عرصہ لگا ہے لیکن اب
بھی ان کی راہ میں رکاﺅٹیں حائل ہیں۔ان کےمطابق امن و مان کے خراب صورتحال
میں پانچ سو اسکولوں کی بندش کے علاوہ تربیت یافتہ اساتذہ کی کمی کا ہونا
اہم ترین مسئلہ ہے۔اربوں ڈالرز کی اس جنگ میں تعلیم کےلئے وسائل کی کمی کا
شکوہ کرنے والے کہتے ہیں کہ "نئے نصاب کی 45لاکھ کتابیں اشاعت کی منتظر ہیں
جبکہ مزید 50لاکھ کے قریب نصابی کتب پاکستان میں موجود نیٹو سپلائی کی بندش
کی وجہ سے رکی ہوئی ہیں"۔ افغانستان میں 30لاکھ بچوں کو اسکول میسر نہیں
جبکہ ملک میں موجود کل سولہ ہزار اسکولوں میں سے لگ بھگ سات ہزار مناسب
عمارات سے محروم ہیں اور طلبہ کو خیموں اور کھلی جگہوں پر تعلیم دی جارہی
ہے۔افغان خواتین کی فلاح و بہبود کے سرگرم تنظیم "ویمن فار چینج"کی رضا کار
آرزو امید کا کہنا ہے کہ ان حالات کے باوجود افغاں لڑکیوں کا اسکول جانا
ضروری ہے۔اب آئیے پاکستان کی طرف ، جو دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جہاں اسکول
نہ جانے والے بچوں کی شرح سب سے زیادہ ہے اور صوبہ سندھ پاکستان کا وہ صوبہ
ہے جہاں اسکولوں میں بنیادی سہولتوں کے اعتبار سے فراہمی کی صورتحال سب سے
ابتر ہے ۔غیر سرکاری تنظیم "اسپارک"(سوسائٹی فار دی رائٹس آف چلڈرن )کی
سالانہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ڈھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے جبکہ
ستر لاکھ ایسے بچے ہیں جو پرائمری اسکول کی تعلیم کی عمر کو پہنچ چکے
ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بنیادی سہولتوں کے حوالے سے ملک بھر میں سب سے
خراب صورتحال سندھ میں دیکھی گئی جہاں 35فیصد سرکاری اسکولوں کی عمارتیں
موجود نہیں اوراگر اسکول ہیں تو چار دیواری نہیں، خیبر پختونخوا میں یہ شرح
23فیصد ، بلوچستان میںاٹھارہ فیصد اور پنجاب میں اٹھارہ فیصد ہے۔
رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا میں چھ لاکھ ایسے بچے ہیں جن کے ایک یا دو
تعلیمی سال بد امنی کی صورتحال کی وجہ سے خراب ہوئے ، 710 کے قریب اسکول
دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے ،سوات میں121 اسکول مکمل طور پر تباہ اور
280اسکولوں کو جزوی نقصان پہنچا۔سیلاب کی وجہ سے سندھ و بلوچستان میں
9800اسکولوں کو نقصان پہنچا ، چار لاکھ دس ہزار بچے تعلیم سے محروم ہوئے ،سات
لاکھ ، انتیس ہزار چھ سو بچوں کے پاس کتابیں نہیں اور لگ بھگ سندھ ،
بلوچستان میں ایک ہزار دو سو چوالیس ایسے اسکول ہیں جو سیلاب زدگان کے پناہ
گاہ کے طور پر استعمال ہو رہی ہیں ۔پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں
تقریبا ساڑھے 14ہزار سرکاری اسکول مناسب عمارتی ڈھانچے سے محروم ہیں اور
جہاں طلبا ءو طالبات درختوں تلے زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
صوبائی وزارت تعلیم کی حالیہ جائزہ رپورٹ کے مطابق پنجاب بھر میں قائم لگ
بھگ 59ہزار درسگاہوں میں سے 17ہزار سے زائد اسکولوں میں بنیادی سہولتیں
میسر نہیں ہیں۔اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں اسکول
جانے کی عمر کے 72لاکھ سے زائد بچوں کا اسکولوں میں اندراج نہیں ہے جبکہ
پرائمری اسکولوں میں داخلے کے بعد تعلیم ادھوری چھوڑنے والے بچوں کی شرح
58فیصد ہے۔پاکستان میں وزرات تعلیم کے عہدے دار کےمطابق دو ہزار ایسے"گھوسٹ"
یعنی فرضی اسکول ہیں جن کا وجود صرف کاغذوں میں ہے۔وزیر مملکت برائے تعلیم
و تربیت شاہ جہاں یوسف نے ایک بین الاقوامی ادارے کو انٹرویو دےتے ہوئے
بتایا کہ حکومت نے ایک ارب روپے کی لاگت سے بیس ہزار کیمونٹی اسکول بنانے
تھے لیکن بعض وجوہات کی بناءپر اس منصوبے پر 2010ءمیں کام رک گیا۔"گھوسٹ"
اسکولوں کے حوالے سے مقدمات درج کرکے نیب اور ایف آئی اے کو بھیج دئے گئے
لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلا اس سے ہم سب ابھی تک لاعلم ہیں -
یہ افغانستان و پاکستان کے حوالے سے تعلیم کے فروغ کے لئے حکومتی کوششوں کا
نامہ اعمال ہے۔ ایک جانب اربوں ڈالرز امن کے خاطر جنگ کےلئے خرچ کئے جارہے
ہیں لیکن تعلیم کے حوالے سے امریکہ سمیت نیٹو کا کردار ، ان لوگوں سے بھی
زیادہ بھیانک ہے جو اسکولوں کو تباہ کر رہے ہیں۔ دراصل درپردہ یہی وہ قوتیں
ہیں جو امریکی و نیٹو ممالک کے ایجنڈے کو کسی نہ کسی صورت میں کامیاب بنانے
میں مصروف ہیں۔ ایجنڈا ،تعلیم کے نام پر معصوم بچوں کا استحصال کرنا ،
انھیںبنیادی حقوق سے محروم رکھنا ، نصابی کتب کی عدم فراہمی ، سرکاری
اسکولوں کی حالت زار ،ہر پرائیوٹ اسکول کا من پسند نصاب و دہرا نظام ِ
تعلیم اور گھوسٹ اسکول ہیں۔پاکستان میں تعلیم کےلئے بمشکل دو فیصد مختص بجٹ
میں بڑا حصہ بد انتظامی اور بد عنوانی کی نظر ہوجاتا ہے۔اب سوچنا آپکا کام
ہے کہ ظلمت و تاریکی والا نظریہ کس کا ہے، کون قوم کے تعلیم یافتہ بننے سے
خوف زدہ ہے امریکہ،نیٹو،طالبان، افغانستان یا پاکستان ؟جنگ میں کھربوں
ڈالرز لگا دئےے لیکن قوم کو تعلیم سے محروم رکھنے کےلئے وسائل کی کمی ،
دہشت گردی کے جواز کو حقےقت یا بہانہ بنا کر کروڑوں بچوں کو تعلیم سے محروم
رکھنے کی سازش کی ہے ؟ ہے۔ یا پھر کہیں ایسا تو نہیں کہ اپنی بداعمالیوں ،
بد عنوانیوں پر پردہ ڈالنے کےلئے کچھ عناصر دنیا کی توجہ اس جانب مبذول
کرانا چاہتے ہیں کہ تعلیم کے فروغ میں سب سے بڑی رکاﺅٹ امریکہ، نیٹو ، یا
پاک افغان حکومتیں نہیں بلکہ طالبان ہیں ۔اب دیکھنا یہی ہے کہ نئی حکومتیں
اس پرانے چیلنج کا مقابلہ کرتی بھی ہیں یا پرانی کا ڈگر پر مسافر بھی صرف
منزل کے بجائے ایسے راستے تلاش کرے گا جس میں صرف فروعی مفاد و فوائد مل
سکیں ۔
پوچھتا ہوں صاحب ِ دفتر سے روز
مسئلہ کب میرا حل ہوجائے گا
ایک مدت سے ہے اُس کی ایک بات
"آج ہوجائے گا ' کل ہوجائےگا" |