| 1993کا وہ حسین دن جب میٹرک کی 
		سند میرئے ہاتھ میں تھی اچھے نمبروں سے پاس ہونے پر گھر والوں نے کوئی خاص 
		رسپانس نہ دیا تو وآدی نیلم کے گاؤں سے رحت سفر باندھا ارادہ تھا اب گھر 
		والوں پہ بوجھ نہ بنا جائے بلکہ اپنے پاؤں پہ کھڑا ہو کر والدین اور بہن 
		بھائیوں کی خدمت کی جائے اس ارادئے سے دارلحکومت مظفرآباد کی جانب سفر کا 
		آغاز کیا مظفرآباد پہنچ کر پولیس لائن پہنچا اور وہاں جو بھی پولیس والا 
		ملتا جس کے کاندھے پہ ایک یا ایک سے زائد چاند تارہ تھا ان سے درخواست کرتا 
		میں پولیس میں بھرتی ہونے کے لیے آیا ہوں مگر میری اس بات پہ ہر دوسرا شخص 
		مسکرا کر گزر جاتا جیسے میں کوئی جوکر ہوں خیر لوگ تمسخر اڑاتے رہے میں 
		اپنی کوشش میں لگا ہوا تھا ایک ہفتہ پولیس لائن صبح شام کے چکر لگا لگا کر 
		تھک ہار کر سبزا پہ بیٹھ گیا اور ہر اس پولیس آفیسر پہ نظر رکھی ہوئی تھی 
		جو میری معاونت کرئے ایک دن بڑی بڑی موچھوں والا ایک آفیسر گزرا تو میں نے 
		اس کی جانب تشنہ نگاؤں اور رحم کی بھیک لیے دیکھا تو وہ میرئے پاس رک گیا 
		اور خود ہی پوچھنے لگا برخوردار میں تمہیں کم از کم ایک ہفتہ سے ادھر دیکھ 
		رہا ہوں تم ادھر کیا کر رہے ہو ایک لمبی موچھیں دوسرا رعب دار آواز نے میری 
		رہی سہی قوت برداشت بھی ختم کر دی میں فورا کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا جناب 
		میں پولیس میں بھرتی کے لیے یہاں آیا ہوں ۔میری حالت دیکھ کر موصوف سمجھ 
		گئے بچہ ڈرا ہوا ہے وہ اپنے آفس لے گئے آفیسر موصوف کا تعلق ڈنہ کچلی سے 
		تھا اور راجہ فیملی کے چشم و چراغ تھے کچھ دیر دفتری کاموں میں مصروف رہے 
		بعد از فراغت کہنے لگے ہاں برخوردار کہاں سے آئے ہو؟کیا نام ہے ؟کس کے بیٹے 
		ہو ؟کس اسامی پہ بھرتی ہونے کے لیے آئے ہو ؟کچھ سوالات ان کے سہل تھے جن کا 
		جواب دیا مگر جس سوال پہ وہ زور دئے رہے تھے کون سی خالی آسامی میں بھرتی 
		کے لیے آئے ہو ؟اس بات کی مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی ۔سر میں پولیس میں بھرتی 
		کے لیے آیا ہوں وہ صاحب کسی حد تک سمجھ ہی گئے عزیز رشوت و سفارش کے بغیر 
		اور ایسے وقت میں وارد ہوا ہے جب پولیس میں خالی اسامیاں بھی نہیں کچھ دیر 
		وہ سوچتے رہے پھر گویا ہوئے بیٹا ایسا کر ابھی گھر چلا جا اور 20,000روپے 
		کا بندوبست کر کے 15دنوں کے اندر میرئے پاس آجانا ایک صاحب کی ریٹائرمنٹ 
		قریب ہے اس کی ریٹائرمنٹ کے بعد ایک پوسٹ خالی ہو جائے گی یوں تمہاری تقرری 
		ممکن ہے ۔20,000روپے میرئے لیے انتہائی نا ممکن تھے جس کی بنیادی وجہ میری 
		زات کی خاطر گھر والے یا دیگر کوئی رشتہ دار پھوڑی کوڑی لگانا نہیں چاہتے 
		تھے اب پولیس میں بھرتی کا خواب ایک خواب ہی بن کر رہ گیا اسی اثنا میں کچھ 
		ہی دنوں کے بعد مظفرآباد بینک روڈ (گیلانی چوک)میں اخبارات کی ایجنسی پہ 
		آجاتا اور اخبار کے ورق الٹ پلٹ کر دیکھتا شاہد کوئی ملازمت کا اشتہار ہو 
		اسی دوران ایک بات جو میں نے محسوس کی بڑی بڑی گاڑیوں پہ لوگ آتے وہاں نیوز 
		ایجنسی پہ کھڑئے ہو کر انتہائی ادب سے اخبار لیتے کچھ لوگ وہاں جمع ہو کر 
		اخبار پڑھتے جن کا تعلق ہر مکاتب فکر سے تھا اب کیا تھا زہین میں ایک بات 
		آئی اخباری رپورٹر بن جاؤں میری یہ کوشش اتنی جاندار تھی کہ مجھے روزنامہ 
		سیاست میں اپنی وآدی سے نمائندگی مل گئی یوں روزنامہ کے مالک نثار احمد 
		راتھر صاحب انتہائی نفیس قسم کے تھے انہوں نے ہر موقع پہ میری رہنمائی 
		کیاور ان کے روزنامہ کے ساتھ 1993سے 2000تک کام کیا اس دوران اشتہارات سے 
		جو کمیشن ملتا یا اخبار کی سرکولیشن سے 50فیصد ملتا اسی پہ اکتفا کیا اس کے 
		بعد دوسری بڑی بڑی اخبارات کے ساتھ کام کرنے کا بھی موقع ملا جن میں روز 
		نامہ جناح ،ازکار،پاکستان ،دیگر بڑی بڑی اخبارات شامل تھیں وقت نے انگڑائی 
		لی کہاں 1993کہاں 2013یا اﷲ ایک طرف صحافتی کیرئیر ہے دوسری جانب مالی 
		کرائسزز یہ بات زہن میں آنے کے بعد اس بات کا ادراک ہوا ملک و قوم کی خدمت 
		میں مامور رہا اور وقت بڑی بے رحمی سے گزر گیا جو ساتھی چند ہی سال صحافت 
		کو جوائن کیا تھا آج وہ اتنے اونچے مقام پہ ؟اور ایک میں چبوترا نماء مکان 
		میں گزر اوقات کر رہا ہوں کبھی اس خیال کو یوں بھی زہین سے جھٹک دیتا ہوں 
		کسی VIPsکی نہ ہی خوشامد کی نہ ان کے تلولے چھاٹے اور نہ ہی کبھی ان کے در 
		پہ پیشانی جھکی آج تک کوئی وزیر VIPsیہ کہہ دئے ضیاء سرور قریشی نے مجھ سے 
		اتنے روپے لیے یا دیگر کسی طرح کی مراعات لی تو میری گردن ان کی تلوار میرا 
		خون اعلانیہ ان کو معاف چند دنوں کی بات ہے ایک روزنامہ کی سالگرہ تھی 
		سالگرہ میں VIPsمدعو تھے راقم بھی اسی روزنامہ کے ساتھ بطور نیلم 
		جورا(نمائندہ خصوصی)کام کر رہا تھا اس روزنامہ کے ساتھ تقریباپانچ سال یا 
		زائد عرصہ کام کیا وہاں تقریب کے دوران دوسرئے نمائندوں کے قصیدئے پڑھے گئے 
		مگر راقم کا نام ایک وی آئی پیز نے لیا وہ بھی غلط سٹیج پہ بیٹھے تمام 
		لوگوں کو مخاطب کیا اور جب میری باری آئی تو اس طرح نام لیا سرور قریشی 
		صاحب جبکہ سرور قریشی میرئے والد کا نام تھا بہر حال دکھ سے نڈھال ہو کر 
		گھر پہنچا ایک تو روزنامہ کا زمہ دار آدمی بھی تھا اس نے بھی کچھ لفظ حوصلہ 
		افزائی کے لیے نہ کہا VIPsتو پہلے سے مخالف تھے اپنے آفس میں بیٹھ کر مضمون 
		لکھتا ہوں اور ان مضامین کو نئے لکھاریوں پہ چار پانچ سو میں فروخت کر دیتا 
		ہوں ایک تو ملک بھر میں ہزاروں روزناموں کی بہتات ہو چکی ہے دوسری جانب ان 
		پڑھ اور جائل رپورٹروں نے صحافت کے معیار کو وی آئی پی ز کے تلوؤں سے مشروط 
		کر دیا ہے ہم سے وی آئی پیز کے تلوئے نہ چاٹے گے ورنہ ہم بھی کار کوٹھیوں 
		،بنگلوں کے مالک ہوتے اگر یہ جائل گنوار رپورٹر معیار صحافت کو ختم نہ کرتے 
		تو شاہد پرانے لکھاریوں کو عزت و تکریم کی نظر سے دیکھا جاتا ہم نے تعلیم 
		ایسے حاصل کی جس طرح کوئی شدت پیاس میں پانی تلاش کرتا ہے میٹرک تک والدین 
		کے کرم رہے بعد ازاں پرائیویٹ اپنے ہی خون پسینے کی کمائی سے تعلیم کی 
		تشنگی بجانے کی سعی کی جو کے تا وقت تشنہ لب ہے اس ملک میں رہ کر ہم نے ملک 
		کو کیا دیا اور اس ملک و قوم کو ہم نے کیا دیا؟بقول شاعر عمر بھر لکھتے رہے پھر بھی ورق سادہ ہی رہا
 جانے ایسے کون سے لفظ تھے جو ہم سے تحریر نہ ہو سکے۔
 |