انسانی تدبیر

دنیا میں عموماً جبکہ پاکستانی معاشرہ میں خصوصاً بعض لوگ اس لیے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں کہ جو کچھ قسمت میں ہے ہو کر رہے گا- مگر سوچنے کا یہ انداز غلط ہے کیونکہ انسان دل سے جو کوشش کرتا ہے وہی کوشش جب اللہ قبول کر لیتا ہے تو وہی انسانی تدبیر، تقدیر بن جاتی ہے- اگر قسمت اور تقدیر کا یہی مفہوم ہو تو تمام دنیا تن آسان ہو جائے اور محنت و کوشش کے تمام سلسلے ختم ہو جائیں- شاعرِ مشرق علامہ اقبال نے کہا تھا:
‘عبث ہے شکوہ تقدیرِ یزداں
تو خود تقدیرِ یزداں کیوں نہیں ہے‘

ماہرینِ نفسیات کا کہنا بجا ہے کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے سوائے اس کے جس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے- زندگی کو اگر کوشش، جدوجہد، اور سعی سے محروم کر دیا جائے تو اس زندگی سے حرارت ختم ہو جاتی ہے اور وہ پتھر کا ایک بے جان اور سرد ٹکڑا بن کر رہ جاتی ہے- جبکہ دوسری طرف، کوشش انسانی زندگی کو کھولتی ہے اور اس میں غوروفکر کی آنچ پیدا کرتی ہے-

کوشش انسانی زندگی کی ایک ایسی بنیادی حقیقت ہے کہ جس سے انسانی زندگی استحکام حاصل کرتی ہے- تاریخ کو ہی دیکھ لیں کہ اس کے اوراق میں ہمیشہ وہی قومیں ابھری، پنپی اور نکھری ہیں جنہوں نے کوشش کی ہے- خدا بھی ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں- جو لوگ ہاتھ پر ہاتھ دھرے، کسی معجزے کے انتظار میں کھڑے رہتے ہیں اور تقدیر کا سہارا لیتے ہیں، وہ لوگ تدبیر کا دامن خود چھوڑ دیتے ہیں اور خود تقدیر ان سے روٹھ جاتی ہے-

چونکہ انفرادیت کی ہم آہنگی، اجتماعیت کی ترجمان بن جاتی ہے لہٰذا اگر ہمارے معاشرے کا ہر فرد اپنے دل میں کام کرنے کا، کوشش کرنے کا، آگے بڑھنے کا عہد کر لے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ تمام عوام کے دل میں کوشش اور محنت کا جذبہ ساری و جاری نظر آئے گا- جس طرح باغ کی خوبصورتی کے لیے صرف ایک پھول کا ہونا ضروری نہیں بلکہ باغ کی ہر چیز یہاں تک کہ کانٹے اور جنگلی بوٹیاں بھی باغ کے اجتماعی حُسن کے ضامن ہیں، باغ کی ہر چیز اپنا انفرادی کردار پیدا کر کے ایک ایسے اجتماعی حُسن کو جنم دیتی ہے کہ وہ نگاہوں کی جنت بن جاتا ہے- بالکل اسی طرح اگر ہر انسان اپنے دل میں کوشش کا جذبہ بیدار کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کی کوشش سے بنجر گلزار اور ویرانے آباد نہ ہو جائیں- اگر ہمارے ذہن و دماغ کوشش و سعی کی طرف راغب ہو جائیں تو ہمارے معاشرے سے غیر ذمہ داری بھی ختم ہو سکتی ہے جو کہ رواں دنوں میں ‘تھوک‘ کے حساب سے دیکھنے کو ملتی ہے- ذرا بغور دیکھا جائے تو معاشرے میں موجود برائیاں مثلاً بے حسی، غلط اندازِ فکر، ذاتی خودغرضی، سہل انگاری، بزدلی، تن آسانی اور مایوسی جیسی برائیوں کو کوشش و سعی و جدوجہد کے جذبہ کو بروئے عمل لا کر ختم کیا جاسکتا ہے-

اگر ہمارے گردوپیش سے بےحسی ختم ہو جائے، اگر بے عملی اور کاہلی دور ہو جائے، اگر زندگی جدوجہد کی آنچ سے گرم ہو کر ابھرنے، نکھرنے، سنورنے پر آمادہ ہو جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ معاشرہ میں زندگی، صحت اور جان کے آثار نمایاں نہ ہوں- بہت سی وقتی اور ہنگامی مشکلات و آفتیں بھی اسی سعی و کوشش و جدوجہد کے موثر و بروقت استعمال سے ختم ہو سکتی ہیں- تاریخ، وقت اور زمانہ بھی اسی کی قدر کرتا ہے جو اپنی تقدیر خود بنانا جانتا ہو اور جس کی کوششوں میں خلوص ہو- سوتے شیر کے منہ میں ہرن آپ ہی آپ نہیں گر جاتے، اور سب سے بڑھ کر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ دیوتا بھی تب منت پوری کرتے ہیں جب ان پر کوئی چڑھاوا چڑھایا جائے-

‘جب ڈوبنا ہی ٹھہرا، تو پھر ساحلوں پہ کیوں
اس کے لیے تو بیچ بھنور جانا چاہیے‘
Najeeb Ur Rehman
About the Author: Najeeb Ur Rehman Read More Articles by Najeeb Ur Rehman: 28 Articles with 68431 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.