ایک ولی اللہ کو ان
کا مرید ملنے آیا- اُس نے دیکھا کہ بیوی حضرت کو صلٰواتیں سُنا رہی ہے-
مُرید نے حیران ہو کر اپنے مُرشد سے پوچھا کہ ایسی بیوی کو آپ نے کیوں
برداشت کر رکھا ہے، اس سے چھٹکارا حاصل کیوں نہیں کیا؟ مردِ خدا نے کہا ‘
بھائی تم اس راز کو نہیں جانتے، اس تلخ بیان پر صبر کرنے کی مشق ہی نے تو
ہمیں وَلی بنایا ہے‘-
ایک دوسرے کو برداشت کرنا کسی ایک خاص تہذیب کا حصہ نہیں ہوتا بلکہ یہ بذاتِ
خود ایک مکمل تہذیب ہوتا ہے- برداشت کا فقدان پوری دنیا میں نہ صرف صدیوں
سے رہا ہے بلکہ اب بھی ہے اور کچھ زیادہ ہی ہے- نیز برداشت کا فقدان صرف
تیسری دنیا کے ممالک اور اسلامی ممالک ہی میں نہیں ہے بلکہ یہ مغربی دنیا
میں بھی بدرجہ اتم موجود ہے- سابق امریکی صدر بش اور موجودہ صدر اوبامہ کے
بیانات بھی برداشت کے فقدان کو ظاہر کرتے ہیں جو انہوں نے افغانیوں،
عراقیوں، ایرانیوں، پاکستانیوں اور شمالی کوریا کے خلاف دیئے اور وقتاً
فوقتاً دیتے رہتے ہیں-
ہمارے اپنے ملک میں فرقہ واریت کے حوالے سے مذہبی تنظیموں کے راہنما کچھ
ایسی ہی بیان بازی کرتے رہتے ہیں جس سے ان میں برداشت کی عدم موجودگی واضح
طور پر نظر آتی ہے- بالکل اسی طرح قومیتی تعصب، صوبائی تعصب اور لسانی تعصب
کے حوالے سے بھی برداشت کا فقدان بکثرت پایا جاتا ہے اور جسکی دو مثالیں تو
عمران خان اور چیف جسٹس افتخار چوہدری کے سندھ میں داخلے پر پابندی ہیں
جبکہ تازہ ترین مثال پچیس مئی دو ہزار نو کو جسقم آریسر نے ‘طالبانزیشن‘
اور متاثرین شورش زدہ علاقوں کی ‘آبادکاری‘ بابت ہڑتال کرنے کا اعلان کیا
ہے اور جس کا ایم کیو ایم نے بھی ساتھ دینے کا وعدہ کیا ہے حالانکہ اس دن
کا ‘کراچی‘ کئی دنوں سے خصوصی انتظار فرما رہا تھا اور اس ہڑتال کی راہ
ہموار کرنے کے لیے پچھلے دو ماہ سے ‘کمک‘ کا سامان پیدا کیا جاتا رہا تھا-
دوسری طرف قائم علی شاہ نے اس ہڑتال کو بلاجواز کہا ہے کہ اس ہڑتال کا کوئی
تُک نہیں بنتا کہ نقصان حکومت کا ہوتا ہے اور عوام کی جان و مال کو خطرہ
درپیش ہو جاتا ہے اور تین چار بیگناہ کسی کی ‘حیوانی فطرت‘ کی بھینٹ چڑھ
جاتے ہیں- جی ہاں یہاں بات آ گئی اپنے ہی ہموطنوں، گھر سے بے گھر ہوئے
لوگوں کو برداشت نہ کرنے کی اور ان پر ‘طالبانائزیشن‘ لیبل لگا کر متاثرین
کے لیے مزید مسائل کھڑے کیے جا رہے ہیں- بحثیت مجموعی دیکھا جائے تو کراچی
کے خراب حالات اسی برداشت نہ کرنے کی غمازی کرتے ہیں-
انسان، انسان کو اس لیے برداشت نہیں کر رہا کہ شاید دوسرے کی زبان، رنگ،
ثقافت، علاقہ اور سیاسی فلسفہ مختلف ہے- حالانکہ دیکھا جائے تو اکثر و
بیشتر ایسے بھی ہوتا ہے کہ انسان پنڈ سے شہر کا رخ کرتا ہے یا ایک سیاسی حد
چھوڑ کر دوسری سیاسی حدود میں داخل ہوتا ہے تو اس سب کے پیچھے جان و مال و
معاشی مسئلہ ہی سب سے زیادہ بنیادی محرک ہوتا ہے جیسا کہ رواں دنوں میں
سرحد آپریشن کی وجہ سے وہاں کے عوام کو درپیش ہے جو گھر سے بے گھر ہوگئے
اور دیگر شہروں میں اپنی قسمت آزمانے نکل کھڑے ہوئے ہیں- لیکن افسوس کہ
‘کراچی‘ نے ان متاثرین سے ایسا رویہ اپنانا شروع کر رکھا ہے کہ جیسے یہ
کنگال لوگ ‘متاثرین‘ کا روپ دھار کر کراچی کو ‘فتح‘ کرنے آئے ہوں-
پچاس سال پہلے ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصلہ و صبر کہیں زیادہ نظر آتا
ہے- جبکہ آج برداشت کی قوت بتدریج ناپید ہوتی جا رہی ہے- آج تو صورتحال یہ
ہے کہ سڑک پر گاڑی میں سوار شخص موٹر سائیکل والے کو برادشت نہیں کرتا،
موٹر سائیکل والا گدھا گاڑی کو گھورتا ہے اور ان سب کا بس چلے تو یہ پیدل
چلنے والوں کو سڑک سے ہی غائب کر ڈالیں- لطیفہ یہ کہ ان سب کو اس بات کا
بھی علم ہے کہ روز ان سب نے ایک ساتھ ہی سڑک پر موجود ہونا ہے لیکن یہ ایک
دوسرے کو برادشت کرنے کی بجائے سب اپنے چہرے پر ‘پاسے ہو‘ سجائے روز سڑک پر
ایک دوسرے کے مدمقابل موجود ہوتے ہیں- یہ ٹھیک کہ معاشرہ میں کچھ افراد
برادشت کرنے کا ناجائز فائدہ بھی اٹھاتے ہیں اور دوسروں کے لیے باعث آزار
بھی بنتے ہیں لیکن یہاں بات عمومی رویے کی جا رہی ہے اور وہ یہی ہے کہ
انسان کا بڑھتا ہوا شعور اسے برداشت سکھانے کی بجائے برداشت کو کم کرتا چلا
جا رہا ہے جو کہ خطرے کی گھنٹی کہلایا جا سکتا ہے-
سوال یہ ہے کہ آخر برداشت کے فقدان کا حل کیا ہے؟ ہم کیسے برداشت کا مادہ
پروان چڑھا سکتے ہیں؟ دیکھا جائے تو برادشت کا مادہ جس معاشرے میں ہو، وہاں
پر امن و امان ازخود پیدا ہو جاتا ہے، اور یہی برداشت کا مادہ ‘راضی برضا‘
کو بھی پیدا کرتا ہے جسکے نتیجہ میں حسد، غصہ، ٹینشن، بلڈ پریشر، ہارٹ
اٹیک، جلنا کڑنا وغیرہ جیسے نفسی و جسمانی و روحانی بیماریاں ختم کرنے میں
بھی بہت مدد ملے گی-
اگر معاشروں میں جمہوری رویوں کو تقویت دی جائے، ان کے پنپنے کا سامان تیار
کیا جائے تو برداشت بھی بڑھ سکتی ہے- علاوہ ازیں، عالمی سطح پر بھی جمہوری
رویوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے- ترقی یافتہ اور طاقتور قوموں کو اپنے
ملکوں سے باہر بھی جمہوری رویے اپنانا ہوں گے اور دنیا کی چوکیداری کا
ٹھیکہ اٹھائے رکھنے کی بجائے دوسری قوموں بالخصوص تیسری دنیا کے ساتھ
رواداری اور مساوی رویہ اپنانا ہوگا، ‘گلوبل ویلیج‘ کی تعریف صرف اپنے حق
میں کرنے کی بجائے ترقی پذیر اور پسے ہوئے ممالک کو لوگوں پر بھی گلوبل
ویلیج کے راستے کھولنا ہوں گے-
‘ہر ایک بات کو سُننے کی تاب ہے مجھ میں
تُو یہ نہ سوچ کہ دل کو ملال آتا ہے‘ |