انسان کا بنیادی نصب العین
اسلامی تہذیب وتمدن کی اپنی منفرد دحیثیت ہے جس کو دنیا کی کوئی بھی طاقت
جھٹلا نہیں سکتی بلکہ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ غیر مسلم اسلامی تعلیما ت پر
عمل کرنے کو بہت زیادہ ترجیح دے رہے ہیں۔اسلامی تہذیب تمدن عقائد ،اصول
ونظریات اورروایات ہی مسلم غیر مسلم معاشرے کے فرق کوواضح کرتیں ہیں ۔اسلام
کاایک منفرد اور جداگانہ ضابطہ حیات ہے چنانچہ اسلامی تہذیب اسی ضابطہ حیات
کی عکاسی کرتی ہے۔اسلامی تہذیب کا سنگ بنیاد حیات دنیا کا یہ تصور ہے کہ
انسان کی حیثیت اس کرۂ خاکی میں عام موجودات کی سی نہیں ہے بلکہ وہ خالق
کائنات کی طرف سے یہاں خلیفہ بنا کر بھیجا گیا ہے۔اس لیے انسان کااصل نصب
العین یہ ہے کہ وہ اپنے خالق ومالک اور آقا (اﷲ تعالیٰ)کی خوشنودی حاصل کرے
۔اسلام انسانوں کے درمیان اونچ نیچ کے امتیازکی نفی کرتے ہوئے ایک انسان کو
دوسرے انسان کے ساتھ اس طرح بلاامتیاز جوڑتا ہے کہ سب مسلمان آپس میں بھائی
بھائی ہیں۔اسلامی تمدن کی ایک بڑی خصوصیت اسلامی اخوت یعنی بھائی چارے کا
نظریہ ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔قرآن
کریم میں اﷲ تعالیٰ نے رشاد فرمایاہے ۔’’بلا شبہ اہل ایمان بھائی بھائی ہیں
۔سوتم اپنے بھائیوں کے درمیان صلح صفائی کرادیا کرو‘‘اسلام سے پہلے انسان
جو اشرف المخلوقات ٹھہراجانوروں کی طرح جنس پرستی اور علاقہ پرستی کی زندگی
بسر کررہا تھا ۔ٹھیک اُسی طرح جس طرح جانور اپنے علاقے میں داخل ہونے والے
اجنبی جانوروں سے جنگ کرتے ہیں اور جس طرح طاقتور جانور قبیلے کا سردار
ہوتا ہے جواپنے قبیلے میں صرف ماداؤں کورکھتا ہے کمزور نر یاتو بھاگ جاتے
ہیں یاپھر مارے جاتے ہیں یہاں تک کہ اکثر جانور اپنے نر بچوں کو بھی
ماردیتے ہیں ۔اسلام نے طاقتور کے ساتھ ساتھ کمزوروں کو بھی جینے کاحق دیا ،مرد
وعورت کو نکاح کے بندھن میں باند کر عورت کومعاشرے میں باعزت مقام دیا ۔جب
لوگوں (مسلمانوں)نے اسلامی تہذیب وتمدن ، اخلاقیات، کے مطابق زندگی بسر
کرناشروع کی توچاروں طرف مسلمانوں کے عدل وانصاف کاچرچاہوگیا،امن و بھائی
چارے کے اعتماد کے ساتھ اسلام کا نوردیناکے کونے کونے میں پھیل گیا جوآج
بھی ہے اور روزآخر تک رہے گا، کامیابیاں اُن کے قدم چومنے لگی ۔بدقسمتی سے
مسلم حاکموں نے اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا چھوڑ دیا اور جانور کی طرح جنس
پرستی اور علاقہ پرستی کے اصول اپنالئے ،کبھی مسلم حاکم فجرکی نماز کے بعد
کسی بیوہ غریب کے گھر کی صفائی کیاکرتے اُس کے بچوں کو کھانا پکاکرکھلایا
کرتے تھے ،یہاں تک کہ اگر کسی بوڑھے کے منہ میں دانت نہ ہوتے تواپنے منہ
میں نوالا چباکر کھلایا کرتے تھے ،حاکم ہونے کے باوجودنہایت غربت میں زندگی
بسرکرنے میں فخر محسوس کرتے اوراُن کے عدل وانصاف کا یہ عالم تھا کہ خود
مظلوم کے گھر جاتے اور اُس کی داد رسی کرتے ۔اگر کہا جائے کہ ایک مسلم حاکم
اپنی بادشاہت میں سب سے زیادہ عام آدمی کی حیثیت رکھتا تھا تو غلط نہ
ہوگا۔آج ہمارے حاکم بات بات پر عام آدمی کی مشکلات کا ذکر کر کے سیاست
چمکانے کی کوشش کرتے ہیں جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب رہتے ہیں ۔خوبصورت
باتوں کے دھاگے سے عوام کے گرد سیاسی جال بننا اور بات ہے اور عملی اقدامات
اور بات ہے ۔اقوام کی ترقی کاراز اسلامی تہذیب و تمدن کے دائرے میں رہتے
ہوے اعلیٰ سے اعلیٰ دینی و دنیاوی تعلیم کے حصول میں پوشیدہ ہے ،علم انسان
کو باشعور کرتا ہے اور باشعور انسان علم کو عمل کے راستہ پر ڈال کر دنیا
وآخرت کی کامیابیاں سمیٹتا ہے ۔۔۔ایماندار بنانے کے لئے عوام کی دینی و
اخلاقی تربیت کرنابہت لازمی ہے۔ دنیا کی کوئی بھی قوم اس وقت تک ترقی نہیں
کرسکتی جب تک قوم کاہر فرداپنے فرائض پوری ایمانداری سے سرانجام نہ دے ،جوقومیں
ایمانداری کے راستے سے بھٹک جاتی ہیں ۔کرپشن، بدامنی،دہشتگری،لوٹ مار،قتل
وغارت ،غربت،بھوک ،ناانصافی ،بداخلاقی ،بے حسی،خودغرضی، ریا کاری ،نام و
نمود، لالچ ،ہوس،دھوکہ دہی، مختصر کہ دنیا کی تمام برائیاں اور ناکامیاں ان
قوموں کا مقدر بن جاتی ہیں ۔بڑے ہی دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا حال بھی
کچھ اسی طرح کا ہے ۔ایسا نہیں ہے کہ ہم اس بات سے بے خبر ہیں کہ ہماری
تباہی کی وجہ ،اسلامی تہذیب سے دوری،جہالت اور بے ایمانی ہے لیکن بدقسمتی
یہ ہے کہ کوئی جہالت اور بے ایمانی کی اس دلدل سے نکلنے کی کوشش نہیں کررہا
۔اگر ہم سب ایمانداری سے اپنے اپنے فرائض سرانجام دیں تو ہر کوئی ترقی
کرسکتا ہے ۔بلکہ یہ ہم سب کا فرض ہے کہ اپناکام ایمانداری سے کریں ِاس طرح
ہم نہ صرف دوسروں کو ایمانداری کی دعوت دے سکتے بلکہ دوسروں کے لیے
ایمانداری کی زندہ مثال قائم کرسکتے ہیں۔ جب تک نصیحت کرنے والا خود باعمل
نہ ہو تب تک کوئی دوسرا اس کی نصیحت سے کچھ بھی اثر نہیں لے گا ۔ ایمانداری
کا لفظ بولنے ،سننے اورلکھنے ،پڑھنے میں جس قدر آسان لگتا ہے اس پر عمل
درآمد اُس قدر ہی مشکل ہے۔(مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں) ۔اگر ہمارا نظام
تعلیم درست اور فعال (یعنی غریب اور امیر کے بچے کے لئے ایک
جیسا(یکساں)نظام تعلیم )رائج ہوجائے تو عوام کی دینی ، دنیاوی تعلیم تربیت
کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے ۔ا سکولوں ،کالجوں
اور یونیورسٹیوں میں ایسے اساتذہ کا بھی انتظام کریں جو طالب علموں کو لکیر
کا فقیر بنانے کی بجائے دینی، تخلیقی ،تعمیری اور شعوری علم سکھانے کی
قابلیت رکھتے ہوں ۔آج ہر شخص کا دعوہ ہے کہ وہ اہل علم وعمل،اہل عقل ،باشعور
اور ایماندار ہے لیکن معاشرے میں چلنے والا نظام جس میں جنس پرستی اور
علاقہ پرست عام ہے ہمارے سب دعوؤں کی نفی کرتا ہے ۔ہمارے قول و فعل کاتضاد
ہی ہمارے تباہی کا سبب ہے کیونکہ جب تک انسان اپنی خامی یا کمزور ی تسلیم
نہیں کرتا تب تک اصلاح کاپہلوپس پشت رکھتا ہے ۔اسلامی تہذیب میں جھوٹ اوربے
ایمانی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔اسلامی تہذیب کو سمجھنے اور اُس پر عمل کرنے
کے لئے اسلامی تعلیمات سے واقفیت لازم ہے ۔ اسلامی تعلیمات کوہر مضمون سے
زیادہ اہمیت دیں ۔ہمارے ہر مسلم قائد ین ،سماجی اراکینکو بھی چاہیے کہ
اسلامی تہذیب تمدن عقائد ،اصول ونظریات اورروایات اپنا کر سادہ زندگی بسر
کریں اور قوم کو بھی اس بات کادرس دیں ۔۔۔۔۔۔۔ |