دو دہائی پہلے کی بات ہے کہ
بھارت اور چین کے سرحدی علاقے میں دو کتے آپس میں ملے وہ دونوں سرحدی علاقے
کو پار کر کے دوسرے ممالک میں جا رہے تھے ایک کتا جو کہ بھارتی تھا وہ چین
جا رہا تھا اور چینی کتا پاکستان چینی کتے نے بھارتی کتے سے پوچھا کہ تم
چین کیوں جا رہے ہو وہ بولا یہاں (بھارت) میں بھوک سے برا حال ہے کھانے کے
لیئے در بدر پھرنا پڑتا ہے ہر ایک کی باتیں سننی پڑتی ہیں تو اس لیئے میں
نے فیصلہ کیا ہے میں چین میں جاؤں اور چین کی زندگی گزاروں ۔یہی سوال اس نے
دوسرے کتے یعنی چینی کتے سے پوچھا جو کہ صحیح پلا ہوا تھا کہ تم کیوں اپنا
ملک چھوڑ کر جا رہے ہو حالانکہ تمہاری حالت دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ
تمہیں اپنے ملک میں کوئی مسئلہ نہیں ہے تو اس کتے نے جواب دیا یہ سچ ہے کہ
مجھے اپنے ملک میں کھانے پینے کا کوئی مسئلہ نہیں اور نہ ہی مجھے یہاں پر
کسی قسم کے تشدد کا سامنا ہے مگر میں جس وجہ سے ملک چھوڑ رہا ہوں وہ یہ کہ
مجھے بولنے ( بھونکنے ) کی آزادی نہیں میں نے سنا ہے کہ پاکستان میں بولنے
کی آزادی ہے اس لیئے میں پاکستان جا رہا ہوں ۔
آج یہ کہانی مجھے اس لیئے یاد آئی کہ اسلام آباد میں جب میں پبلک ٹرانسپورٹ
سے نیچے اترا تو آگے فوجی جوانوں سے پالا پڑ گیا جب آگے پیچھے دیکھا تو
میری طرح کے بیسیوں لوگ کھڑے تھے جنکو فوجی جوان سڑک سے نیچے اترنے اور
جھاڑیوں میں جا کر نیچے بیٹھنے کا حکم دے رہے تھے اور انکا رویہ ایسا تھا
جیسے ہمیں یہ کام کرنے کے پیسے دے رہے ہوں اور خلاف ورزی کرنے والے کا کیا
حال ہونا ہے وہ میں اور تقریباً ان میں موجود ہر شخص جانتا تھا مجبوراً حکم
ماننا پڑا اور جھاڑیوں میں بیٹھ گئے بعد میں پتا چلا کہ ہمارے سرحدوں کے
محافظوں کے سپہ سالا ر کا وہاں سے گزر ہونا تھا ۔میں نے وہاں موجود لوگوں
کے چہروں پر کچھ سوالات دیکھے اور کچھ نے ان سوالات کو زبان پر لانے سے بھی
گریز نہیں کیا وہ سوالات کیا ہیں ۔کیا واقعی میں ہم لوگ آزاد ہیں ؟ واقعی
میں ہم نے اسی طرح کی غلامی کے لیئے یہ ملک حاصل کیا تھا ؟کیا ہم اسی لیئے
پاک فوج کی ضروریات پوری کرنے کے لیئے اپنی ہر اک خواہش اور ضرورت کی
قربانی دیتے ہیں ؟ہمارے بنیادی انسانی حقوق کہاں ہیں ؟ہمارے ملک میں کیا
مارشل لاءچل رہا ہے کہ کسی کے کوئی بنیادی انسانی حقوق نہیں ہیں ؟
میں یہاں ایک بات بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں خود ایک ریٹائرڈ فوجی کا
بیٹا ہوں اور فوج کے لیئے میرے دل میں جو جذبات ہیں وہ میرے جاننے والے کسی
بھی شخص سے پوشیدہ نہیں ہیں میں بریگیڈئر TM شہید کی بات کروں تو میرا سر
فخر سے بلند ہو جاتا ہے میں کیپٹن سرور کی بات کروں جو پنجاب رجمنٹ کی
2پنجاب کا قابل فخر سرمایہ ہیں میں کیپٹن کرنل شیر خان کی بات کروں تو میں
اپنے آپ کو پاکستانی کہلوانے پر فخر محسوس کرتا ہوں جس کے بارے میں بھارتی
جرنیلوں نے کہا تھا ہم نے اپنی پوری زندگی میں اتنا دلیر مائی کا لا ل نہیں
دیکھا میں لانس نائیک محفوظ شہید کی بات کروں تو بات کرتے ہوئے میرا سینہ
دو انچ چوڑا ہو جاتا ہے ۔ میں کس کس کی بات کروں حولدار لالک جان کی یا
میجر عزیز بھٹی شہید کی میری قلم کی سیاہی ختم ہو جائے گی مگر فوج کی
قربانیوں کی داستان ختم نہیں ہوگی مگر اب جن حالات میں میری فوج کو گزرنا
پڑ رہا ہے اس پر میں نہایت ہی رنجیدہ ہوں اور اسی رنجیدگی کے عالم میں اپنی
اعلی قیادت تک اپنے کچھ تجربات کو پہنچانا چاہتا ہوں ابھی بھی وقت ہے وگرنہ
پھر وقت ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا کیونکہ افواج ہمیشہ اپنی قوموں کی وجہ
سے لڑتی ہیں اور جتنی زیادہ آزاد اور خود مختار قوم ہوگی اتنی ہی زیادہ
مضبوط اور غیرت مند فوج ۔میں نے آج کے نوجوان میں جتنی زیادہ اس ملک کے
لیئے تڑپ دیکھی ہے اتنی شاید اس سے پہلے کبھی نہ ہوگی فوج کے سیاسی کردار
اور کاروباری کردار کی وجہ سے آج کا نوجوان پاکستان کی بربادی میں فوج کو
اتنا ہی قصور وار سمجھتا ہے جتنا کہ وہ مافیا جو اس ملک میں اقتدار کے لیئے
اپنی بیٹیوں تک کو دوسرے ممالک تک کو بیچ دیتے ہیں ۔
ہمارے نوجوان میں جو کچھ کر گزرنے کا جذبہ موجود ہے اسے کام میں لایا جانا
چاہیئے اور فوج کو خصوصا اپنے طرز عمل سے ثابت کرنا پڑےگا اب وہ وقت کے
ساتھ بدل چکے ہیں۔ ہم ایک بہت بڑی ذہنی غلامی سے نکلنے والے ہیں ہمارے آباؤ
اجداد جسمانی طور پر تو غلامی سے باہر نکل آئے مگر ذہنی طور پر وہ غلام ہی
رہے ان میں سے کچھ نے کوشش بھی کی مگر عام آدمی میں شعور کی کمی کی وجہ سے
وہ کامیا ب نہ ہو سکے -
آج ہمارے ملک میں شعور ی سطح ہماری تاریخ کے بہترین دور سے گزر رہی ہے اور
لوگو ں کی اپنے ملک اور اعلی طاقتوں سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں اب لوگ
اپنے حقوق و فرائض سے آشنا ہو رہے ہیں آجکا نوجوان بنیادی انسانی حقوق کا
تحفظ مانگتا ہے کیونکہ وہ جب دیکھتا ہے کہ امریکی قوم اپنے ایک قاتل ریمنڈ
ڈیوس کو کس طرح مکھن کے بال کی طرح نکال کر لے جاتی ہے تو اس میں ریاست سے
محبت کا جذبہ اور بڑھتا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ وہ ریاست سے اسی طرح کے تحفظ
کی ضمانت بھی مانگتا ہے اب یہ ذمہ داری ریاست کی ہے کہ وہ اسے پر امن رہنے
دیتی ہے یا اسے تشدد کی طرف لے کر جاتی ہے میرے خیال میں تشدد کی پالیسی نے
جتنا اس ملک کو نقصان پہنچایا ہے اور کسی چیز نے نہیں پہنچایا ۔
اب ہماری ارباب اختیار کو فیصلہ کرنا ہے کہ انھیں آزاد لوگوں پر حکمرانی
کرنا ہے کہ ذہنی غلاموں پر اور خصوصی طور پر ہماری فوج کے اعلی افسران کو
بھی یہ سوچنا ہوگا کہ انھیں ایک ایسی فوج چاہیئے جو ذہنی غلام نہ ہو یا وہ
ایک ایسی فوج کو سرابراہ بننے کو ترجیح دیں گے جو انگریز کی غلام تھی اور
اب انکی ۔اگر ہم نے آگے بڑھنا ہے تو عوام اور حکمرانوں کے درمیان اعتماد کو
فروغ دینا ہوگا اور خاص طور پر نوجوانوں اورفوج کے درمیان اور اس وی آئی پی
کلچر کو ختم کرنا ہوگا اور میری ناقص رائے میں یہ ہماری کامیابی کی طرف
پہلا قدم ہوگا اللہ تعالی ہمیں سیدھے راستے کی نشاندہی کرے اور اس پر
استقامت کی توفیق دے ( آمین ) |