حضرۃ الشیخ بنوری اور عربی زبان وادب

حصہ اول
فضیلۃ الشیخ ولی خان المظفر
’’محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری رحمہ اﷲ کی ذاتِ گرامی ہمہ جہتی، عبقریت اور کمال کی جامع شخصیت تھی، لیکن عربی زبان سے انہیں جو لگاؤ، محبت اورشغف تھا، وہ ان کی تحریر وتقریر اور گفتگو کا نمایاں حصہ تھا، ماہنامہ ’’بینات کراچی‘‘ میں بصائر وعبر کے عنوان سے جو شاہکار ادارئیے انہوں نے تحریر فرمائے ہیں، وہ کتابی شکل میں دوضخیم جلدوں میں دستیاب ہیں، جن کا مطالعہ بطورِ خاص اہلِ قلم علماء کے لئے ازحد ضروری ہے۔ الحمدﷲ میں نے بار بار ان اداریوں کو پڑھا ہے، اور جہاں جہاں حضرت نے عربی زبان وادب کو موضوع سخن بنایا، ان مقامات کو اقتباسات کے طور پر جمع کرکے قارئین کے لئے پیش کرنے کی کوشش کی ہے‘‘۔

علامہ طنطاوی کی تفسیرِ جواہر القرآن پر تبصرہ:
تقریباً انتیس سال پہلے ۱۳۵۷ھ ۱۹۳۷؁ء کے اوائل میں مصرجانے کا اتفاق ہوا تھا اور قاہرہ کے ایک دینی ہفتہ وار مجلۃ ’’الإسلام‘‘ کے دفتر میں اپنے رفیق مولانا سید احمد رضا صاحب بجنوری کی معیت میں بسلسلہ اشاعتِ مضامین جانا ہوا تھا، وہیں مجلہ الإسلام کے دفتر میں مصر کے ایک مشہور عالم اور مفسرِ قرآن شیخ جوہری طنطاوی مرحوم سے تعارف اور ملاقات کا موقع ملا، وہ بھی اس مجلہ میں کوئی مضمون شائع کرانے کی غرض سے تشریف لائے تھے، تعارف کے بعد علامہ موصوف نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ کیا میں نے ان کی تفسیر کا مطالعہ کیا ہے؟ میں نے جواباً عرض کیا کہ جی ہاں اس قدر مطالعہ کیا ہے جس سے اس کے متعلق رائے قائم کر سکا ہوں کہ وہ کیسی تفسیر ہے، علامہ نے فرمایا کہ میں وہ رائے سننا چاہتا ہوں، میں نے عرض کیا کہ علامہ کشمیری کے مشکلات القرآن کے مقدمہ میں آپ کے تفسیر کے متعلق مختصر طور پر اپنی رائے دے چکا ہوں ، وہ مختصر سی رائے تھی، اگر آپ اجازت دیں تو اب ذرا تفصیل سے عرض کر وں، فرمایا بہت خوشی سے ، اس کے بعد میں نے عرض کیا:
آپ نے علماء امت پر یہ تو بڑا احسان کیا کہ علوم جدیدہ خصوصاً طبیعیات وفلکیات وہیئت وغیرہ کو جو یورپ کی زبانوں میں تھے اور علماء ان سے استفادہ نہیں کر سکتے تھے فصیح وبلیغ عربی میں منتقل کر دیااور اس سے ہمارے لئے استفادہ کی راہیں کھل گئیں، اس احسان کے ہم سب ممنون ہیں لیکن قرآنی دعوت کو آپ نے جس انداز سے بیان کیا ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ مسلمانو ں نے ان قرآنی حقائق کو سمجھنے میں انتہائی تقصیر کی ہے اور یورپ کی قوموں نے ان کو خوب سمجھا ہے اور انہیں نے صحیح طور پر ان پر عمل کیا اور پورا فائدہ اٹھایا ہے، یورپین اقوام کی ترقی وتقدم اور مسلمانوں کی پستی وتأخر کا سب سے بڑا سبب یہی ہے ، اگر آپ کے اس بیان کو بلاتا ویل صحیح مان لیا جائے تو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس معاملہ میں سب سے زیادہ عملی تقصیر خود اس مقدس شخصیت سے ہوئی (معاذ اﷲ ) جس پر قرآن کریم نازل ہوا تھا جو سب سے زیادہ قرآنی حقائق کا عالم تھی اور اس کے بعد خلفائے راشدین اور صحابہ کرام نے بھی یہی تقصیر کی (معاذاﷲ )اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ صحابہ کرام سے زیادہ قرآنِ کریم پر صحیح عمل کرنے والی قوم روئے زمین پر پیدا نہیں ہوئی، لیکن آپ کے بیان کے مطابق حضراتِ صحابہ کی یہی قوم سب سے زیادہ مقصر (کوتاہی کرنے والی) ہوگی۔

آپ فرماتے ہیں کہ جو قوم ان حقائق کونیہ کو زیادہ جانے گی اﷲ تعالیٰ کی معرفت کے میدان میں وہی قوم گویا سبقت لے جائے گی گویا یورپ کا ایک سائنسدان آپ کے فرمانے کے مطاق صحابہ کرام اور عارفین امت سے زیادہ اعرف باﷲ ہوگا اور ایک یورپین کا فر وفاسق سائنس دان آپ کے نزدیک سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی سے زیادہ ہوگا۔

پھر آپ قرآنی آیات سے بسا اوقات ایسے طرز پر استدلال کرتے ہیں کہ قرآنِ حکیم کی شانِ رفیع اس واہی اور کمزور استدلال سے بہت اعلیٰ وارفع ہوتی ہے، مثال کے طور پر میں نے سورۂ آل عمران کی تفسیر میں ایک موقعہ پر علامہ موصوف کے ایک استدلال کا حوالہ دیا جس میں موصوف نے فوٹو کے جواز پر استدلال کیا تھا میں نے اس کی کمزوری اور اس کے رکیک انداز کو اچھی طرح واضح کیا۔‘‘

علامہ طنطاوی مرحوم بڑے غور سے میری سنتے رہے اور اس کے بعد ان کا جواب دینا شروع کیااور میں موصوف کی ان جوابی وضاحتوں کا رد واعتراض اور جواب درجواب دیتا رہا، عجیب بات یہ تھی کہ مرحوم کوئی مؤثر اور وزنی بات نہین فرما سکے اور اس سے زیادہ عجیب اتفاق یہ تھا کہ اس وقت اﷲ تعالیٰ نے میرا سینہ اس طرح کھولا اور زبان وبیان میں ایسی طاقت وروانی عطا فرمائی جو میں نے اس سے پہلے کبھی محسوس نہیں کی تھی اور اس کا میں نے یہ اثر دیکھا کہ گرمیٔ بحث کے دوران علامہ طنطاوی مرحوم نے بے ساختہ فرمایا: ماأنت عالم ھندی إنما أنت ملک نزل من السماء لإصلاحی!! تم محض ایک ہندی عالم نہیں بلکہ درحقیقت فرشتہ ہو جو آسمان سے میری اصلاح کیلئے اترا ہے۔

اور بحث کے درمیان کبھی کبھی کانوں پر ہاتھ رکھ کر بہت ہی تعجب کے لہجہ میں فرماتے: الآن أفھم منک معنی ھذالحدیث ! اس وقت میں تم سے اس حدیث کے معنی سمجھا ہوں۔

یہ اعتراض علامہ مرحوم کا حسنِ اخلاق تھا اور اس طرف یہ میرا کوئی کمال نہ تھا بلکہ اس جماعت کی برکت تھی جس کی طرف میرا انتساب تھا اور ان اکابر کی کرامت تھی جن کے جوتے میں نے اٹھائے تھے کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے رسوا نہیں فرمایا اور میرے جہل ونادانی سے میرے اکابر بدنام نہیں ہوئے۔ (بصائر وعبر ۳۸-۳۶/۱)

عربی زبان اور اس کی اہمیت کے متعلق رقمطراز ہیں:
’’عربی زبان کی دینی اہمیت تو ظاہر ہے کہ اسلام کا بنیادی پیغام ’’قرآن حکیم‘‘ تمام عالم کے لئے حق تعالیٰ کا آخری پیغام ہے، وہ عربی زبان میں ہے، دینِ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں توحید و نبوت کے بعد ’’نماز‘‘ جو عمادِ دین ہے اس کے تمام ارکان قراتِ قرآن اذکار و ادعیہ یعنی پوری نماز اول سے آخرتک عربی میں ہے۔ عیدین وجمعہ کے خطبے عربی زبان میں ہیں۔ حضرت رسالت پناہ ’’فداہ أبي وأمي صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم‘‘ کی تمام تعلیمات و ارشادات کا عظیم الشان ذخیرہ یعنی احادیث عربی میں ہیں، حضرت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات گرامی نسباً عربی قریشی ہاشمی ہے، بعض روایت میں عربی زبان سے محبت کرنے کے لئے یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ : ’’میں بھی عربی اللسان ہوں، قرآن بھی عربی میں ہے اور اہل جنت کی زبان بھی عربی ہے‘‘۔

حضرت خاتم الانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم نے امت کو جو افکار اور دعائیں تلقین فرمائی ہیں جو بجائے خود عجیب وغریب دعائیں ہیں جن میں دین ودنیا کی کوئی ضرورت ایسی نہیں ہے جس کے متعلق دعا ارشاد نہ فرمائی گئی ہو بلکہ دعاؤں کی جامعیت دیکھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے، کوئی بڑے سے بڑا عاقل انسان بھی اس جامعیت کا تصور تک نہیں کرسکتا، جس سے ان کا الہامی ہونا ظاہر ہے اور نبوت کے اعجاز کی مستقل دلیل ہے یہ سب کچھ عربی زبان میں ہے، بزرگانِ دین، صحابہ کرام وتابعینِ عظام سے لے کر جنید وشبلی تک پھر شیخ عبدالقادر جیلانی اور صاحبِ حزب البحر وصاحبِ دلائل الخیرات وغیرہ بقیہ بزرگانِ دین کی دعائیں اذکاراور درود شریف سب عربی زبان میں ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کے پیارے ننانوے مبارک نام بھی عربی میں ہیں، رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے مبارک نام بھی عربی میں ہیں، غرض کیا کیا چیزیں گنوائی جائیں، خلاصہ یہ کہ پورا دین اور دین کے ہر ایک جز کا عربی زبان سے تعلق ہے، اس لحاظ سے ایک مسلمان کا بحیثیتِ دین جتنا تعلق بھی عربی زبان سے ہو، بجا ہے۔ جاری ہے
zubair
About the Author: zubair Read More Articles by zubair: 40 Articles with 70499 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.