صلیبیوں کا مسلم نظام تعلیم پر حملہ اور نئی تعلیمی پالیسی (آخری حصہ)
(Prof Akbar Hashmi, Rawalpindi)
مسلمانوں کا نظام تعلیم بھی
مسلمان تھاکیونکہ انہیں جو پڑھایا جاتا تھا اس کا مخرج و مخزن قرآن و سنت
صاحب قرآن ہوتا تھا۔ شائد آج لوگ یہ سمجھیں کہ مسلمانوں کا نظام تعلیم مسجد
میں صرف قرآن پاک ناظرہ، حفظ یا فقہی مسائل کی تدریس تک محدود تھا ایسا
ہرگز نہیں ۔ واقعہ معراج شریف نے خلائی تحقیق کا دروازہ کھول دیا تھا۔
ماہرین فلکیات زمین پر بیٹھے سیاروں اور بروج کی منازل بتاتے تھے اور وہ
علم آج بھی موجود ہے، علم الطب و جراحت (میڈیکل سانئسز و سرجری) آج کی نسبت
کہیں زیادہ ترقی پر تھی کہ طبیب (ڈاکٹر)محض نبض یا پیشاب کی رنگت سے
بیماریوں کی نشاندہی کرتا تھاجو آج کل میڈیکل سانئنس میں کسی کو حاصل نہیں
۔ یہ کام اب صرف ٹیسٹنگ لیبارٹریز کا رہ گیا ہے۔ مریض کی رنگت اور آنکھوں
سے بیماریوں کی تشخیص ہوتی تھی اور ادویات جڑی بوٹیوں سے تیاری کیجاتی تھیں
جو آج بھی دواساز کمپنیاں استعمال کرتی ہیں فرق صرف اتنا ہے آج پیسہ کمانے
کی نیت سے کام کیا جاتا ہے مریض کی شفا یا خداترسی کا اس میں کوئی دخل نہیں۔
درس نظامی کے فارغ التحصیل علماء کرام اعلی پائے کے طبیب بھی ہوتے تھے۔
طبیب مریض کی شفایابی کے لیئے بے چین ہوتا تھا لیکن آج مریض جان بہ لب ہوتا
ہے جب تک ڈاکٹر کی منہ مانگی فیس ادا نہ کرے اسکی چارپائی ہسپتال کے باہر
ہی رہتی ہے چاہے اسکی روح پرواز کرجائے۔ ریاضی ، الجبرا اور
جیومیٹری،ٹریگنومیٹری اپنے مقاصد کے ساتھ متعلمین کو پڑھائے جاتے تھے۔
مسلمان نے ان علوم کی دیگر مذاہب کے لوگوں تک ترسیل و ترویج اور تدریس میں
ذرا برابر بخل سے کام نہیں لیا ۔یہی وجہ ہے کہ اہل یورپ اور اہل ہندیعنی
ہندواور سکھ بھی علوم کی دولت سے مستفیذ ہوئے۔ آگے چل کر مسلمانوں نے تحقیق
کی محنت و مشقت کی جگہ عیش و عشرت کی زندگی کو ترجیح دی تو اہل یورپ اور
دیگر اقوام نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے علوم اسلامیہ کے کام کو آگے
بڑھایاتو صنعتی ،الیکٹرانک اور ایٹمی شعبوں میں آگے بڑھے جسکے نتیجہ میں وہ
لوگ غالب اور ترقی یافتہ بن گئے اور اصل وارثان علم و تحقیق بہت پیچھے رہ
گئے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باق نہیں کہ خلافت ترکیہ نے اس بارے کوئی
اقدامات نہیں کیئے۔ مثل مشہور ہے کہ سطان ترکی کے کھنگورا مارنے پر یورپی
سورماﺅں کا پیشاب نکل جاتا تھا۔ لیکن سلطان نے مستقبل کے بارے نہ سوچا اسی
طرح مغلوں نے برصغیر کی وسیع سلطنت پاکر شمیر و سناں رکھ کر طاﺅ س و رباب
ہاتھ میں لے لیئے اور مستقبل کے بارے غافل ہوگئے۔ فرنگی بر صغیر میں تجارتی
روپ میں ڈاکو بن گیا مگرمسلمانوں کے پاس تو صرف تلوار،تیر اور نیزہ تھاجس
کا دور ختم ہوچکا تھا لیبیا میں اطالوی فوجیں گولہ بارود اور ٹینک استعمال
کررہی تھیں۔ اسی خواب غفلت نے مسلمانوں کو مظلوم و محکوم بنایا۔ پھر
استبدادی قوتوں کو معلوم تھا کہ مسلمان جدید ترقی سے لیس ہوکر ہمارا حساب
چکائے گا اسی لیئے انہوں نے اپنا کلچر اور ایک مخصوص نظام تعلیم ترتیب
دیاجسے نوآبادیات نے اپنایا بالخصوص پاکستان تو کچھ زیادہ ہی جی حضوریہ
ثابت ہوا۔تعلیمی پالیسیاں ہو ں یا نصاب تعلیم کی کتب کی تدوین فرنگی آقاﺅں
کی ہدایات کے مطابق ترتیب دیا جاتاہے۔ اس سے قبل میں اسلامیات اور مطالعہ
پاکستان برائے میٹرک کلاسز کے بارے لکھ چکا ہوں۔ اب اردو کے بارے چند ایک
اسباق کے علاوہ تو پڑھانا وقت کا ضیاع ہے۔ ضرورت ایسے اسباق کی ہے جو قومی
امنگو ں کے مطابق ہوں ۔ مسلمانوں کے ماضی،مشاہیر اسلام سے متعلق مضامین،
ترقی اور تنزل کے مدارج، علمی ادبی عروج، مسلمانوں کے علمی ادبی مراکز،
احادیث مبارکہ اور بزرگوں کی سیرت ، قومی شعراءکا کلام شامل نصاب ہو۔
موجودہ کتابوں سے حضرت علامہ اقبال،مولانا حالی، میر انیس وغیرہم کو عملا
فارغ کردیا ہے۔علامہ اقبال کا کلام مسلمانوں کی ہمہ جہت رہنمائی کرتا ہے۔
شکوہ جواب شکوہ کسی دور میں شامل نصاب تھا جو آج نہیں۔ میں جب آٹھویں جماعت
میںہمیں ہمارے ہیڈ ماسٹر جناب سلطان محمود مرحوم و مغفور نے بانگ درا
پڑھائی تھی جبکہ وہ شامل نصاب نہ تھی۔ عشق رسول میں برصغیر کے معروف نعت گو
اعلیٰ حضرت شاہ احمد رضاخان بریلوی رحمة اللہ علیہ کا کلام ذہنی جلا کے
لیئے ضروری ہے۔ ااصلاح احوال کے لیئے مولانا حالی کی مسدس مدوجزر اسلام اور
میر انیس کا کلام نہائت مفید ہے۔ ان حضرات کا کلام فکری تربیت کا سبب بن
سکتا ہے ٍ۔ اسی طرح میٹرک کی انگریزی کتب کے مضامین دیکھ کر افسوس ہوتا ہے
کہ جس طرح انگریزی بدیشی زبان ہے اسکے لکھاری بھی بدیشی ہیںتو نفس مضمون
بھی بدیشی ۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں کوئی انگریزی مضامین لکھنے
والانہیں۔ میں متعددایسے احباب کو جانتا ہوں کہ انگلش لٹریچر اور poetry پر
انہیں ایسا عبور حاصل ہے کہ اہل زبان بھی انکے سامنے دم نہیں مارسکتے لیکن
افسو س کہ ہمارے حکمران اور پالیسی ساز ادارے اپنے سکالرز کو کیوں نظرانداز
کرکے بدیشیوں کو highlight کرتے ہیں۔
نئی تعلیمی پالیسی میں ہمارے مذہب و ملت کے سکالرز کو ترجیح دی جائے کہ وہ
اپنے ملک اور قوم کے تقاضوں کے مطابق نصاب تعلیم ترتیب دیں۔ یہاں میں نے
میٹرک کلاسز کا ذکر کیا ہے نچلی کلاسز کا نصاب بھی قابل اصلاح ہے۔ اگر
حکومت نئی تعلیمی پالیسی بنارہی ہے تو پہلا اور بنیادی اقدام یہ ہو کہ قومی
زبان اردو کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے۔ بدیشی زبان کے سیکھنے پر جو وقت ضائع
ہوتا ہے وہ بچ جائے گا اور متعلمین کو نفس مضمون سمجھنے میں کسی قسم کی دقت
نہ ہوگی۔طبقاتی طریقہ تعلیم یکسر ختم کریں۔ پورے ملک میں یکساں نصاب ہو۔
ڈویژنل پبلک سکول، دانش سکول اے اور او لیول کے سسٹم یکسر ختم کریں۔ لیب
ٹاپ کی خیرات بند کرکے اسی زر کثیر سے مزید تعلیمی اداروں کی عمارتیں تعمیر
کی جائیں۔تعلیم اسلامی دور حکومت میں کبھی بھی محکمہ کی صورت میں نہیں
رہا۔مزید بہتری کے لیئے خلافت عباسیہ اور برصغیر میں مسلمانوں کے نظام
تعلیم کا مطالعہ کرلیا جائے۔ نجی شعبہ میں کام کرنے والے تعلیمی اداروں کی
حوصلہ افزائی کی جائے اور انہیں اپنی عمارات،تجربہ گاہوں اور ٹرانسپورٹ اور
تدریسی عملہ کی تنخواہوں میں خاطرخواہ امداد دی جائے۔ ہمارے یہاں اکثر
سرکاری محکموں کے اہلکار اور افسران امداد یا قرضوں کی ادائیگی میں رشوت
لینے کے عادی ہیں ۔ اس ناسور کو ختم کرنا ہوگا۔ نصاب تعلیم کی تدوین کے
لیئے سیاسی اور سفارشی لوگوں کی بجائے ہر مضمون کے ماہرین پرمشتمل کمیٹیاں
بنائی جائیں۔فنی مضامین پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ ہمارا ہنرمند طبقہ اگر
کوئی نئی ایجاد سامنے لاتا ہے تو انہیں حکومتی سطح پر وسائل مہیا کیئے
جائیں تاکہ ایجادات میں پاکستان کا نام بھی شامل ہوجائے۔ موجودہ صورت حال
انتہائی کسمپرسی سے دوچار ہے، نصاب فی نفسہ ناکارہ ہے تو صاحب اقتدار طبقہ
کے اپنوں کے وارے نیارے ہورہے ہیں ۔ آپ جس کتاب کو اٹھا کر دیکھیں اسکا
کاغذ انتہائی گھٹیاہے۔ قیمتیں بہت زیادہ جبکہ درسی کتب سستی ہونی چاہئیں۔
سرکاری اور غیر سرکاری کی اصطلاح دور غلامی میں تو درست تھی لیکن ہمارے
حکمران اپنے آپ کو فرنگی کے منصب پر فائز رکھتے ہوئے سرکارکا لقب زیادہ
پسند فرماتے ہیں ۔ سرکارکے سکولوںمیں زیر تعلیم بچوں کو قومی خزانے سے مفت
کتب فراہم کی جاتی ہیں ،انہیں دیگر سہولیات مثلاکمپیوٹر لیب ،سانئس
لیبارٹریز ، کھیلوں کا سامان قومی خزانے سے فراہم کیا جاتا ہے جبکہ سرکاری
سکولوں کی نسبت کئی گنا تعداد میں بچے نجی تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں
۔ قومی خزانے میں ان کا بھی حصہ ہے مگر سرکار بطرز فرنگی ان لوگوں سے جگا
ٹیکس تو لیتی ہے لیکن انہیں حصول تعلیم میں کوئی سہولت نہیں دیتی۔ بلا
تفریق ملک میں زیر تعلیم بچوں کو مساویانہ حقوق دیئے جائیں۔ مجھے امید ہے
حکومت نئی تعلیمی پالیسی میں دیانتداری کا مظاہرہ کرے گی۔ |
|