Fastings & Ethics
روزے کے ذریعے انسانی اخلاق پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اور کیا اخلاق عمدہ
اور بہتر بنانے کے لئے روزہ اہم کردار ادا کرسکتا ہے، اس سوال کا جواب تلاش
کرنے سے پہلے یہ بتانا مناسب سمجھوں گاکہ
عالمی خطرہ:
آج پوری دنیا جس خطرے سے دوچار ہے، یا یوں کہئے جو عالمی خطرہ پوری دنیا کے
سر پر منڈلا رہا ہے وہ ہے Disorder،بدامنی، کہیں کسی کو سرعام قتل کرکے
قاتل کو قوم کا محافظ بنا دیا جاتا ہے تو کہیں سرعام کسی کی آبرو لٹتی ہے
تو تماشہ دیکھنے والے اس کو بھی تفریحکا ذریعہ سمجھتے ہیں تو کہیں کسی کے
مال پر ایسے قبضہ کیا جاتا ہے جیسے لوٹنے والا صدیوں سے اپنا حق تلاش کررہا
تھا اور لٹنے والا اس احسان تلے دب کر خاموش ہوجاتا ہے کہ چلو زندگی تو
ہماری بخش دی گئی ہے اب اور ہمیں کیا چاہئے، غرضیکہ ایک عجیب افراتفری کا
عالم ہے، ہر طرف بدامنی ہی بدامنی ہے جبکہ ہم یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم
بہت (Cultured) تہذیب یافتہ قوم ہیں۔ خاص طور پر امریکہ اور یورپ جوکہ
تہذیب وثقافت کا گڑھ سمجھا جاتا ہے ان کا حال بھی ہم سے مختلف نہیں بلکہ ہم
سے لاکھ درجے بدتر ہے یہی وجہ ہے پوری دنیا میں دہشت گردی، بدامنی سے نمٹنے
کے لئے مختلف سیمینار منعقد کئے جارہے ہیں، مختلف Conferences ہورہی ہیں،
بڑے بڑے سکالرز، مفکر، دانشور اپنی اپنی رائے کا اظہارکررہے ہیں، اپنی اپنی
فکر کے مطابق حل پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن کوئی شے بھی سودمند ثابت
نہیں ہورہی جبکہ اس بات کا بھی گھمنڈ ہے کہ چاند ومریخ پر کمندیں ڈال دی
ہیں زمین وآسمان کو مسخر کرلیا ہے، Technologyکی انتہا کو پہنچ گئے ہیں پھر
کیا سبب ہے کہ بدامنی جیسے چھوٹے سے مسئلے سے نجات حاصل نہیں کرپارہے ہیں
اور وہ کیا سبب ہے جس کی وجہ سے روز بروز بد امنی وافراتفری میں اضافہ
ہورہاہے۔
بدامنی کا سبب:
قبلہ! میں عرض کرتا ہوں کہ اگر آپ عالمی حالات کا جائزہ لیں، اپنے ارد گرد
کے ماحول کو دیکھیں، کچھ دیر غوروفکر کریں تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ
وہ ایک ہی سبب ہے جو دنیا کو اس بدامنی کے بھنور سے نکلنے نہیں دے رہا اور
وہ ہےSensual Desire (نفسانی خواہشات)Brutality(حیوانیت)آپ اس بات کو
اجتماعی (Social) طور پر دیکھیں یا انفرادی (Individual) طور پر یہی سبب
نظر آئے گا، چنانچہ ہم عالمی سطح پر دیکھتے ہیں کہ ایک ملک کسی ملک کے
قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے کے لئے، اس کی دولت ہتھیانے کے لئے اس پر حملہ
کردیتا ہے، وہاں کے لوگوں پر ظلم وتشدد کی انتہا کردیتا ہے، پانی کی طرح
انسانی جانوں کا خون بہاتا ہے، جبکہ اس کے ہم پلہ اتحادی اس طرز عمل کو غلط
تصور کرتے ہیں بلکہ اسی قوم کے کچھ بااثر افراد اس کا کھل کر اعتراف بھی
کرتے ہیں مگر اس پر کچھ اثر نہیں ہوتا ایسا کیوں؟ صرف اس لئے کہ Sensual
Desire, ،Brutalityغالب ہے۔ یہی حال انفرادی طور پر ہے کہ ایک عزت لوٹنے
والا یہ جانتا ہے کہ میری ماں بھی ہے، میری بہن بھی ہے، وہ کسی مذہب سے بھی
تعلق رکھتا ہے اگر وہ قرآن وحدیث کو ماننے والا ہے تو اس کے احکامات سے بھی
اچھی طرح واقف ہے، یہ بھی جانتا ہے کہ اس گناہ کی کیا سزا ہے لیکن جب وہ اس
برے فعل کا مرتکب ہورہا ہوتا ہے تو اس وقت ایک ہی چیز غالب ہوتی ہے وہ ہے
نفسانی خواہش، حیوانیت، غرضیکہ کسی بھی بدامنی پھیلانے والے ذریعے کو
دیکھیں خواہ وہ لڑائی جھگڑا ہو، لڑکیوں کا سرعام گناہ کی دعوت دینا ہو یا
قتل وغارت گری ہو، سب کے پیچھے ایک ہی سبب ہے۔
بدامنی سے نجات کا حل:
اس بدامنی سے کیسے نجات حاصل کی جائے؟میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ اس
سلسلے میں پوری دنیا میں عالمی امن کا نفرنسز منعقد ہورہی ہیں، سیمینارز
ہورہے ہیں، دنیا کے نامور اور عظیم مفکر اور دانشور شرکت کررہے ہیں لیکن
حیران کن بات یہ ہے کہ آج تک کوئی جامع حل پیش نہ کرسکا جب کہ قربان جائیے
اس چٹائی پر بیٹھ کر حکمرانی کرنے والے کے کہ جس نے 1400سال پہلے روزے جیسا
جامع حل پیش کرکے بڑے بڑے دانشوروں اور مفکروں کی عقلوں کو حیران کردیا۔
حدیث مبارک پڑھئے، اس کے لفظوں پر غور وفکر کیجئے اور پھر آقا علیہ الصلوۃ
والسلام کی عقل ودانش پر لاکھوں سلام بھیجئے بخاری شریف کی حدیث ہے سرکار
دوعالم علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا ’’اِذَا کَانَ یَوم صَوْم
اَحَدِکُمْ‘‘ (اگر کوئی تم میں سے روزہ کے دن یعنی روزے سے ہے) فَلا
یَرْفَثْ وَلَایَصْخَبْ(تو اسے فحش گوئی نہیں کرنی چاہئے اور نہ ہنگامہ
کرنا چاہئے) فَاِنْ سَابَّہٗ اَحَدٌ (پس اگر کوئی اسے گالیاں دے) اَ و
قَاَتَلَہٗ ( یا اس سے لڑائی جھگڑا کرے) فَلْیَقُلْ اِنّی امْرَؤٌ صَاءِمٌ
(تو اسے چاہئے یہ کہے کہ میں تو روزے دار ہوں)*
حدیث مبارک میں لطیف نکتے کی طرف اشارہ:
اس حدیث مبارک میں اِنِّی امْرَؤٌ صَاءِمٌ ( میں روزے دار ہوں) کے جواب پر
ذرا غوروفکر فرمائیے کہ اگر رسول اللہ علیہ الصلوۃ والسلام چاہتے تو یہ بھی
فرماسکتے تھے کہ اگر تمہیں کوئی گالیاں دے یا لڑائی جھگڑا کرے تو تم یہ
کہنا میں تمہیں گالیاں نہیں دوں گا، میں تم سے لڑائی جھگڑا نہیں کروں گا
کیونکہ سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ * میرے حبیب کا فرمان ہے مسلمان کو
گالیاں دینا فسق ہے، یہ بھی فرما سکتے تھے کہ تم یہ جواب دینا کہ مسلمان کو
تکلیف وایذاء دینا گناہ ہے غرضیکہ بے شمار جواب تھے لیکن میرے حبیب علیہ
الصلوۃ والسلام نے جس جواب کا انتخاب فرمایا وہ ہے اِنِّی امْرَؤٌ صاءِمٌ ۔
اصل میں رسول اللہ علیہ الصلوۃ والسلام امن کے داعیوں کو دعوت فکر دینا
چاہتے تھے کہ غور کرو لفظ صائم پر کہ یہ لفظ ’’صَومٌ‘‘ سے نکلاہے جس کے
معنی اصطلاح میں یہ ہیں کہ کھانے، پینے اور مباشرت (Copulation) سے اللہ کی
رضا کی خاطر اپنے آپ کو روک لینا یعنی اب جواب کا خلاصہ یہ ہوگا کہ اے
جھگڑا وفساد کرنے والے تو تو مجھے گالیاں دے سکتا ہے، جھگڑا کرسکتا ہے لیکن
میں اپنے نبی کا وہ امتی ہوں جو کھانا پینا اور بیوی سے جماع جیسا جائز
حلال کام اپنے رب کی خوشی کے لئے چھوڑدیتا ہوں تو پھر ناجائز اور غلط کام
کیسے کرسکتا ہوں۔ (سبحان اللہ) یہ وہ حکمت تھی اور روزہ کی روح تھی جس کو
میرے حبیب علیہ الصلوۃ والسلام نے صرف ایک لفظ میں بیان کردیا اور امن کے
ان دعوے داروں کے سامنے جو صدیوں سے حل تلاش کررہے تھے جامع حل پیش فرما کر
یہ بتا دیا کہ ایک بار میرے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کرکے دیکھو دنیا امن
کا گہوارہ بنتی چلی جائے گی۔ |