میں معمول کے مطابق رات کے وقت
لیب ٹاپ پر اگلے روز کے اخبارات پڑھ رہا تھا۔آزاد کشمیراورپاکستان کے
اخبارات دیکھنے کے بعد مقبوضہ کشمیر کے اخبارات دیکھنا شروع کئے تو وہاں کے
اخبارات میں مقبوضہ کشمیر حکومت کے محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کا ایک
اشتہار دیکھ کر حیران ہوا۔اشتہار کی عبارت پڑھی تو مجھے شرم محسوس ہونے لگی
کیونکہ آزاد کشمیر حکومت برادری،قبیلائی،علاقائی بنیادوں پہ میرٹ کا ناچ
نچانے،اقرباء پروری اورکمیشن و کرپشن میں اس قدر مصروف ہے کہ اس طرح کی
باتوں پہ اپنی ذمہ داری یا شرم محسوس کرنے سے بھی عاری ہو چکی ہے۔ہاں جب
آزاد کشمیر حکومت کو اپنے مفاد میں تحریک آزادی کشمیر کا نام لینا پڑتا ہے
تو ایک فون کال پر مخصوص افراد کا اجلاس طلب ہو کر منعقد ہو جاتا ہے ،جس
میں میڈیا کے کیمروں کے سامنے، ’’بھارت کو یہ کرنا چاہئے،امریکہ کو اس طرح
کرنا چاہئے اور عالمی برادی کے لئے اس طرح کرنے کے سوا اور کوئی چارہ ہی
نہیں،ہم جوکشمیر کاز کے لئے شاندار کام کر رہے ہیں دنیا اس کا اعتراف کر
رہی ہے‘‘، جیسی بیش قیمت تجاویز ، مطالبات اور خیالات بیان کئے جاتے
ہیں۔چائے پی کر اور کیک کھا کر میڈیا کے لئے بیان بھی تیار ہو جاتا ہے۔
مقام صد افسوس کہ کئی کردار کے دعوے دار بھی آزاد کشمیر حکومت کے اس
’’کشمیر کاز کے نمائشی اشتہار‘‘ میں شامل ہو جاتے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر حکومت کے محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کے اس اشتہار کی عبارت
یہ ہے،’’مطلق العنانی کے خلاف82سال قبل ریاستی عوام کی معتبر
آواز،13جولائی1931ء ،ان جانثاروں کو قوم کا عقیدت بھرا سلام جن کے شفق رنگ
خون سے اس روشن صبح کا آغاز ہوا جس کے اجالے میں جموں و کشمیر کے عوام اپنی
سرداری،سرخ روئی اور آسودہ حالی کا فردوس ارضی آراستہ کرنے میں مگن
ہیں۔13جولائی،تاریخ کا تابناک دن،آئیے ،ہم سب آج شہیدوں کو خراج عقیدت پیش
کریں اور ملک و قوم کی خوشحالی کے لئے اپنا حصہ ادا کرنے کا عہد کریں۔شائع
کردہ۔محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ ،حکومت جموں و کشمیر‘‘۔
اخبارات میں عوامی مسائل و مشکلات پرمبنی خبریں،اداریئے،کالم ،مضامین شائع
ہوتے ہیں تو بھولے عوام سمجھتے ہیں کہ اب یہ بات حکومت کے نوٹس میں آ گئی
ہے لہذا اب اس پر کاروائی ہو گی لیکن ان بے خبر عوام کو کیا پتہ کہ آزاد
کشمیر کے حکمرانوں ،عہدیداروں کو محکمہ اطلاعات کی طرف سے جو اخباری تراشے
روزانہ دیئے جاتے ہیں ،وہ ان کے اپنے بیانات پر مبنی ہوتے
ہیں،حکمران،عہدیداران دیکھتے ہیں کہ کس کس اخبارات نے ان کی خبر اور تصویر
کو کس کس انداز میں شائع کیا ہے۔اس کے علاوہ تعریفی خبریں، کالم و مضامین
محکمہ اطلاعات کی روزانہ کی کار گزاری ہے۔آزاد کشمیر کے حکمران آزاد کشمیر
کے کسی بھی ضلع میں جائیں،مختلف محکموں کی طرف سے خیرمقدمی اشتہار ات
اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ اس معاملے پر بات ہونے پر
برہمی کا اظہار کرتے ہوئے شائع کرانے والوں سے متعلق لاعلمی ظاہر کرتے
ہیں۔اس حکومت میں مخصوص افراد کے ذریعے مخصوص اخبارات کو نوازنے اور مخصوص
کو کھڈے لائین لگانے کا عمل نہایت کامیابی سے چلایا جا رہا ہے۔
13جولائی1931ء کے شہداء کا دن ریاست جموں و کشمیر کی تاریخ اور جاری و ساری
تحریک آزادی میں کیا اہمیت رکھتا ہے ،اس کا احساس ہر کشمیری کو ہے لیکن
ڈھائی اضلاع میں آزاد حکومت قائم کرتے ہوئے ،تمام ریاست کی نمائندگی ،تحریک
آزادی کشمیر کا بیس کیپ ہونے کا دعوی کرتے چلے آئے ہیں لیکن عملا گلگت
بلتستان اور مسئلہ کشمیر و کشمیر کاز کو حکومت پاکستان کے حوالے کر کے
برادری،قبیلائی،علاقائی بنیادوں پہ تعصب میں مبتلاومحدود اور تمام اخلاقیات
بھول کر مفادات کی بندر بانٹ،کھینچا تانی میں مصروف ہیں۔بقول شاعر ’’ لوٹ
لو مزے ان بہاروں کے جو کل ہوں نہ ہوں‘‘ یا پھر اس بات پہ یقین رکھتے ہیں
کہ ’’ کچھ کر لو نوجوانوں اٹھتی جوانیاں ہیں‘‘۔
گزشتہ سال سرینگر میں جموں و کشمیر کلچرل اینڈ لینگوجز اکیڈمی کے دورے کے
موقع پر جب اکیڈمی کے سیکرٹری خالد صاحب نے مجھ سے آزاد کشمیر حکومت کے
اداروں کشمیر کلچرل اکیڈمی اور کشمیر لبریشن سیل کے حوالے سے چند سوالات
کئے تو میری شرمندگی کا عالم دیدنی تھا۔بلاشبہ اب میں آزاد کشمیر کے محکمہ
اطلاعات و تعلقات عامہ کو بھی کارکردگی کے لحاظ سے آزاد کشمیر کلچرل اکیڈمی
اور کشمیر سیل کی صف میں کھڑا دیکھتا ہوں۔13جوالائی1932ء کے یوم شہدائے
کشمیر کو آزاد کشمیر حکومت کے محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ( کئی اسے محکمہ
ڈس انفارمیشن بھی کہتے ہیں)کی طرف سے نظر انداز کرنے کے ایک واقعہ سے اس
بات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جاتی ہے کہ محکمہ اطلاعات کو خرابیوں، خامیوں
سے پاک صاف کرتے ہوئے اس سے کشمیر کاز کے مفادپر مبنی کام لیا جائے ،اس وقت
تک یہ محکمہ آزاد کشمیر کی روائیتی خرابیوں کے ایک ’’ شاہکار ‘‘کے طور پر
نظر آتا ہے۔ اس حقیقت کا اظہار محکمے سے متعلق دو سابق سیکرٹری حضرات بھی
کر چکے ہیں۔آزاد کشمیر حکومت( میرے خیال میں چیف سیکرٹری صاحب بھی حکومت
کاحصہ ہوتے ہیں) کے لئے ضروری ہے کہ محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کو درست
خطوط پر استوار کیا جائے۔افسوس آزاد کشمیر کے جس محکمہ اطلاعات میں بڑی
علمی و ادبی شخصیات، نامور افسران رہے ،آج یہ ہمیں علمی انحطاط پزیری کا
نمونہ نظر آتا ہے۔ |