کبھی آپ نے سوچا ہے کہ
ہمارے نوجوان جس تیزی سے ملک چھوڑ رہے ہیں اس کی وجوہات کیاہیں اگر اسی طرح
ہمارے پڑھے لکھے نوجوان ملک چھوڑتے رہیں گے تو ملک کی ترقی کیسے ہو
گیِ۔کیوں ہمارے نوجوان اپنے ملک کو چھوڑنے کے لیے اپنے گھر تک بیچنے کے لیے
تیار ہوجاتے ہیں۔اچھی اچھی جاب چھوڑ کر وہ دوسرے ملک جا کر ویٹر تک کا کام
خوشی سے کر لیتے ہیںِ۔لوگ وزٹ ویزا پر جاتے ہیں اور دس دس سال تک واپس نہیں
آتے آخر کیوں؟ آپ اندازہ کریں کہ جو نوجوان ہمارے اپنے ملک میں ماسٹر ڈگری
کر کے ،بلکہ کچھ تو ایم فل کر کے بیرون ملک کسی سروس سٹیشن پر کام کر لیتے
ہیں یا کسی دوکان پر نوکری کر لیتے ہیں لیکن واپسی کا نام نہیں لیتے
آخرکیوں؟ہماری نوجوان نسل اتنی زیادہ مایوس کیوں ہے اور اگر آپ کسی نوجوان
سے کبھی پوچھیں گے تو شائد سب کے ملے جلے ایک جیسے ہی جواب ہوں گے۔ ملک نے
ہمیں دیا ہی کیا ہے ،انٹرویو میں کہتے ہیں تجربہ نہیں نوکری ہی نہیں ملتی
اگر مل جاے تو ختم کب ہو جاے پتا ہی نہیں چلتا۔جاب پر اس طرح سلوک کیا جاتا
ہے جیسے ہم کسی اور دنیا کی مخلوق ہیں۔تنخواہ بھی نہ ہونے کے برابر ہوتی
ہے۔اوپر سے مالکان ہمیشہ پریشر میں رکھتے ہیں۔کو ئی نوکری بغیر سفارش نہیں
ملتی تعلیم کے مطابق نوکری نہیں ملتی۔میرٹ نہیں کہیں بھی۔جس کی لاٹھی اس کی
بھینس والا قانون ہے آپ کو جاہز، کاموں کے لیے بھی رشوت دینا پڑتی ہے اگر
ہم ان سب باتوں کا جائزہ لیں تو کچھ باتیں ہمارے نوجوانوں کی ٹھیک بھی ہیں
لیکن ہم سارا ملبہ حکومت پر یا پھر سسٹم پر نہیں ڈال سکتے۔اگر کچھ باتیں ہم
اپنے ذمہ لے لیں تو بہت حد تک ہم ان سب چیزوں پر قابو پا سکتے ہیں ہم اپنے
ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال سکتے ہیں۔حکومت کی نوکری ہر کوئی کرنا چاہتا ہے
لیکن حکومت ہر کسی کو نوکری نہیں دے سکتی۔لیکن کچھ چیزیں ہیں جن پر ہم
آسانی سے کام کر سکتے ہیں اور ہم اپنے نوجوانوں کی مایوسی بھی دور کر سکتے
ہیں اور اپنے پڑھے لکھے نوجوانوں کو با ہر مزدوری کے بجاے اپنے ملک میں
محنت پر بھی لگا سکتے ہیں۔سب سے پہلے تو میں والدین سے گزارش کروں گا کہ جب
وہ اپنے بچوں کوا علیٰ تعلیم دلوانا چاہتے ہیں تو کچھ ایسے لوگوں سے ضرورہ
مشورہ کرلیا کریں جن کو مارکیٹ کی ڈیمانڈ کا پتا ہو۔بچوں سے بھی مشورہ کریں
کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں کبھی بھی اپنی مرضی ان پر تھوپنے کی غلطی نہ
کریں۔اگر اس کی تعلیم اچھی ہو اور اس کو اپنے گھر کے پاس ہی اچھی جاب بھی
مل جاے تو اس کو کسی دوسرے ملک میں دھکے کھانے کی کیا ضرورت ہے۔۔ایک اور
بڑا مسلہ یہ بھی ہے کہ بہت سے والدین ان پڑھ ہوتے ہیں ان کو کسی بھی چیز کا
پتا نہیں ہوتا ہے کہ بچوں کو کس فیلڈ میں ڈالنا ہے کیا بہتر ہے اور کیا آگے
کام آے گا بس وہ کہتے ہیں بچہ بس ایم اے کر جاے بچہ بھی آ سان سے مضمون پاس
کر لیتا ہے لیکن جب ڈگری ملتی ہے تو وہ کسی کام کی نہیں ہوتی ہے ایسے لڑکے
کو کو ئی نوکری نہیں دیتا ہے سو ایسے لوگ بھی باہر ملک آ جاتے ہیں اور بس
جو بھی کام ملے کرنے کو راضی ہوتے ہیں ان کا حل ان کے اپنے علاوہ کوئی نہیں
کر سکتا ہے۔ہاں کچھ مسلئے ایسے ہیں جن پر صرف اور صرف حکومت کا ہی کنٹرول
ہے اور اس میں حکومت کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔جیسے بجلی،پانی اورگیس
کا مسلہ ہے۔ ملک میں لا قانونیت ہے ،طاقتور کی ہی چلتی ہے مظلوم کی کو ئی
نہیں سنتا ہے۔غریب کی کسی جگہ کوی شنوا ئی نہیں ہے سو لوگ اپنی زمین
جائیداد بیچ کر اپنے بچے باہر بھیج دیتے ہیں کہ پیسہ ہو گا تو وہ عزت کی
زندگی گزاریں گے میں والدین سے درخواست کروں گا کہ بیرون ملک زندگی اتنی
آسان نہیں جتنا سمجھی جاتی ہے بس جو آتا ہے وہ مجبوری کی وجہ سے واپس نہیں
جا سکتا ورنہ کبھی آپ میرے کہنے پر ایک منٹ کے لیے آنکھیں بند کر کے سوچیے
گا کہ آپ جاب سے گھر آتے ہیں گھر آپکو کھانا خود بنانا ہے۔عید ہے اور آپ
جاب پر ہیں یا زیادہ سے زیادہ گھر آ کر سو جا ئیں گے۔کسی کی شادی نہیں نہ
کو ئی دوست آپکو وقت دے گا شاید ہی کوئی قسمت والے ہوں تو ورنہ آپ جس گھر
میں ہوتے ہو اس میں رہنے والے ایک ایک مہینہ کے بعد ایک دوسرے کی شکل
دیکھتے ہیں ادھر کو ئی روٹین نہیں ہے آپ کی جاب رات کے بارہ بجے بھی شروع
ہو سکتی ہے اور صبح کے چاربجے بھی۔میں آپ کو مایوس نہیں کر رہا حقیقت بیان
کر رہا ہوں۔جو پیسہ آپ نے بیرون ملک جانے میں ضائع کرنا ہے اپنے ملک میں
اپنا کاروبار کریں ملک بھی ترقی کرے گا آپ بھی۔میں مانتا ہوں بہت مسلئے ہیں
لیکن جب آپ نیک نیتی کے ساتھ کام کریں گے لگن کے ساتھ تو ایک دن ضرور آپ
کامیاب ہوں گے۔ |