ہمارا تعلیمی نصاب

پاکستان کو آزاد ہوئے 60 سال سے زائد ہو چکے ہیں اور ہمارا ملک آج بھی وہیں ہے جہاں پر 60 سال پہلے تھا کچھ ردوبدل کو تبدیلی نہیں کہا جا سکتا- جیسے اگر 12 کروڑ لوگ موبائل فون استعمال کر رہے ہیں تو یہ ترقی نہیں ہے ہم اپنے ملک میں 12 موبائل بنا نہیں سکتے- آج بھی ہم ضروریاتِ زندگی کی 80 فیصد اشیاﺀ باہر سے منگواتے ہیں-

بہت سے مسائل کے ساتھ ہمارا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ تعلیم کا ہے جو میرے خیال میں اربابِ اختیار کے لیے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے کہنے کو تو ہمارا ملک پاکستان ہے اور اس کے چار حصے صوبوں کی صورت میں ہیں لیکن ان چاروں صوبوں میں بیشمار تعلیمی نصاب ہیں- ہر صوبے میں الگ الگ تعلیمی نصاب ہونے کی وجہ سے ہماری جنریشن کا کوئی کردار نہیں ہے- آج تک ہمارے ملک میں 1947 کا تعلیمی نصاب پڑھایا جا رہا ہے پھر اس پر طرہ یہ کہ گورنمنٹ اسکولوں کا تعلیمی نصاب الگ ہے اور پرائیوٹ اسکولوں کا الگ اور پھر ہر پرائیوٹ اسکول کا اپنا تعلیمی نصاب ہے جو وہ اپنی مرضی سے رائج کرتے ہیں- گلی گلی٬ محلے محلے میں گھروں میں اور فلیٹس تک میں اسکول کھولے ہوئے ہیں جن کا تعلیمی معیار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے- میٹرک پاس٬ انٹر پاس چھوٹی چھوٹی لڑکیاں اور لڑکے اس قسم کے اسکولوں میں اساتذہ کے فرائض انجام دیتے ہیں اور بہت سے کاروباری لوگ تو اسکول سے اچھا کاروبار کسی کو سمجھتے ہی نہیں ہیں- ان اسکولوں میں پرائمری کلاسز کے بچوں پر جو کتابوں اور کاپیوں کا بوجھ ہوتا ہے انہیں اٹھا کر وہ بچہ کسی گدھے کا مقابلہ کرتا نظر آتا ہے-

پھر ہمارا تعلیمی نصاب جو کالجز اور یونیورسٹی میں رائج ہے وہ اتنا بوگس ہے کہ پری میڈیکل٬ پری انجنئیرنگ اور کامرس کو جو طالب علم ہیں وہ بھی اردو لازمی پڑھتے ہیں جس کا ان کے کیرئیر میں کوئی کام نہیں ہے غالب٬ داغ٬ درد٬ میر تقی میر اور بہت سے شعراﺀ کو آٹھویں جماعت سے پڑھایا جاتا ہے اور ان کے دیوان مکمل نہیں ہو سکتے٬ یہی کچھ حال انگریزی کا بھی ہے ڈرامے پڑھائے جا رہے ہیں اور یہی کچھ اسلامیات کے ساتھ بھی ہوتا ہے ہمارے یہاں اتنے مسلک ہیں کہ آپ تفصیل سے پڑھا ہی نہیں سکتے آٹھویں سے لے کر گریجویشن تک ایک جیسی اسلامیات پڑھائی جاتی ہے تو کیا وجہ ہے ان تمام مضامین کو آٹھویں تک ہی مکمل کر دیا جائے اور پھر جب طالب علموں کی پروفیشنل تعلیم شروع ہوتی ہے تو اس طالبعلم پر سے اگر ان مضامین کا بوجھ ہٹا دیا جائے تو وہ اپنے اہم مضامین پر اچھی طرح توجہ دے سکے گا- گورنمنٹ اسکولوں میں اگر انگریزی تعلیم شروع سے پڑھائی جائے تو طالبِ علم کو آگے جا کر پریشانی نہ ہو- میٹرک کے بعد جب سرکاری اسکول کا طالبِ علم کالج میں آتا ہے تو تمام مضامین انگریزی میں ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے اسے بہت پریشانی ہو جاتی ہے-

کیا ہمارا تعلیمی نظام تبدیل نہیں کیا جا سکتا اور اگر کیا جا سکتا ہے تو وہ کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے پس و پیش ہے اور اگر نہیں کیا جاسکتا تو اس کی وجہ کیا ہے یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب تو ہر طالبِ علم کو مطلوب ہے لیکن 60 سالوں میں اس کو یہ جواب کوئی بھی نہیں دے سکا-
Sohail Khan
About the Author: Sohail Khan Read More Articles by Sohail Khan: 9 Articles with 8783 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.