کورنگی کے صنعتی علاقے میں واقع
مہران ٹاؤن میں گزشتہ دنوں نامعلوم مسلح افراد نے چالیس سالہ محمد امین
بلیدی اور ان کی اہلیہ زرینہ بلیدی کو گولیاں مار کر قتل کردیا ۔ ان کا
پانچ سالہ بیٹا اسد عباس محفوظ رہا۔ مقتولین کا تعلق بلوچستان کی سرحد کے
قریب واقع ضلع جیکب آباد سے ہے۔ قتل کا یہ واقعہ چھ سال پہلے پسند کی شادی
کرنے کا شاخسانہ تھا۔ مقتولین کے ورثا کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ کاروکاری کی
رسم کا نتیجہ ہے۔ ہمارے یہاں غیرت کے نام پر قتل روزمرہ ہونے والے جرائم
میں شامل ہے۔ کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان کی سالانہ رپورٹ کے مطابق
ملک میں پچھلے سال ایک ہزار دو سو دس خواتین کو قتل کیا گیا جن میں چھ سو
بارہ خواتین کو غیرت کے نام پر موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ کمیشن کے مطابق
گزشتہ سال غیرت سمیت دوسری وجوہات کی بنا پرایک سو چودہ بچے بھی قتل ہوئے۔
پاکستان میں غربت، مہنگائی کے بعد گھریلو تشدد کے واقعات میں خواتین کو
مشکلات کا سامنا ہے۔ ایک عورت نے چار بچوں سمیت شوہر کے تشدد اور جان سے
مار دینے کی دھمکی سے خوف زدہ ہو کر ایدھی ہوم میں پناہ حاصل کی ہوئی ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی ان کے شوہر نے منشیات کا استعمال
شروع کر دیا تھا۔ بعد میں اکثر ان پر تشدد کیا جانے لگا۔ انہوں نے بتایا کہ
شوہر کے مظالم اس قدر بڑھ چکے تھے کہ ایک بار سر پر زخم آنے کی وجہ سے آٹھ
ٹانکے لگوانے پڑے تھے۔ اس کے علاوہ منشیات خریدنے کے لیے گھر کا سارا سامان
فروخت ہو گیا تھا۔ ’نوبت یہاں تک آ گئی تھی میرے شوہر نے بچوں کو بیچنے کی
بات شروع کی دی تھی۔‘ ایدھی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ برسوں میں گھریلو
تشدد سے تنگ آ کر پناہ لینے والی خواتین میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ پہلے
ایسی خواتین کو ان کے والدین یا کوئی قریبی رشتہ دار اپنے ہاں پناہ دے دیتا
تھا لیکن اب معاشی پریشانیوں کی وجہ سے ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ خواتین کے
حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظم عورت فاؤنڈیشن کا کہنا ہے
کہ اس سال پاکستان میں خواتین پر تشدد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ عورت
فاؤنڈیشن کے مطابق رواں سال کے پہلے نو ماہ میں ملک بھر سے خواتین کے خلاف
تشدد کے پانچ ہزار چھ سو سے زائد واقعات کی رپورٹ موصول ہوئی ہیں۔ صوبہ
سندھ میں حالیہ دنوں عورتوں کے خلاف مختلف نوعیت کے تشدد میں اضافہ کے
واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔
گزشتہ دنوں میں عورتوں کے خلاف مختلف مقامات پر تشدد کے چار واقعات پیش آئے
ہیں جن میں سے دو عورتیں کارو کاری رسم کے تحت قتل کر دی گئیں۔ ایک عورت کے
شوہر نے چاقو سے بیوی کا ناک کاٹ دیا اور ایک عورت نے اپنے والدین کے گھر
سے پولیس کی مدد سے پناہ حاصل کی ہے۔ اس طرح تیزاب کے حملے میں زخمی ہونے
کے بعد زخموں سے جانبر نہ ہو سکنے والی پچیس سالہ ماریہ شاہ کا معاملہ بھی
خواتین کے ساتھ تشدد کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس
عبدالحمید ڈوگر نے ماریہ شاہ پر تیزاب حملے کا ازخود نوٹس لیا تھا۔ سندھ
میں جنوری2005 سے لے کر اپریل 2008 تک تین سال کے عرصہ میں خواتین کے ساتھ
گھریلو بد سلوکی اور خوفزدہ کرنے کے۵۷۷ واقعات پیش آئے۔ اس قسم کے سب سے
زیادہ واقعات کراچی اور دادو میں رونما ہوئے جن کی تعداد فی شہر۶۴۱ کے لگ
بھگ ہے۔ سندھ اسمبلی میں گزشتہ دنوں حمیرہ علوانی کے ایک سوال کے جواب میں
ایوان کو بتایا گیا کہ خواتین کے ساتھ بدسلوکی کے معاملہ میں ضلع میر
پورخاص دوسرے نمبر پر ہے۔ جہاں گھریلو خواتین کے ساتھ بدسلوکی اور انہیں
دہشت زدہ کرنے کے۳ ۹ واقعات پیش آئے تھے۔ سنہ 2005 سے لے کر سنہ 2008 کے
عرصہ میں صوبہ سندھ میں اجتماعی زیادتیوں اور قتل کے ۴۰۱ واقعات ہوئے، جن
میں سے۴۵ واقعات کراچی میں، حیدرآباد میں، اور ۱۴ سکھر میں ہوئے۔ خواتین پر
تشدد کے ان واقعات کو دیکھتے ہوئے حکومت کو اس سلسلے میں کوئی لائحہ عمل
تشکیل دینا چاہئے تاکہ ایسے واقعات میں کمی آسکے۔ ساتھ ہی پولیس کو ان
واقعات کی بھرپور طور پر تفتیش کرنی چاہئے اور عدالتوں میں زیر التوا
مقدمات کا فیصلہ ہونا چاہئے تاکہ معاشرہ میں عدل کا نظام قائم ہوسکے۔ |