مجھے یہ مضمون لکھنے کی ضرورت
ایک آرٹیکل بعنوان خواتین کے ساتھ بدسلوکی پڑھ کر پیش آئی۔ کاروکاری جیسے
مکروہ فعل میں خواتین ہی نہیں پستیں بلکہ مرد حضرات بھی پستے ہیں۔ جب کہا
جاتا ہے کہ پسند کی شادی کے شاخسانے کے طور پر جوڑے کو موت کے گھاٹ اتار
دیا گیا تو اس میں ایک خاتون ہی جان نہیں گنواتی بلکہ ایک مرد بھی جان
گنواتا ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ بالکل نہیں کہ خواتین کے ساتھ زیادتی نہیں
ہو رہی ہے۔ بلکہ جو کچھ خواتین سہہ رہی ہیں وہ ایک نا قابل بیان شرمناک
زیادتی ہے۔ جیسا کہ اجتماعی زیادتی جیسے واقعات پڑھ کر سر شرم سے جھک جاتا
ہے کہ ہم کس قسم کے مسلمان ہیں اور ہم ماشاﺀ اللہ ایک اسلامی ملک کے باشندے
ہیں کہ جسے اسلام کا قلعہ جیسے خطابات سے نوازا جاتا ہے مگر ہم ہیں کہ ہر
وہ مذموم کام لاجواب انداز سے کرتے ہیں کہ جس سے انسانیت بھی شرما جائے۔
اللہ تعالٰی ہمیں ان شرمناک حرکتوں سے باز رکھے اور راہ راست دکھائے آمین۔
ایسے میں مجھے دو واقعات یاد آ رہے ہیں کہ جو میرے آبائی شہر اور ملحقہ
گاؤں میں رونما ہوئے۔ ایک واقعہ میرپور آزاد کشمیر کا ہے۔ یہ ١٩٨٨ کی بات
ہے۔ حبیب الرحمان نامی ایک شخص میرپور کے ایک سیکٹر ایف ون کا رہائشی تھا۔
اسے سیکٹر سی فور کی رہائشی ایک لڑکی سےعشق ہو گیا۔ وہ شادی کےخواہشمند تھے
مگر گھر والوں کی، خاص طور پر لڑکی کے والدین اور بھائیوں کی مرضی نہ ہونے
کی وجہ سے دونوں نے گھر سے بھاگ جانے کا فیصلہ کر لیا۔ چنانچہ وہ گھر والوں
سے چھپ کر بھاگ گئے اور کراچی جا کر کورٹ میرج کر لی۔ ان کے گھر دو بچوں نے
یکے بعد دیگرے جنم لیا ۔ گھر والوں نے انہیں بہت ڈھونڈا مگر کسی کو کچھ پتہ
نہ چلا کہ وہ کہاں چلے گئے ہیں۔ جب ان کے بچے بھی کچھ سال کے ہو گئے تو
دونوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ گھر والوں سے رابطہ کیا جائے ۔ انہیں شاید
یقین ہو چلا تھا کہ اب والدین اور بہن بھائی انہیں کچھ نہیں کہیں گے کہ اب
تو بچے بھی ہو گئے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے پہلے تو لڑکے کے والدین سے رابطہ
کیا۔ وہ تو بہت خوش ہو گئے کیونکہ انہیں اپنے بیٹے سے ملنے کی بہت خواہش
اور تمنا تھی۔ پھر انہوں نے لڑکی کے والدین سے رابطہ کیا بظاہر تو وہ بھی
بہت خوش ہو گئے۔ اسطرح ٹیلی فونک رابطے بڑھ گئے اور لڑکی کے والدین نے زور
ڈالنا شروع کر دیا کہ گھر واپس آ جاؤ اور یہ کہ ملنے کا بہت من کر رہا ہے
اور انہون نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہم نے تم دونوں کو معاف کر د یا ہے۔ جب ان
کے رابطوں میں اضافہ اور تواتر ہو گیا اور ان دونوں کو یہ یقین ہو چلا تھا
کہ واقعی لڑکی کے والدیں اور بھائیوں نے انہیں معاف کر دیا ہے تو دونوں نے
کراچی سے واپس میرپور آزاد کشمیر آنے کا فیصلہ کر لیا ۔ چنانچہ جب دونوں
واپس آئے تو ان کے گھر والوں نے ان کا دل کھول کر استقبال کیا اور ان کو
محسوس تک نہ ہونے دیا کہ ان میں سے کوئی ابھی بھی ناراض ہے۔ واپسی کے بعد
چند ماہ تو آنکھ جھپکتے ہی گزر گئے۔ دعوتوں کی بھرمار اور میل ملاپ کی کثرت
نے شک کی بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ پہلے پہل تو ان کا واپس جانے کا ارادہ تھا
مگر گھر اور سسرال والوں کی آؤ بھگت نے انہیں واپس جانے کے ارادے کو بدلنے
پر مجبور کر دیا۔ جبکہ مکمل اعتماد کی فظا قائیم ہو چکی تھی۔ ایک بار لڑکی
والوں نے اپنی بیٹی کو گھر بلوا لیا۔ کچھ دن گزر گئے تو انہوں نے لڑکے کو
بلا بھیجا کہ آ کر بیوی کو لے جائے۔ جب لڑکا سسرال گیا تو انہوں نے کہا کہ
رات رہ جاؤ صبح چلے جانا کونسا دور جانا ہے۔ تو لڑکا اعتماد کی بنی فضا کے
جھانسے میں رات کو رک گیا۔
دیر رات لڑکی کے بھائیوں نے لڑکی کو سوتے میں اٹھا کر دوسرے کمرے میں بند
کر دیا۔ اور اپنے منصوبے کے مطابق لڑکے کو دوسرے کمرے میں لے جا کر اسکا
منہ بند کر کے اسے وحشیانہ انداز سے تشدد کا شکار کرنے کے بعد اسکے جسم کے
ان گنت ٹکڑے کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا اور پھر اسے بوری میں بند کر کے
اسکے گھر کے باہر پھینک آئے۔ دوسرے دن گھر والے باہر نکلے تو انہیں دروازے
کے پاس بوری میں بند انکے بیٹے کی لاش ناقابل شناخت حالت میں ملی۔ اب وہ
میرپور کے بلال مسجد کے قبرستان میں ابدی نیند سو رہا ہے۔ اور ایسے واقعات
کی پولیس کیسوں کی فائیلیں کب اور کیسے بند ہوتی ہیں یہ تو سب کو معلوم ہے۔
اور دوسرا واقعہ اس سے بھی کہیں زیادہ اندوہناک ہے۔ ضلع میرپور کے ایک گاؤں
کسگمہ میں ایک لڑکی کو اسکے اپنے بھائیوں نے چھرے اور کلہاڑے کے وار کر کے
١٩٩٦ میں قتل کر دیا تھا۔ قصور اس کا کیا تھا کہ اسکے اپنے درندہ صفت سگے
باپ نے اسکے ساتھ ناجائز تعلقات بنا لیے تھے اور جس سے وہ حاملہ بھی ہو چکی
تھی۔ جب اسکے بھائیوں کو معلوم ہوا تو وہ لوگوں کی باتوں اور بدنامی کے ڈر
سے پاگل پن کی حدود کو پار کر گئے اور اپنی بہن کو قتل کر دیا اور پھر
چھوٹے بھائی کو جو کہ انڈر ایج تھا اسکو پولیس کے ہاتھوں یہ کہہ کر گرفتار
کروا دیا کہ معمولی رقم کے لین دین پر طیش میں آکر اس نے بہن کو قتل کر
ڈالا اسطرح انڈر ایج لڑکے کی ضمانت بھی ہو گئی۔ تو بجائے اسکے کہ درندہ صفت
باپ کو سبق سکھاتے اس لڑکی کے بھائیوں نے بہن کو ہی زبح کر ڈالا۔ تو یہ ہے
ہمارے ملک میں انسانی حقوق کی صورت حال۔ اور اسلامیت کا پرچار۔ قصور کسی کا
سزا کسی کو۔
ایسے میں ان واقعات کے ذمہ داروں کو کیا خطاب دیا جائے ۔اور ہمارا معاشرہ
کس نہج پر جا رہا ہے۔ ملک کے اندر شہریوں کو یہ سب سہنا پڑتا ہے اور ملک سے
باہر پاکستان کی جو بدنامی ہوتی ہے سو الگ۔
|