پاکستان اور سری لنکا کے مابین فائنل میچ
جاری تھا، پوری قوم میچ دیکھنے میں مگن تھی، سڑکوں پر ہو کا عالم تھا اور
سب کی نظریں میچ کے نتیجے پر لگی تھیں، ایسے میں ایک شخص موٹر سائیکل پر جا
رہا تھا کہ ایک آوارہ پتنگ کی ڈور نے اس کا شکار کیا اور وہ سڑک پر گر کر
تڑپنا شروع ہوگیا، راہ گےیوں میں سے کسی نے ریسکیو 1122 کو اطلاع کردی،
ریسکیو 1122 سروس سابقہ حکومت کی بداعمالیوں کے باوجود ایک مفید سروس ہے جس
نے ابھی تک اپنی کارکردگی کا گراف گرنے نہیں دیا۔ ریسکیو کا عملہ جاں بلب،
شدید زخمی مریض کو لے کر لاہور کے سروسز ہسپتال کی ایمرجنسی میں پہنچا۔ اس
وقت ایمرجنسی وارڈ میں ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹرز انتہائی انہماک اور جوش و
جذبے سے فائنل میچ ”ملاحظہ“ فرما رہے تھے۔ ریسکیو کے عملہ نے ان سے مریض کو
دیکھنے کی درخواست کی تو ڈاکٹرز نے کوئی توجہ نہ دی۔ ریسکیو کے عملہ کو
زخمی کی حالت کا اندازہ تھا اس لئے انہوں نے دوبارہ ڈیوٹی پر موجود ”فرض
شناس “ عملہ سے مریض کو چیک کرنے کو کہا جس پر ڈاکٹرز طیش اور جاہ و جلال
میں آگئے اور ریسکیو والوں سے توتکار اور گالم گلوچ شروع کردیا۔ اسی اثناء
میں وارڈ کا دوسرا عملہ بھی وہاں پہنچ گیا اور سب نے مل کر ریسکیو کے عملہ
کو زد و کوب کیا۔ مریض کا تو پتہ نہیں کیا بنا لیکن ڈاکٹرز کا طرز عمل کھل
کر سامنے آگیا کہ انہوں نے میچ ادھورا چھوڑ کر ایک شدید زخمی، زندگی اور
موت کی کشمکش کے شکار مریض کو کوئی توجہ دینا مناسب نہ سمجھا۔
پوری دنیا کے ہسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈز میں ہر وقت مستعد اور قابل ڈاکٹرز
اور پیرا میڈیکل سٹاف موجود ہوتا ہے کیونکہ ایمرجنسی میں کسی بھی مریض کی
زندگی اور موت کا معاملہ ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان کے سرکاری ہسپتالوں میں
معاملہ اکثر و بیشتر الٹ ہوتا ہے۔ یہاں یا تو ڈاکٹر صاحبان چائے اور کھانے
سے پیٹ پوجا کرتے پائے جاتے ہیں یا نرسوں سے دل بہلاتے اور گپ شپ کرتے۔ ہم
اکثر دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹرز کے رویے کے خلاف بہت سی شکایات جنم لیتی ہیں اور
بعض اوقات معاملات بہت شدید صورت بھی اختیار کر لیتے ہیں اور ہسپتالوں کے
وارڈز جنگ کا نظارہ پیش کررہے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں اکثر ایسا صرف سرکاری
ہسپتالوں میں ہی ہوتا ہے۔ پرائیویٹ ہسپتالوں میں جانے والے مریض کو نہ صرف
عملہ سے کوئی شکایت نہیں ہوتی بلکہ باقی سٹاف بھی تعاون کرتا ہے۔ متذکرہ
بالا واقعہ ختم نہیں ہوا بلکہ ”الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے“ کے مصداق
”بدمعاش“ ڈاکٹرز نے چوری اور سینہ زوری کی بدترین مثال قائم کرتے ہوئے نہ
صرف ریسکیو کے عملہ کے 50 افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرادی بلکہ اپنا
اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے ان میں سے فوری طور پر 14افراد کو گرفتار بھی
کرا دیا۔ ایک جانب وہ بدقماش ڈاکٹرز ہیں جو مریض کو انسان نہیں بلکہ قربانی
کا بکرا سمجھتے ہیں اور دوسری طرف ریسکیو کا وہ عملہ ہے جو آج کل کے دگرگوں
حالات اور دہشت گردی کے باوجود اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انسانیت
کی خدمت میں مصروف و مشغول ہے۔ انتہائی مجبوری کے عالم میں ریسکیو کے عملہ
کو دیوار کے ساتھ لگنے کے بعد کوئی صورت نظر نہ آئی تو انہوں نے احتجاج کا
راستہ اختیار کیا اور سروسز ہسپتال کے ”مسیحاﺅں“ کے روپ میں ”بدمعاشوں“ کے
خلاف لاہور کے فیروز پور روڈ پر مظاہرہ کیا۔
اس سے پہلے بھی ایسے بہت سے واقعات منظر عام پر آچکے ہیں کہ ڈاکٹرز نہ صرف
مریضوں پر کماحقہ توجہ نہیں دیتے بلکہ احتجاج کرنے والے مریض کے لواحقین پر
تشدد کیا جاتا ہے، مریض کی صحت کے نام پر انہیں بلیک میل کیا جاتا ہے اور
مریضوں کی صحت کے نام پر اپنی جیبیں بھری جاتی ہیں۔ مریضوں کو نہ صرف یہ کہ
انسان نہیں سمجھا جاتا بلکہ ان سے جانوروں کا سا سلوک کیا جاتا ہے۔ ان
”بدمعاش“ ڈاکٹرز کے نزدیک اگر وقعت اور اہمیت ہوتی ہے تو صرف اپنی ذات کی
اور اپنی جیب میں آنے والی رقم کی۔ غلط دوائیاں دینا اور ٹیکے لگانا تو روز
کا معمول ہے۔ جب کسی مریض کا غلط علاج اور غلط دوا سے خدانخواستہ انتقال
ہوجاتا ہے تو لواحقین بھی رو دھو کر اور اللہ کی منشاء سمجھ کر صبر کر لیتے
ہیں۔ اگر کسی اور ملک میں ایسی صورتحال درپیش ہو تو ایسے مریضوں اور ان کے
لواحقین کو لاکھوں ڈالرز بطور ہرجانہ حاصل کرنے کا حق ہوتا ہے لیکن ہمارے
ہاں نہ تو ایسے قوانین موجود ہیں اور نہ ہی عوام الناس کی آگاہی کے لئے
کوئی پروگرام۔ چنانچہ سرکاری عہدیدار چاہے وہ ڈاکٹر ہو یا کسی اور محکمہ کا
کرتا دھرتا، اپنی من مانیاں کرنے میں آزاد ہوتے ہیں۔ ڈاکٹری کا پیشہ کبھی
بہت باوقار اور عزت والا پیشہ ہوتا تھا لیکن آج کل کے نفسا نفسی کے دور میں
اگر کوئی ڈاکٹر کسی سرکاری ہسپتال میں مریض اور اس کے لواحقین سے اچھا برتاﺅ
رکھے اور وقت پر علاج کردے تو اس کی مہربانی سمجھی جاتی ہے۔ ڈاکٹری کا مقدس
پیشہ اس وقت ”مسیحا“ کی بجائے ”بدمعاش“ کا روپ دھارے ہوئے ہے، اس پر سوائے
افسوس کے اور کیا کیا جاسکتا ہے؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈاکٹروں کی تعلیم
کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت بھی کی جائے۔ ایسے ڈاکٹرز کو سرکاری ہسپتالوں میں
تعینات کیا جائے جو خوف خدا بھی رکھتے ہوں اور انسانیت کے لئے ہمدردی بھی!
اور ڈاکٹرز کو بھی سوچنا چاہیے کہ انہیں اس معاشرے میں کیا مقام چاہئے،
”مسیحا“ یا” بدمعاش“؟ |