مذھب کے نام پر خون

سچائیوں کے پھیلانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ امن اور سلامتی کے ماحول میں ہر تعصب سے پاک ہوکر اپنے خیالات پہنچائے جائیں اور ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو دیانت داری کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کی جائے۔جس قدر اختلافات شدید ہوں گے اسی قدر اس معاملہ میں حلم ،بردباری اور متانت اوراس بات کی اشد ترین ضرورت ہو گی کہ مخالفت میں بھی انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے نیز یہ کہ نظریاتی اختلافات پر سیخ پا ہوکر نعرہ ہائے جنگ بلند کرنے کی عادت کو ترک کر دیا جائے۔

لیکن نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں ایسی پاکیزہ اور پر امن فضا کا فقدان ہے ۔پاکستان کی سر زمین میں 1953 اور پھر 1974 میں فرقہ واریت کے جو کڑوے بیج بوئے گئے اور سیاسی طالع آزماؤ ں نے ان کی آبیاری کی ،آج یہ حال ہے کہ سارے ملک میں فرقہ واریت کی خار دار جھاڑیاں پھیل گئی ہیں جن سے لاکھوں افرا د لہولہان ہو ئے اور ملک سے امن اوریکجہتی رخصت ہو گئی ہے ۔

آج عالمی سطح پر مسلمانوں کو دہشت گرد اور جہاد کو جارحیت کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ 16اگست کو اسلام آباد میں پیش آنے والا واقعہ پوری دنیا کو کیا پیغام دے رہا تھا کہ کیا اسلام خدانخواسطہ جبرو تشدد ظلم وستم اور تلوار کے زریعہ پھیلا۔۔ایک مخبوط الحواس شخص دونوں ہاتھوں میں بندوق لہرا لہرا کر اسلامی نظام اور قرآن کے نفاذ کا مطالبہ کر رہا تھا ۔کیا یہ سب پاکستان اور اسلام کی نیک نامی کا باعث تھا،۔؟ہر گز نہیں۔

یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی اسلام دہشت پسندی اور قتل غارت گری کی تعلیم دیتا ہے ۔ ؟ یقینا ایسا نہیں ہے ۔

اسلام کے معنی ہی امن و سلامتی کے ہیں،قر آن کی تعلیمات اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ تو فرد، معاشرہ، قوم اور بین الاقوامی سطح پر صلح و سلامتی کی ضمانت دیتا ہے ۔لیکن پھر یہ فاسد افکار کیسے مسلمانوں کے اذہان میں داخل ہوئے،اور کون اس کا ذمہ دار ہے اسلام کے نادان دوست یا معتصب مستشرقین؟

انسان کی تاریخ خاک و خون میں لتھڑی پڑی ہے ۔ہابیل اور قابیل کے پہلے انسانی قتل سے لے کر آج تک کے بہائے گئے خون کو اگر جمع کیا جائے تو روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کے کپڑے اس خون سے رنگے جا سکتے ہیں۔بلکہ اس سے بھی زیادہ شاید خون بچ جائے اور آئیندہ آنے والی نسلوں کے لباس بھی رنگنے کے لئے کافی ہوں ۔مگر مقام حیرت ہے کہ آج تک انسان کے خون کی پیاس نہیں بجھی۔

یہ خون کبھی عزت و ناموس کے نام پر کئے گئے تو کبھی بغض و عناد کے نام پر، کبھی رزق کی تلاش میں نکلی ہوئی فاقہ کش قوموں نے مظالم ڈھائے اور کبھی محض تسخیر عالم ، جابر شہنشاہوں کا مطمع نظر تھی ،پھر ایسا بھی بہت مرتبہ ہوا کہ یہ خونریزی خدا کے نام پر کی گئی اور مذہب کو آڑ بنا کرسفاکانہ بنی نوع انسان کاخون بہایا گیاکہ جن کے پڑھنے سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

قرآن کریم نہایت ہی لطیف پیرائے میں اور بڑی وضاحت کے ساتھ بار بار مذاہب کی تاریخ کے حوالہ سے یہ ثابت فرماتا ہے کہ مذہب کے نام پر ظلم کرنے والے ہمیشہ یا تو لا مذہب ہوا کرتے ہیں۔یا پھر وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اندر حقیقی مذہب کا شائیبہ بھی باقی نہیں ہوتا اور جن کے مذہب امتداد ِزمانہ سے بگڑ کر کچھ کا کچھ بن چکے ہوتے ہیں یا پھر ایسے مذہبی علماء اس ظلم کے ذمہ دار ہوتے ہیں جن کا مذہب سے تعلق محض نام کا ہوتا ہے اور ان کے دل رو حانیت رحمت ،شفقت اور خدمت خلق کے پاکیزہ مذہبی جزبات سے عاری ہوکر ،چالاکی ،ریاکاری اور سفاکی کی آماجگاہ بن جاتے ہیں۔

پس ایسے مذہبی رہنماؤں کی بد اعمالیوں کومذہب کی طرف منسوب کرنا ،مذہب پر ایک بڑا بھاری ظلم ہے اور حق بات یہی ہے کہ وہ خدا جو تمام رحمتوں کا سر چشمہ ہے کسی مذہب کے ماننے والوں کو اپنے بندوں پر ظلم کی تعلیم نہیں دے سکتا۔چنانچہ قرآن کریم حضر ت نوح علیہ الصلوۃ والسلام سے متعلق فرماتا ہے کہ جب نوحؑ نے دنیا کو ہدایت اور نیکی کی طرف بُلایا تو نوح ؑظالم نہیں تھے بلکہ وہ لوگ ظالم تھے جو بزور بازو نوحؑ ؑکی آواز کو دبانا چاہتے تھے ۔اﷲ تعالی فرماتا ہے کہ ان لوگوں نے حضرت نوح ؑکے پیغام کو سن کر کہا:اے نوحؑ! اگر تم اپنے مذہب سے باز نہ آئے اور اپنا موجودہ رویہ تبدیل نہ کیا تو ضرور سنگسار کر دیئے جاؤ گے ۔(سورۃ شعراء:117)

گویا قرآن کریم کی رُو سے مذہب کے نام پر ظلم سچے مذہب والوں پر ہوا ہے ،سچے مذہب کے ماننے والوں نے نہیں کیا،پھر حضرت ابراہیمؑ کی مثال آتی ہے ۔آپ نے امن و محبت اور ہمدردی اور حلم کے ساتھ دنیا کو خدا کے سچے رستے کی طرف بلایا ان کے ہاتھ میں کوئی تلوار نہیں تھی، تشدد اور ظلم کا کوئی زریعہ کوئی حربہ نہیں تھا ،مگر اس زمانہ کے لامذہب لوگوں نے آپ کو تحقیر اور تمسخرکا نشانہ بنایا ،فتنہ اورمخالفت کی آگ بھڑکائی گئی،اسی طرح حضرت لوط ؑکے وہ منکرین جو مذہب کی حقیقت سے نا آشنا تھے انہوں نے بھی مذہب کا نام لے کر آپ اور آپ کے ماننے والوں پر ظلم ڈھائے،پھر حضرت شعیبؑ کے مخالفین نے بھی یہی طریق اختیار کیا اور حضرت شیعب ؑسے کہا :اے شعیبؑ !یا تو ہم تم کو اور جو لوگ تمہارے ساتھ ایمان لائے ہیں اپنے شہر سے نکال دیں گے یا تم ہمارے مذہب میں ضرور واپس آجاؤ گے۔ ۔(سورۃالاعراف:89 )حضرت شعیبؑ نے فرمایا'' اَوَلَو‘ کُنّا کٰرِھِین''؟کیا اس صورت میں بھی کہ ہمارا دل تمہارے مذہب کی تائید نہ کرتا ہو۔''؟

قتل مرتد کے خلاف حضرت شعیب ؑکی یہ ایک ایسی چٹان کی طرح مضبوط اور ناقابل تردید دلیل ہے کہ آج تک اس کا جواب کسی سفاک سے نہیں بن پڑا کیونکہ ہر انسانی عقل اور ہر انسانی دل اس امر پر ہمیشہ سے شاہد ہے کہ تلوار کو نہ کبھی پہلے دلوں پر حکومت نصیب ہوئی اور نہ کبھی آئندہ ہوگی،مگر ان مظلوموں کو جن کو مذہب کے نام پر مذہب سے نا آشنا راہنماؤں نے مرتد ٹھہرا کر نہ صرف واجب القتل قرار دیا ہے،بلکہ ظلم وستم کی وہ راہیں ایجاد کیں کہ جن کے ذکر سے انسانیت بھی شرما جاتی ہے۔قابل افسوس اور قابل مذمت ہے۔ مذہب کے نام پر ظلم کرنے والے ہمیشہ بے دین ہوا کرتے ہیں اورخدا کے نام پر خدا کی عبادت سے روکتے ہیں چنانچہ اﷲ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے :یعنی ان سے بھی زیادہ ظالم کوئی ہو سکتا ہے کہ خدا کا نام لے کر خدا ہی کی عبادت سے روکتے ہیں اور مسجدوں میں اس کے ذکر کو بلند کرنے سے منع کرتے ہیں اورکوشش کرتے ہیں کہ وہ ویران ہوجائیں ۔)البقرہ:(115

یہ تو گزشتہ انبیاء ؑکے ساتھ انسانی سلوک تھا لیکن جب اُس کامل ظہور کا وقت آیا اورجزیرہ عرب کے اُفق سے وہ ابدی صداقتوں کا سورج طلوع ہوا تو بھی ان بے دین ظالموں نے اپنے تیور نہ بدلے،اُس پاک نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو بھی ایسے دردناک ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا کہ اس کی نظیر تاریخ مذاہب میں نہیں ملتی۔وہ سارے مظالم جو گزشتہ انبیاء پر علیحدہ علیحدہ توڑے گئے تھے اس ایک نبی ﷺ اور اُس کی جماعت پر توڑے گئے مشرکین مکہ کے نزدیک یہ لوگ ''مرتد ''تھے۔تاریخ سے پتہ جلتا ہے کہ آپ اور آپ کے ماننے والوں کو مشرقین صَابی کہا کرتے تھے ،صابی ایسے شخص کو کہتے ہیں جو اپنا آبائی دین کو چھوڑ کر کوئی نیا دین اختیار کرے۔

پاک نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سب نبیوں کے سردار، اور ان کے شیدائی نہایت صبر اور غیر معمولی قوت ِ برداشت کے ساتھ ان مظالم کو سہتے رہے اور اُف تک نہ کی اور اپنے دکھوں ،قربانیوں اور اپنے بہتے ہوئے خون سے یہ ثابت کر دیا کہ ظالم اور فسادی مذہب کے مخالفین ہوا کرتے ہیں ،مذہب کے ماننے والے نہیں۔ مذہب کے نام پر ظلم کرنے والے مذہب کی حقیقت سے ہی نا آشنا ہیں ،مذہب ۔۔کوئی ملک ،قوم نہیں ہے ،مذہب تو وہ پاک روحانی تبدیلی پیدا کرنے کے لئے آتا ہے جو دلوں کی گہرائیوں میں ہوتی ہے اور جس کا تعلق روح کے ساتھ ہے ،کوئی تلوار کوئی جبر اور کوئی تشدد خواہ کتنا ہی ہیبت ناک کیوں نہ ہو دلوں کو تبدیل کرنے کی طاقت نہیں رکھتا،ارشاد باری تعالی ہے کہ کہہ دو کہ حق تو تمہارے رب کی طرف سے آچکا اس کے بعد کسی جبر کا سوال ہی باقی نہیں رہتا ۔ اب تمہیں اختیار ہے چاہو تو ایمان لاؤ چاہو تو ایمان نہ لاؤ(الکہف:30 )

کتنی عمدہ اور پیاری تعلیم ہے ،حیرت ہوتی ہے اس کے بعد بھی لوگ یہ تصور کیسے کر لیتے ہیں کہ مذہب ظلم اور جبر اور تشدد کی تعلیم دیتا ہے۔ ہر شخص ایمان لانے یا نہ لانے کے فیصلہ میں آزاد ہے کوئی کسی دوسرے کو اس سلسلے میں مجبور نہیں کر سکتا۔ دین میں کوئی جبر نہیں ہے دین کے نام پر دکھ دینا حرام ہے۔

افسوس تو اس بات کا ہے کہ آج رحمت العالمین صلی اﷲ علیہ وسلم ہاں اسی امن کے شہزادے کا نام لے لے کر کہ جس نے عرب کی خونی سر زمین سے اپنے خون کی قربانیاں دے کر قتلِ ناحق کو یکسر مٹا ڈالا تھا آج اسی کے ماننے والے بے کسوں کے قتل پر آمادہ کرتے ہیں ،وہ اسی صادق اور امین کی محبت کو انگیخت کر کے جس کے گھر غارت گروں نے لُوٹ لئے دنیا کوغارت گری کی تعلیم دیتے ہیں ،وہ جس نے غیروں اور بدکرداروں کی بیبیوں کی عصمت کی بھی حفاظت کی ،وہ سب حیا داروں سے زیادہ حیادار جو بے حیائی کو یکسر نابود کرنے کے لئے آیا تھا آج اسی کی عصمت مجسم کی ناموس کے نام پر سالہا سال کی بیاہتا عورتوں کو اپنے خاوندوں پر حرام اور غیروں پر حلال کر دیتے ہیں،آج ان مذہبی راہنماؤ ں نے خوداس کا کلمہ پڑھنے والے عابدین کے ایک گروہ کی مسجدوں کے انہدام کے فتوے دیئے اور یہ سب ظلم جسے وہ نبیوں کا سردار مٹانے آیا تھا ،اسی مظلوم نبی ﷺکے نام پر کئے جانے لگے۔کیا کوئی بھی سچا اور حقیقی مسلمان یہ گمان کر سکتا ہے کہ وہ دوسرے کے بزرگوں کی تذلیل اور توہین کرے گالیاں دے ،بہتان لگائے،اور یہ تلقین کرے کہ ان کے مردوں کو بھی قتل کر دواور ان کی عورتوں کو بھی ،کیونکہ فتنہ ارتداد مٹانے کا بس یہی ایک روحانی طریق ہے -

خدارا !اپنے دلوں کو ٹٹولیں اورسوچیں کہ کیا کوئی مسلمان ایک لمحہ کے لئے یہ تصور کر سکتا ہے ؟ نہیں اور یقینا نہیں ۔مجھے اس خدا کی قسم ہے کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور مکہ کی گلیوں کی ایک ایک اینٹ گواہ ہے جن پر مظلوم غلاموں کو ارتداد کی سزا میں مرے ہوئے جانوروں کی طرح گھسیٹا گیا اور صحرائے عرب کی ریت کے سلگتے ہوئے ذرے گواہ ہیں اور وہ جھلسی ہوئی پتھر کی سلیں گواہ ہیں جنہیں ان بے کسوں کی چھاتیوں پر رکھا جاتا تھا کہ یہ اطوار سید ولد آدم ﷺکے اطوار نہیں اور یہ اخلاق اس مقدس رسول ﷺکے ا خلاق نہیں ،اور مجھے قسم ہے اس خدا کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور طائف کی سنگلاخ زمین کا ایک ایک پتھر گواہ ہے جس پر سید ولد آدم ﷺ کا خون ٹپکا تھا کہ میرے مظلوم آقا ﷺنے کبھی مذہب کے نام پر جبر کی تعلیم نہیں دی ۔عفت کے نام پر عصمتوں کے لوٹنے کا حکم نہیں دیا اور عبادت کی آ ڑ میں معبدوں کو مسمار کرنے پر اکسایا نہیں ۔۔پھر کیوں نہ آج میری آنکھ شرم سے جھک جائے اور کیوں نہ میرا دل درد سے بھر جائے کہ اسی مقدس ذات کی طرف منسوب ہونے والے آج بھی ایسے بے درد راہنما موجود ہیں۔
Sadia Islam
About the Author: Sadia Islam Read More Articles by Sadia Islam: 2 Articles with 1695 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.