✕
ARTICLES
Recent Articles
Most Viewed Articles
Most Rated Articles
Featured Articles
Featured Articles - English
Interviews
Featured Writers
HamariWeb Writers Club
E-Books
Post your Article
NEWS
BUSINESS
MOBILE
CRICKET
ISLAM
WOMEN
NAMES
HEALTH
SHOP
More
SHOP
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Calculators
Directory
Photos
Urdu Editor
Travel & Tours
English
اردو
Home
Articles
Recent Articles
Most Viewed Articles
Most Rated Articles
Featured Articles
Featured Articles - English
Interviews
Featured Writers
HamariWeb Writers Club
E-Books
Post your Article
Home
Urdu Articles
Society & Culture Articles
باغبان
(Mudassar Faizi, Lahore)
قدرت نے انسانی رشتوں کی تخلیق کر کے انسانیت پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ جس طرح ایک مالی اپنے باغ کے پودوں کو اگاتا ہے، ان کو پانی دیتا ہے، اپنا وقت، محنت اور پیسہ خرچ کر کے ان کی آبیاری کرتا ہے، اسی طرح شادی کے بعد بچوں کی پیدائش کے بعد ایک باپ بالکل باغبان کی طرح اپنے خون پسینے اور محنت سے کمائی ہوئی رقم خرچ کر کے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کرتا ہے، ان کو زندگی کی تمام سہولیات بہم پہنچاتا ہے، اس کے لئے نہ وہ دن دیکھتا ہے نہ رات دیکھتا ہے، نہ اپنی صحت دیکھتا ہے نہ اپنی ذات، اس کا ہر ہر لمحہ اس فکر میں گزرتا ہے کہ کس طرح وہ اپنے بچوں کی اچھی پرورش کر سکتا ہے، کس طرح ان کو زندگی گزارنے کے لئے دنیا جہان کی نعمتیں دے سکتا ہے۔ اسی لئے تو اللہ تعالیٰ نے بھی باپ اور ماں کو بچپن میں ان کی اولاد کے لئے پالنے والا قرار دیا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی ذات تمام جہانوں کو پالنے والی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اولاد کے لئے والدین خصوصاً باپ کو ایسی ذمہ داریاں سونپی ہیں جس میں ”ربوبیت“ کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی جگہ جگہ والدین کی عزت و تکریم کے حوالے سے ارشادات کئے ہیں، احادیث نبوی میں بھی والدین کے حقوق کا بہت ذکر ہے یہاں تک کہ ایک باپ کو حق دیا گیا ہے کہ وہ تین بار اپنے بیٹوں کے گھر کا مکمل صفایا کر سکتا ہے یعنی جو چیز بھی وہ مانگے اس کا حق ہے اور وہ بیٹے کی اجازت کے بغیر بھی اس کا تمام مال تین بار لے سکتا ہے۔ ہمارے مشرقی اور خصوصاً اسلامی معاشرے میں بھی والدین کے حقوق ادا کرنے کی بہت تاکید کی جاتی ہے۔
کچھ عرصہ پہلے تک ہمارے یہاں فادرز ڈے اور مدرز ڈے منانے کا کوئی رواج نہ تھا کیونکہ اسلامی معاشرے میں ہر دن ہی فادرز ڈے بھی ہوتا ہے اور مدرز ڈے بھی کیونکہ ماں اور باپ سے محبت کوئی ایسا عمل نہیں ہے جو سال میں صرف ایک دن کیا جائے! بہرحال کچھ عرصہ پیشتر تک پاکستان کے عوام کی اکثریت ایسے دنوں کو منانے کے معاملے میں شاید دنیا میں سب سے پیچھے تھی اور خصوصاً راقم کو تو ایسے کسی دن کے دنیا بھر میں منائے جانے کا کچھ علم نہ تھا جب تک کہ برادرم جواد فیضی نے پاکستان سے ہجرت نہیں کی تھی اور جون 2003 میں فادرز ڈے کا کارڈ والد محترم کو نہیں بھیجا تھا۔ میرے والد محترم اپنی زندگی کے آخری ایام میں جواد فیضی اور اس کے بچوں کی دوری کی وجہ سے بہت دل گرفتہ اور اداس رہتے تھے، وہ اکثر ہم سے کہا کرتے تھے کہ ”مجھے لگتا ہے کہ تم سب جواد کے بچوں سے ملو گے لیکن میں نہیں مل پاﺅں گا“ چنانچہ ان کا کہنا سچ ثابت ہوا اور وہ ان بچوں سے ملنے کو ترستے ہوئے، ان کو اپنے سینے سے لگانے کے لئے تڑپتے ہوئے دار فانی سے کوچ کرگئے۔ والد صاحب کی وفات حسرت آیات سے پہلے جو آخری فادرز ڈے تھا اس دن ہم نے ان کو بہت خوش دیکھا، لگتا تھا کہ جیسے کوئی خزانہ ان کے ہاتھ آگیا ہو، جب استفسار کیا گیا تو پتہ چلا کہ آج ان کے چہیتے اور لاڈلے بیٹے کا ”فادرز ڈے“ کے حوالے سے کارڈ موصول ہوا ہے۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ وہ اگلے فادرز ڈے سے پہلے ہی ہمیں غمزدہ کرتے ہوئے اتنا دور چلے جائیں گے کہ نہ واپسی کا کوئی راستہ ہوگا اور نہ امید۔ ہم قیامت تک ان کے محبت بھرے لمس کو ترستے رہیں گے، سسکتے رہےں گے!
آج پھر فادرز ڈے ہے اور میں سوچتا ہوں کہ میرے جیسے کتنے بدنصیب بیٹے ہوں گے جو فادرز ڈے پر کوئی تحفہ نہ دے سکیں گے، کوئی کارڈ نہ بھیج سکیں گے، اپنے والد سے "I Love You" نہ کہہ سکیں گے کتنے بدقسمت ہیں وہ لوگ جن سے ان کے باپ کا سایہ چھن گیا، وہ باغبان چھن گیا جس کے ہوتے ہوئے کوئی غم پاس نہیں آتا، کوئی دکھ پاس نہیں پھٹکتا۔ ہر باپ کی طرح میرے والد صاحب کو بھی مجھ سے بہت پیار تھا.... پیار تو ہر باپ اپنی اولاد سے کرتا ہے، لیکن ان کے پاس اظہار کا سلیقہ اور قدرت تھی۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کسی ضرورت کی چیز بلکہ کسی بھی چیز کا مطالبہ کرنا پڑتا ہو، وہ میری ضروریات سے مکمل آگاہ رہتے تھے، میرے کہنے یا فرمائش کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی اور ہر چیز مجھے مل جاتی تھی۔ بچپن سے سکول، کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران اور اس کے بعد اپنی وفات تک وہ میرے نگہبان بھی تھے اور باغبان بھی۔ میں آٹھویں جماعت میں زیر تعلیم تھا کہ مجھے گردن توڑ بخار ہوگیا، ایک سے ایک بڑے ڈاکٹر کو دکھایا گیا لیکن سب نے یہی کہا کہ بس آپ دعا کریں، حقیقتاً ڈاکٹرز نے مایوسی کا اظہار کردیا تھا لیکن یہ میرے والد محترم کی دعا کی اثر انگیزی تھی، ان کی رقت تھی اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر غیر متزلزل یقین تھا جس کی وجہ سے مجھے نئی زندگی ملی۔ انہوں نے میری بیماری کی حالت میں اللہ تعالیٰ سے منت مانگی کہ ”یا اللہ! تو میرے بیٹے کو صحت یاب کر، میں اسے تیرے گھر کی زیارت اور عمرہ کے لئے لے کر آﺅں گا“ اور انہوں نے حالات سازگار ہوتے ہی ایسا کیا اور مجھے عمرہ کی سعادت حاصل ہوئی! کس کس بات کو یاد کریں کہ حقیقت میں ایک باغبان تھے۔ ہر والد، ہر باپ اپنی اولاد کے لئے باغبان کا درجہ رکھتا ہے۔ یتیمی کی زندگی بہت قابل رحم ہوتی ہے، یہ کوئی ان سے پوچھے جو ایسی زندگی بسر کررہے ہیں۔
مجھے فادرز ڈے کے حوالے سے ایک ٹی وی چینل پر ایک پروگرام دیکھ کر بہت دکھ اور تکلیف سے گزرنا پڑا۔ مغرب کہ جہاں سے ایسے دن منانے کی رسم ہمارے یہاں وارد ہوئی ہے اسی مغرب کی اندھی تقلید میں اب پاکستان میں بھی اولڈ ہوم (دار الکفالہ) بننے شروع ہوگئے ہیں۔ اس میں چند بوڑھے اشخاص کو وہاں زندگی گزارتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اس میں ایک صاحب رو بھی رہے تھے اور اپنی دکھ بھری کہانی بھی سنا رہے تھے کہ کس طرح ان کے جوان بیٹوں نے ان کو اپنے گھر میں رکھنے کی بجائے اولڈ ہوم میں ”جمع “کرا رکھا ہے اور وہ کیسے اپنے پوتوں اور پوتیوں کو دیکھنے کو ترس جاتے ہیں، ان صاحب کی باتیں سن کر روح تک لرز گئی کہ یا الٰہی ایسی اولاد بھی ہے جو اپنے والد کے ساتھ ایسا سلوک کرے؟ کوئی ہم جیسے ”یتیموں“ سے پوچھے کہ والد کی کیا اہمیت اور حیثیت ہوتی ہے، ارے بدبختو! بچو اس دن سے جب تمہارے بچے بھی تمہارے ساتھ ایسا کریں گے؟ اللہ کی لاٹھی بہت بے آواز ہے، اس کے یہاں دیر تو ہو سکتی ہے لیکن اندھیر ہرگز نہیں۔ آج جو بویا جائے گا، کل وہی کاٹا بھی جائے گا۔ اس لئے ڈرنا چاہئے اس وقت سے جب اسی دنیا میں اعمال کا بدلہ دے دیا جائے گا۔ ہمیں چاہئے کہ صرف سال بعد ہی ایسے دن نہ منائیں بلکہ سارا سال اپنے والدین کی خدمت کریں، ان کے دکھ سکھ بانٹیں اور ان کی دعائیں لیں۔ ہر دن کو فادرز ڈے اور مدرز ڈے سمجھیں۔ ہماری دنیا اور آخرت کی بھلائی اسی میں ہے۔
اور آخر میں والد گرامی کے انتقال کے بعد کہے جانے والے چند اشعار
سونی سونی ہر گلی ہے، لٹ گئی ہیں محفلیں
کس طرف دیکھیں کہ اب تو کھو گئی ہیں منزلیں
گلشن ہستی میں پہلے تھیں بہاریں جاں فضائی
اور اب سنسان جنگل، جا چکیں سب بلبلیں
آپ کے ہونے سے کیسے زندگی خوش باش تھی
آپ کے جانے سے لیکن ماند ہیں سب رونقیں
آپ تھے تو دیکھنا بھی حج و عمرے کا ثواب
آپ بن اب عمر بھر کی رہ گئی ہیں خلوتیں
میرے مولا! تیرے آگے کس کی چلتی ہے یہاں؟
کیا تیرا جاتا، اگر تو مان لیتا منتیں؟
اے میرے مالک! تیری مرضی تھی جو کچھ بھی ہوا
غلطیاں سب معاف کردے، دے دے ان کو جنتیں
< PREVIOUS
تیس مار خان
NEXT >
بحیرہ مردار
Facebook
WhatsApp
Pinterest
Twitter
Comments
Print
24 Jun, 2009
Views: 947
About the Author:
Mudassar Faizi
Read More Articles by
Mudassar Faizi
:
212 Articles with 234353 views
Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile
here.
Add Your Article
Article Categories
Politics
سیاست
Society & Culture
معاشرہ اور ثقافت
Religion
مذہب
Other/Miscellaneous
متفرق
Literature & Humor
ادب و مزاح
Education
تعلیم
Health
صحت
Famous Personalities
مشہور شخصیات
Science & Technology
سائنس / ٹیکنالوجی
Novel
افسانہ
Sports
کھیل
True Stories
سچی کہانیاں
Books Intro
تعارفِ کتب
Travel & Tourism
سیر و سیاحت
Career
کیریر
Entertainment
انٹرٹینمنٹ
Kids Corner
بچوں کی دنیا
Poetry
شعر و شاعری
100 Lafzon Ke Kahani
سو لفظوں کی کہانی
Young Writers
نوجوان قلم کار
Arts
ہنر
Military Democracy
سول فوجی جمہوریت
Hamariweb Writers Club
ہماری ویب رائٹرز کلب
Recent
Society & Culture
Articles
بجلی سستی مگر سلیب سسٹم کا جال باقی!
ہم خود کو کیوں نہیں بدلتے؟
ذات پات کا نظام اور ہماری کھوکھلی ہوتی شناخت
اسرائیلی دہشت گردی اور مظلوم نہتے فلسطینی
View all Society & Culture Articles
Most Viewed
(
Last 30 Days
|
All Time
)
پاک سعودی برادرانہ تعلقات، 30,000 فوڈپیکجز انسانی خدمت اور اخوت کی شاندار مثال
بلوچستان میں دہشت گردی!بھارت براہ راست ملوث
کرچیاں
چمن دلوں کا کھلِانے کو عید آئی ہے
The role of media in today's world
CHILD LABOR IN PAKISTAN
Present problems of Pakistan
Short history of pakistan independence (1900-1947)