مساجد بطور کمیونٹی سینٹرز

مساجد میں نماز پڑھنے کے حکم میں صرف عبادات کروانا مقصود نہیں ہے اس کا مقصد مسجد میں نماز پرھنے والوں کا آپس میں تعلق کا مضبوط ہونا بھی ہے اپنے محلے میں نماز پڑھنے والے ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوسکیں اگر ایک نمازی نہیں پہنچا تو اس کی خیریت معلوم کی جائے کہ وہ آج نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں کیوں نہیں پہنچ سکا لیکن بدقسمتی سے ہماری بہت ساری مساجد اذان کے وقت کھولی جاتیں ہیں اور نماز کی ادائیگی کے بعد تالے لگا کر بند کردی جاتی ہیں اس کی کئی جینوئین وجوہات بھی ہیں لیکن اگر مساجد کو بطور کمیونٹی سینٹربھی استعما ل کیا جائے تو اسلامی فلسفے کی تکمیل ہوسکتی ہے جس میں ہمسایوں کی خبر گیری پر بہت زور دیا گیا ہے اور آپس کے انفرادی و اجتماعی مسائل پر بھی مسجد میں بیٹھ کر غور وخوض کیا جاسکتا ہے مثال کے طور پر محلے کا گٹر بند ہے ،ٹرانسفارمر خراب ہے،سٹریٹ لائٹس کام نہیں کر رہیں سمیت دیگر مسائل پر گفتگو کرکے اس کا حل نکالا جاسکتا ہے کسی نمازی کے کوئی مسائل ہیں ان پر مشاورت ہوسکتی ہے محلہ میں کوئی بیوہ ہے اس کے معاملات کو دیکھا جاسکتا ہے اس طرح سفید پوش اور غربا کی امداد بھی ہوسکتی ہے غرضیکہ مسجد اپنے محلے کے لوگوں کو قریب لانے میں مددگار ہوسکتی ہے جبکہ جرائم کے خاتمے،منشیات فروشی،بدکاری کے اڈوں کا خاتمہ بھی با آسانی کیا جاسکتا ہے بلکہ سادگی کو مثال بناتے ہوئے بچوں کی شادیوں کے نکاح اور ولیمے بھی مسجد کے زیر اہتمام کئے جاسکتے ہیں جس سے آپس میں محبت اور بھائی چارہ بڑھے گا بلکہ عین اسلامی شعائر کے مطابق سادگی اور کفائت شعاری کو بھی فروغ ملے گا میں نے ذاتی طور پر برطانیہ میں چرچوں میں شادی کی تقریبات انتہائی سادگی سے انجام ہوتی دیکھی ہیں سارے کام حکومت نہیں کرسکتی ہمیں بھی بطور شہری اپنے حقوق و فرائض کی ادائیگی کا شعور ہونا چاہیے اسی طرح ہم نے قرآن پاک کو بھی بہت ہی زیادہ مقدس اور متبرک قرار دے کر اپنے گھر میں اونچی جگہ پر رکھ دیا جاتا ہے صرف اس سے عقیدت ہی کی جاتی ہے اسے پڑھا نہیں جاتا حالانکہ قرآن مجید وہ کتاب ہے جس میں تمام مسائل کا حل ہے لیکن ہم چونکہ اس دوڑ میں شامل ہیں کہ کون کتنا قرآن پاک پڑھتا ہے جب کہ ہونا یہ چاہیے کہ اسے ترجمے کے ساتھ بھی پڑھا جائے اور اس کی تفسیر پر غور کیا جائے لیکن ہم اس پریکٹس میں ناکام رہے جس کی وجہ سے اسلام کے بارے میں جو کسی نے فرمایا اسی پر اکتفا کرلیا جس کا نتیجہ ہے کہ ہم دین اسلام سے کوسوں دور ہوتے چلے گئے اور آج نوبت یہ ہے کہ ہم نام کے مسلمان ہیں اسلام کے بتائے ہوئے اصول دوسری قومیں اپنا ئے ہوئے ہیں اور ہم اپنے راستوں سے بھٹک کر بربادی کی طرف گامزن ہیں بازاروں میں کوئی بھی بنیادی ضرورت کی چیز خالص نہیں مل سکتی،ریٹس اور وزن پر کوئی کنٹرول نہیں ہے دودھ ،گھی،مصالحہ جات غرضیکہ کسی بھی چیز کو خالص قرار نہیں دیا جاسکتا کیا اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے ؟ اس میں قصور کس کا ہے ہر آدمی پیسے کے پیچھے دوڑ رہا ہے اور اس کے حصول کے لئے ہر جائز و ناجائز حربہ اختیار کیا جارہا ہے اس طرح یہ معاشرہ آگے بڑھ سکتا ہے ؟ معافی چاہتا ہوں مجھے نہیں لگتا ،تو اس کے لئے ہر فرد کو اپنا حصہ ڈالنا ہوگا ۔میں تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام سے گزارش کرتا ہوں کہ جن باتوں پر اتفاق ہوسکتا ہے ان پر پہلے بات کر لی جائے اختلافی معاملات کو بعد میں دیکھا جاسکتا ہے اپنے فرائض کی تکمیل میں فوری طور پر مساجد کی انتظامی کمیٹیوں کو مساجد میں باہمی مشاورت اور اجلاسوں کے انعقاد کے لئے احکامات جاری کریں اور مساجد میں آنے والے نمازیوں سے مشاورت کرکے اس پر عملدرآمد کروایا جائے تاکہ ہم اپنی نئی نسل کو اچھے اخلاقیات اور سادگی کی تعلیم دے کر بہتر مستقبل دے کر جائیں مجھے قوی یقین ہے یہ بہت عظیم قوم ہے اسے اگر کسی سیدھے راستے پر ڈال دیا جائے تو پوری دنیا میں اس کا مقابلہ نہیں کیا جاسکے گا۔ارباب اختیار سے بھی التماس ہے کہ اس کار خیر میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

Ch Abdul Razzaq
About the Author: Ch Abdul Razzaq Read More Articles by Ch Abdul Razzaq: 27 Articles with 21396 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.