صوبہ بلوچستان میں تعلیمی انقلاب

بلوچستان ، پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جو کہ پورے ملک کے تقریباََ 44 فی صد حصّے پر مشتمل ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس میں سے صرف 5 فی صد حصّے پر آبادی پائی جاتی ہے۔ باقی کا حصّہ خشک اور چٹیل پہاڑوں پر مشتمل ہے جن کے سینوں میں معدنیات کا بیش بہا قیمتی خزانہ دفن ہے۔ایک جانب یہی خزانہ اس صوبے کا اصل زر تصور کیا جاتا ہے جب کہ دوسری جانب گوادر کا ساحلی علاقہ ہے جو 750کلو میٹر طویل پٹی بناتا ہے اور تاحال تعمیراتی مراحل سے گزر رہا ہے۔ اگرچہ گوادر پورٹ کی تعمیر میں کسی حد تک تیزی دیکھنے کو ملتی ہے لیکن بہر صورت ابھی بہت کچھ ہونے کو باقی ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال یہ صوبہ معیشت کی شہ رگ بن سکتا ہے لیکن غیر ملکی عناصر کی چیرہ دستیوں کے سبب کئی مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ ان حالات میں افواج پاکستان جہاں اندرونی وبیرونی سلامتی کو ہر قیمت پر یقینی بنانے کے عزم کے ساتھ گامز ن ہیں اور دشوار راستوں اور کٹھن حالات میں نہ صرف اپنے معمول کے فرائض انجام دے رہے ہیں بلکہ وہاں ترقیاتی پروگراموں میں بھی پیش پیش ہیں۔ سڑکوں کا لامحدود جال بچھایا جا چکا ہے، دوردراز علاقوں میں طبی سہولیات مہیا کی جارہی ہیں، سکولوں اور کالجوں کی اپ گریڈیشن کے ساتھ ساتھ پاک فوج کے زیر انتظام بہت سے تعلیمی اداروں میں طلبہ و طالبات کو ہر سہولت بہم پہنچائی جارہی ہے۔ فنی علوم پر خاص توجہ دی جارہی ہے ۔ اب تو بہت سے نوجوان اپنی تعلیم پوری کرکے صوبے اور ملک کی ترقی میں براہ راست اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ سب سے اہم پیش رفت صوبے کے نوجوانوں کی پاک فوج میں شمولیت ہے۔ صوبہ بلوچستان کی زمینی ساخت اور حالات ایسے ہیں کہ وسیع ترین رقبے پر خال خال آبادی نے وسائل کی بروقت پہنچ کو مشکل کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتی ادارے تمام تر نیک نیتی کے باوجود قدرے آہستگی سے ترقیاتی عمل کو پورا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔لیکن افواج پاکستان نے اس سلسلے میں یہاں کئی اہم اقدامات کیے جن کی بدولت معاشی ضرورت کی اساس تعلیم کی سہولیات کو بہتر بنانے میں کافی زیادہ مدد حاصل ہوئی۔ یوں تو فوج بلوچستان میں کئی اہم ترین ترقیاتی کاموں میں بھرپور کردار ادا کرتی نظر آتی ہے جس میں خصوصی طور ہر چمالانگ کوئلے کی کانوں میں ازسرنوکُھدائی کا کام اوروہاں کے لوگوں کے لیے بنیادی سہولیات کا بہم پہنچانا، دیگر مقامات پر طبی سہولیات ‘ بھرتی کے اقدامات اور تربیتی اداروں کا قیام تک بھی اہم پیش رفت ہیں جو بہرصورت مجموعی طور پر صوبے میں حکومت اقدامات کے ساتھ ساتھ کئی قابل قدر نتائج حاصل کرنے میں معاون و مدد گار ہیں۔
حالیہ سیلاب ہوں یا موجودہ امن عامہ کی صورت حال، پاکستان فوج نے صوبے میں قابل قدر اقدامات کیے ہیں۔جن میں بلوچستان کی نوجوان نسل اور تعلیمی اقدار میں بہتری کو سر فہرست رکھا گیا ہے کیوں کہ اس بات سے انکار کسی طور بھی ممکن نہیں کہ تعلیم سے حالات سنورتے ہیں اور تعلیم سے ہی قو موں کی تقدیریں بدلتی ہیں۔حال ہی میں 110 کے قریب سکولوں کی نئے سرے سے تزئین و آرائش کا کام ہنگامی بنیادوں پر مکمل کیا گیا۔ مجموعی طور پر صوبے بھر میں تیس سے زائد پاک فوج کے براہ راست زیرانتظام سکولوں میں تقریباً بیس ہزارطلباء زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں ۔جب کہ ایف جی کے سکولوں میں چھ ہزار سے زائد طلباء زیرتعلیم ہیں جو کہ فو ج کے زیرنگرانی کام کرتے ہیں۔ یہاں ایک بات قابل قدر ہے کہ آرمی پبلک سکول اور فرنٹیئر پبلک سکول مجموعی طور پر لگ بھگ سات ہزار بچوں کو سو فی صدمفت تعلیمی سہولیات بہم پہنچارہے ہیں جب کہ فرنٹیئر کور قریب 22طلباء کو ملک کے بہترین تعلیم اداروں میں تعلیم دلوا رہا ہے جن کے مکمل تعلیمی اخراجات وہ برداشت کرتے ہیں۔ ان اداروں میں HITEC ٹیکسلا‘ ملٹری کالج مری‘ کیڈٹ کالج پٹارواور صادق پبلک سکول بہاول پور جیسے اہم تعلیمی ادارے شامل ہیں۔ پاک فوج کی جانب سے نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ایجوکیشن(NAVTEL) کے تعاون سے بلوچستان انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن (BITE) کا اجرا بھی ایک بڑا قدم ہے جس سے صوبے کی بے روزگار نوجوان نسل کو ہنر سیکھنے کے مواقع میسر آ رہے ہیں جو بے روزگاری کو ختم کرنے میں اہم ثابت ہو رہے ہیں۔اسی سلسلے کی ایک اور کڑی ’گوادر انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن‘ (GITE) بھی ہے جس کی تعمیر کا کا م تر جیحی بنیادوں پر جاری ہے۔

پاک فوج کے بھرتی پروگرام نے خاص طور پر بلو چستان کے نو جوانوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ کوئٹہ ، ژوب، خضدار، سبی، سوئی، اور کشمور کے اضلاع کے بہت سے نوجوان کامیابی سے تربیتی امو ر مکمل کر کے پاک فوج میں شامل ہوئے۔ اس عمل سے جہاں نوجوانوں کو اگلی صفوں میں رہ کر وطن عزیز کی حفاظت اور محبت کا عملی مظاہرہ کرنے کا موقع میسر آئے گاوہاں با عزت روز گار بھی ملا جس سے کئی کنبے بھی مستفید ہوں رہے ہیں۔ بلو چستان میں رقبہ اتنا زیادہ ہے اور آبادی ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر اتنی دور دور تک پھیلی ہوئی ہے کہ ان تک پیغام رسانی مشکل کام ہے۔ بھرتی کے عمل کو بہتر بنانے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پیغام کی تر سیل کے لیے مختلف ذرائع کا استعمال کیا گیا ہے جس میں اشتہارات ، اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کا استعمال بے شک اہم رہا لیکن یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاک فوج کی مو بائل ٹیموں نے دور دراز علاقوں میں جاکر نوجوانوں کو بھرتی میں جو کردار ادا کیا وہ سب پر سبقت لے گیا۔ بھر تی کے اس عمل کو آسان بنانے کے ساتھ ساتھ بلو چستان کے لیے خصوصی رعائتیں بھی دی گئی ہیں۔ بلوچستان سے بھرتی ہونے والے ریکروٹس کو سب سے بڑی رعایت ان کو اپنے ہی علاقوں میں تربیت کی سہولت کا میسر کرنا شامل ہے یہی وجہ ہے کہ بلو چستان بھر میں بھرتی کا آغاز ایک ہی وقت پر کیا جا تا ہے اور پھر بھرتی ہونے والے نو جوانون کی اضلاع میں ہی قائم تربیتی اداروں میں بنیادی تربیت دے کر پاک فوج کے دستوں میں شامل ہونے کا موقع میسر آجا تاہے ۔پاکستان آرمی نے بلو چستان کے نوجوانوں باقاعدہ طور پر پاک فوج کی اگلی صفوں میں شمولیت دینے کے لیے ’ انٹر سروسزسلیکشن بورڈ‘ (ISSB) کی ایک ذیلی شاخ کا قیام کوئٹہ میں عمل میں لایا ہے جو بہت جلد مکمل سنٹر کی شکل اختیار کر لے گا۔

بلوچستان میں ’’سوئی ایجوکیشن سٹی‘‘ کے قیام کا اعلان بلوچستان کی عوام کے لیے پاک فوج کی جانب سے ایک بہترین تحفہ ہے جس میں ملٹری کالج کے ذریعے براہ راست بچوں کو پاک فوج میں کمیشن حاصل کرنے میں مدد ملے گی اور صوبہ بلوچستان کی نوجوان نسل جہاں وطن عزیزکی سرحدوں کی حفاظت اور ملک دشمن عناصر کے قلع قمع کے لیے قابل فخر قومی ادارے کا حصہ بن پائیں گی وہاں قبل عزت ذریعہ معاش بھی میسر آئے گاجس سے لامحالہ بے روزگاری میں کسی حد تک کمی آئے گی۔ اس حقیقت کو پیش نظر رکھیں کہ بلوچستان کی نوجوان نسل پاک فوج کے دستوں میں شامل ہو کر ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ سے سرشار ہے جس کا ثبوت گزشتہ کچھ عرصے میں ہونے والی ریکروٹوں کی بھرتی اور قریب چار ہزار کی پاسنگ آؤٹ پریڈ ہے جبکہ اسی تناسب سے کئی نوجوانوں نے کمیشن بھی حاصل کیا اور آج پاک فوج کی قیادت میں شامل ہیں۔پاک فوج میں آئندہ بھرتی کے اہداف اس سے کئی زیادہ ہوں گے۔ افواج ِ پاکستان کے اِن اقدامات سے بلوچستان کے دوردراز علاقوں میں ترقی وخوشحالی کی نئی راہیں کھلیں گی جو یقینا پاکستا ن کی خوشحالی کا بھی پیش خیمہ ثابت ہونگی۔
Prof Afraz Ahmed
About the Author: Prof Afraz Ahmed Read More Articles by Prof Afraz Ahmed: 31 Articles with 21131 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.