ماہ صیام رخصت ہوا کتنے مبارک
نفوس ایسے ہونگے جنہوں نے اپنے رب کو راضی کرنے کے لیۓ اپنی کمر کس لی تھی
اور رات دن ایک کر اور ربّ کریم کے رحمت کے جوش مارتے ہوے سمندر میں غوطہ
کھا کر اپنی خلاصی کا پروانہ حاصل کر لیا ہو،در اصل رمضان المبارک کا مقصد
مسلمان کی تربیت( Training) ہے اﷲ ربّ العزت کا کرم اور اس کی رحمت کا کیا
کہنا سال میں ایک بار سارے سرکش شیاطین کو بیڑیوں میں جکڑ کر اور اپنے
خصوسی رحمت کے دروازوں کو کھول کر ایمان والوں کو بھلای اور نیکی کی طرف
رغبت دلاتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ مسلمان ساری زندگی صرف اسی کے حکم پر چلے
اور اسی سے ڈرنے والا بن جاے،یعنی(۔۔۔۔۔لعلکم تتقون)
حقیقت میں ا ﷲ ربّ العزت اپنے بندوں سے وہ مطالبہ پورا کرانا چاہتا ہے جو
الست بربّکم سے لیا گیا تھا۔ یعنی کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ پھر
انسان کو دنیا میں بھیجااور اس کی یادہانی کے لیٔے انبیا ء و رسول کوبھیجتا
رہا اور اخیر میں انسان کو اپنا وعدہ یاد دلانے کے لیٔے سرورکونین فخر
موجودات محمدﷺ کو ساری انسانیت کے لیٔے پیغمبر بنا کر مبعوث فرمایا،پیارے
نبیﷺ نے اس بات کو پھر سے سب سے پہلے ان سرکش انسانوں کے سامنے رکھّی جو اﷲ
کی ساری حدوں کو توڑ چکے تھے، اور وہ سرکشی کی ایسی راہ اپنا چکے تھے کہ
دنیا کا کویٔ حکمراں ان پر حکومت کرنے کے لیٔے تیار نہ تھا، ساری براییٔوں
کی جڑ شراب ان کی گھتی میں پڑی ہوی تھی،کون جتنی پرانی شراب رکھتا وہ اس پر
ٖفخر کرتا۔جوے ٔکے اتنے شوقین کے اس میں اپنی بیوی پچوں کو بھی ہار جانا ان
کے لیے کوی عیب و ذلت کی بات نہ تھی ،غرض یہ انسان انسانیت کا انمول سبق
بھولیے ہوے تھے ؛آپﷺ اﷲ کے حکم سے انہیں ا س دلدل سے نکالنا چاہا اور
یجھنجھوڑ تے ہوے صدا بلند کی اور فرمایاقولو لاالہ اﷲ تفلحو ۔۔۔۔یعنی ازل
میں لیے گے اقرار نامہ کو ر پھر سے پوری قوت و حکمت سے یاد دلایا اور
فرمایا قولو لاالہ اﷲ تملکو عرب و لعجم یعنی لاالہ اﷲ کے اس مطالبہ کوپورا
کرنے پر عرب و عجم کے مالک بن جاو گے،خلاصۂ کلام یہ تھااگر دونوں جہانوں
میں کامیبابی و کامرانی یا عزت و تکریم ۔چین و سکون چاہتے ہو تو اس بات پر
سر تسلیم کر لو پھر دنیا کے سامنے تمہیں جھکنا نہیں پڑیگا، گویا کے ایک
پیکیج تھا یاپیشنگویٔ تھی جو بھٹکی ہوی انسانیت کو خالقِ کایٔنات کی طرف سے
محمد ﷺ کی زبانی سنای گیٔ تھی شرط صرف دو کلمہ کا اقرار کرنا تھا یعنی ایک
اﷲ کی مانا اور محمد صلم کے نقشِ قدم یا طریقے کو اپنانا ؛یعنی دوسرے لفظوں
میں یہ کہا گیا تھا من مانی زندگی چھوڑ کررب چاہی زندگی محمد صلم کے طریقہ
پر اختیار کرنا اور اس تحفہ کو لے لینا کے یہ دنیا تمہاری ہے اور یہ تمہارے
اشارے پر چلے گی ۔۔اورشرط کا دوسرا جز تھامحمد رّسول اﷲ۔۔
اور ہاں دنیا نے دیکھا کہ آپ صلم کے صحابہؓ نے اس کلمہ کے مقصدو مطالب کو
سمجھا اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے میں اپنے نبی کے اشاروں پر چلنے لگے
تو کیا ہوا ؟دنیا کی کویٔ قوت ان کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکی ،تاریخِ
انسانی نے اس منظر کو بھی دیکھا کے ان کے درمیان نہ پہاڑ حایٔل ہو سکے نہ
دریا اور نہ ہی جنگل کے خونخوار جانور،مطلب یہ تھا کے انہوں نے اپنی مرضی
کو اﷲ کی مرضی پر ڈال دیا ، تو اﷲ نے بھی دنیا کو انہیں کی مرضی پر چلایا،
دراصل ہر سال رمضان المبارک کی امد کا مقصد بھی یہی وہ پیغام ہے کہ مسلمان
پوری زندگی اسی طرح گزارے جس طرح رمضان المبارک میں گزرتا ہے،کہیں مسلمان
اپنی دنیوی اغراض میں پڑ کر مقصد کوبھول نہ جاے،اﷲ ربّ العزّت کی شانِ
کریمی کا کیا کہنا کہ وہ مسلمان کو بار بارایسے مواقع فراہم کر کے سنبھلنے
کا موقع دیتا ہے، کامیاب ہوا وہ شخص جو اسے غنیمت سمجھ کر اپنی زندگی کے رخ
کو درست کر لیا،ورنہ مقصد فوت اور حلاکت ہے اللھم حفظنا منہم۔
بس اسی کو شاعر مشرق علاّمہ اقبالؒ نے اپنے اس شعر میں نہایت ہی بلیغ انداز
میں مسلمانوں کو پیغام دیا ہے
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں ،
یہ جہان کیا چیز ہے لوح و قلم تیرے ہیں |