ž+خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات و ثقافت شاہ فرمان نے
دعوی کیا ہے کہ صوبے میں سنسر بورڈ کے قیام کیلئے جلد قانون سازی کی جائے
گی۔ان کے مطابق سنسر بورڈ کے قیام کیلئے ایک ڈرافٹ بل تیار کرلیا گیا جو
کابینہ کی منظوری کے بعد اسمبلی میں قانون سازی کیلئے پیش کردیا جائے
گا۔18ویں ترمیم سے قبل موشن پکچرز آرڈنینس کے تحت صوبے میں سنیماؤں میں پیش
کی جانے والی پکچرز کیلئے وفاقی بورڈ سے اجازت ضروری تھی لیکن اٹھارویں
ترمیم کے بعد یہ اختیار صوبوں کو تقویض ہوگیا۔نئے قانون کے تحت صوبوں کی
ذمے داری ہے کہ وہ سنسر بورڈ کے تحت بننے والی فلموں اور سی ڈی ڈراموں کی
مکمل نگرانی کرے۔سندھ میں سنسر بورڈ بنایا چاچکا ہے اور سندھ سنسر بورڈ نے
اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے دیگر صوبوں میں بھی فلموں کی نمائش کیلئے
این او سی جاری کئے۔ سندھ سنسر بورڈ پہلے تو اس بات سے انکار کرتا رہا کہ
وہ کراچی(سندھ) سرکٹ کے علاوہ کسی دوسرے صوبے کو این او سی جاری نہیں کرتا
، لیکن عید پر جاری ہونے والی فلموں میں جب ان ہی کالموں میں پشتو فلموں
میں فحاشی و ثقافت کے خلاف آواز بلند کی گئی تو سندھ سنسر بورڈ کے ایک
اعزازی رکن کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا۔بذات خود اس رکن کو جنھیں پشتو
بھی نہیں آتی، اس بات کا زعم ہے کہ چونکہ وہ واحد" پختون" رکن ہیں اس لئے
ان کے بغیر کسی بھی پشتو فلم کو این او سی جاری نہیں ہوسکتی،عملی طور پر ان
کی بات درست بھی تھی ، چونکہ سندھ سنسر بورڈ میں کوئی دوسرا ایسا کوئی رکن
ہی نہیں جو خود کو "پختون" ہونے کا دعوے دار کہلاتا ہو ، تاہم جب میں نے ان
سے اس بات پر استفسار کیا کہ پشتو فلموں کو سندھ سے باہر نمائش کیلئے این
او سی کیوں جاری کئے تو موصوف یکسرمنکر ہوگئے اور ان کا لب و لہجہ کرخت اور
غیر مہذبانہ ہوگیا ، تاہم خیبر پختونخوا میں وزرات داخلہ کی جانب سے جب
پانچوں پشتو فلموں پر پاندی عائد کی گئی تو میڈیا میں یہ واضح طور پر سامنے
آیا کہ سندھ سنسر بورڈ نے ان فلموں کو این او سی جاری کیا ہے، الیکڑونک
میڈیا نے فلمسازوں کے انٹرویو اور سندھ سنسر بورڈ کی جانب سے جاری کردہ این
او سی آن ائیر کئے تو جھوٹ کا پردہ فاش ہوا صرف یہی نہیں بلکہ خیبر
پختونخوا کے علاوہ ، پنجاب میں بھی پشتو فلم" لوفر "، جس کی اردو ڈبنگ"
ڈرٹی گرل"کی نام سے کی گئی ایسے بھی سندھ سنسر بورڈ نے ہی این او سی جاری
کی تھی ، لاہور ہائی کورٹ میں ڈرٹی گرل پر بھی پابندی عائد کی ۔سندھ سنسر
بورڈٖ کی جانب سے پختون ثقافت کے خلاف فحش فلموں کے اجازت ناموں کے اسیکنڈل
کے بعد خیبر پختونخوا حکومت پر دباؤ بڑھایا گیا کہ وہ اس سلسلے میں قانونی
قدم اٹھائے ، خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات و ثقافت شاہ فرمان نے اب یہ
عندیہ دیا ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت ماضی کے برخلاف روایت شکن عمل اپناتے
ہوئے صوبے میں پشتو فلموں ، ڈراموں اور سی ڈی بنائے جانے والے پرگراموں
کیلئے سنسر بورڈ تشکیل دیگا ۔جب تک خیبر پختونخوا میں قانون سازی کا عمل
مکمل نہیں ہوجاتا ، اس وقت تک موشن پکچرز آرڈنینس 1979ء کے تحت فلمساز
نمائش کیلئے وفاقی سنسر بورڈ سے این او سی حاصل کریں گے۔پشتو فلموں ، سی ڈی
ڈراموں اور شوز میں فحاشی کے بڑھتے طوفان کے خلاف اگر خیبر پختونخوا کی
حکومت موثر قانون سازی اور باقاعدہ طریقہ کار اپنانے و رائج کرنے میں
کامیاب ہوجاتی ہے تو یہ پختون قوم پر ایک احسان ہوگا کہ وہ ایسے عناصر سے
چھٹکارہ پا سکتے ہیں جو پختون ثقافت کی پوری دنیا میں رسوائی کے سبب بن رہے
ہیں۔ماضی میں صوبہ خبیر پختونخوا سے پختون روایات کے خلاف اور اقدار سے
متصادم مواد ختم کرنے کے بڑے دعوے کئے گئے تھے لیکن اس پر عمل درآمد ممکن
نہیں ہوا اور بے حس ضمیر وطن فروش عناصر کی وجہ سے پختون قوم کو سبکی اور
شرمندگی کا مسلسل سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔پختون روایات و اقدار کے نام پر
سیاست کرنے والوں نے تمام تر تنقید کے باوجود سنسر بورڈ اور قانون کی عمل
داری خواب شرمندہ تعبیر کرنے کے بجائے اپنے سینما ؤں کے کاروبار اور دوستوں
کو نوازنے اور خوش کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات
و ثقافت شاہ فرمان اگر ماضی کے مقابلے میں موجودہ حالات میں جلد از جلد
ایسے سنسر بورڈ کا قیام عمل میں لائیں ، جو پختون اقدار کے خلاف بننے والی
فلموں اور پشتو فلموں میں دیکھائے جانے والے فحش گانوں کیساتھ ساتھ ، سی ڈی
پر تیار ہونے والے ڈراموں ، مجروں ، بیرونی ملک منعقد کئے جانے والے مجروں
کی حوصلہ شکنی کیلئے ایسے افراد کا انتخاب کریں جو صدیوں سے اپنی ثقافت پر
ناز کرنے والی قوم کے امین ثابت ہوسکیں۔ اگر سندھ سنسر بورڈٖ کی طرح ، شراب
خانوں کے اڈے کے مالکان کے بینر تلے بننے والی فلموں کو این او سی جاری
کرتے رہے تو پھر تبدیلی کے نعرے کے بجائے تحریک انصاف کو ضمنی انتخابات میں
عوامی رجحان اور اہل دانش و سول سوسائٹی کا نوشتہ دیوار پڑھ لینا
چاہیے۔تاہم اس بات کا قوی امکان ہے کہ تحریک انصاف کے ساتھ اتحادی جماعت ،
جماعت اسلامی جو ایک مذہبی جماعت ہونے کا دعوی کرتی ہے ، وہ اس سلسلے میں
اپنی اتحادی جماعت پر دباؤ بڑھانے کے لئے مثبت کردار ادا کریگی۔فحاشی اور
لغو باتوں پر اسلام میں ویسے ہی پابندی ہے ، تاہم فلموں اور ڈراموں کے
حوالے سے موجودہ حالات میں مکمل بندش کے بجائے اجتماعی اصلاح کیلئے جدید
ٹیکنالوجی کا استعمال وقت کی اہم ناگزیز ضرورت بن چکا ہے۔فحش اور عریاں
مناظر و بے باک رقص سے مزین عکس بندی پر مکمل پابندی عائد ہونے میں ہی فلاح
کا راستہ پنہاں ہے، ثقافت کے نام پر اسلام کی دھجیاں بکھیرنے کی اجازت دینا
بذات خود ناپسندیدہ اقدام ہے جس کی پزیرائی ، مغرب کی تقلید میں نہیں کی
جاسکتی۔وفاقی سنسر بورڈ کی جانب سے ماضی میں جس طرح پشتو فلموں میں فحش
مناظر اور پختون اقدار کے خلاف سازشوں پر خاموشی سے این او سی جاری کئے
جاتے رہے ہیں، اس حوالے سے خیبر پختونخوا حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر قانون
سازی کرنا ہوگی۔کیونکہ جس طرح سندھ سنسر بورڈ میں پختون روایات و اقدار اور
زبان سے ناواقف بورڈ نے اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے اگر یہ سلسلہ
مستقبل میں بھی جاری رہا تو آنے والی نئی نسل اپنی ثقافت ، چرسی ، بھنگی
لالییا ، لوفر ، پخاوری بدمعاش،جیسی فلموں میں تلاش کرتے رہے گی۔پشتو فلموں
میں فحش شاعری پر مبنی گانے ، روایتی نظموں و ترانوں کی جگہ لے لیں گے اور
ایک غیور قوم کے نوجوان کا امیج ، کھلے گریبان، اونچے پائنچوں ، تیڑھے
میڑھے چلنے ، ہاتھ سے ہر وقت لعنت دینے کے اسٹائل ، ہاتھ میں شراب ،چرس کی
سگریٹ اوربغل میں طوائف کے ساتھ عیاش شخص کا ابھرے گا۔یقینی طور پر خیبر
پختونخوا کی حکومت پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پختون قوم کی ثقافت
کے احیا ء اور باکردار نوجوان کیلئے عملی اقدامات اور ثقافتی ورثے کی حفاظت
کرے۔ |