مراقبۂ شکر

تحریر: مولانا محمد مسعود ازہر حفظہ اﷲ
اﷲ تعالیٰ’’شکر‘‘ کی توفیق عطاء فرمائے…… ایسی توفیق کہ ہم دل سے پکار اٹھیں:
الحمدﷲ، الحمدﷲ، الحمدﷲ رب العالمین

ایک بار دبئی میں ایک تاجر کو دیکھا،وہ ہم مہمانوں کو بھی نمٹا رہاتھا اور ساتھ ساتھ اپنے فون کے ذریعہ کاروبار بھی چلا رہا تھا……موبائل کا دور آیا نہیں تھا، تار والا فون تھا اور وہ حیرت انگیز تیزی سے نمبر ملاتا تھا…… پھر ایک اﷲ والے کو دیکھا وہ ہم مہمانوں کو بھی نمٹا رہے تھے، مکہ مکرمہ کے ایک چھوٹے سے ہوٹل کا کمرہ تھا…… وہ بہت اچھی اچھی باتیں فرماتے اور ہماری بھی سنتے مگر جیسے ہی ان کی بات پوری ہوتی تو ان کی زبان اُن کے تالو سے ٹکرانے لگتی:
اﷲ، اﷲ، اﷲ، اﷲ ،اﷲ
نہ ہاتھ میں تسبیح اور نہ ذکر کا اظہار، بس چپکے چپکے اپنا کاروبار چلا رہے تھے اور آخرت کا نفع کما رہے تھے…… پھر ایک اور بزرگ سے ملاقات ہوئی وہ مہمانوں کو یوں نمٹاتے کہ ساتھ ساتھ اُن کا ’’کاروبار‘‘ بھی چلتا رہتا…… ملتے ہی فرماتے……
دیکھونا! اﷲ سائیں نے ملا دیا…… الحمدﷲ، الحمدﷲ…… اکثر جملوں کے ساتھ دو بار الحمدﷲ، الحمدﷲ…… جو لوگ’’ الحمدﷲ‘‘ کا معنیٰ اور مقام سمجھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اس مبارک اور اونچے کلمے کو پڑھنا کتنی نفع بخش تجارت ہے……
آئیں ہم بھی پڑھ لیں……
الحمدﷲ، الحمدﷲ……الحمدﷲ رب العالمین
کسی نے بہت پہنچی ہوئی بات کہی کہ…… الحمدﷲ پڑھنے سے بنددروازے کھلتے جاتے ہیں…… مالک حقیقی نے خود فرمایا…… تم شکر کرو گے تو میں زیادہ دوں گا…… دنیا میں اس وقت پانچ ارب سے زائد انسان’’کلمہ طیبہ‘‘ سے محروم ہیں…… اور اﷲ تعالیٰ نے ہمیں اپنے فضل سے یہ مبارک کلمہ’’لاالہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ نصیب فرما دیا…… اس عظیم اور انمول نعمت پر تو پڑھ لیں……
الحمدﷲ، الحمدﷲ……الحمدﷲ رب العالمین……
صرف تین بار الحمدﷲ پڑھنے سے …… عام نہیں خاص الخاص قسم کی نوے نیکیاں ملتی ہیں…… اور پھر الحمدﷲ قرآن پاک کی آیت مبارکہ بھی ہے…… اور قرآن پاک کے ہر حرف کوپڑھنے سے دس نیکیاں ملتی ہیں…… اور صرف’’الحمد‘‘ میں پانچ حرف ہیں اور پھر بڑی اونچی بات یہ ہے کہ…… سب سے افضل دعاء’’الحمدﷲ‘‘ ہے اور دعاء…… تمام عبادتوں کا اصل اور مغز ہے…… پڑھیں! پڑھیں! شکر میں ڈوب کر پڑھیں!……
الحمدﷲ، الحمدﷲ……الحمدﷲ رب العالمین……
مجھے معلوم ہے کہ آپ سب دکھی ہیں اور غمگین…… شام کے مسلمانوں پر کیمیاوی ہتھیاروں سے حملہ ہوا……مصر کا خون دریائے نیل کو سرخ کر رہا ہے…… اور امت مسلمہ لہو لہو ہے……مگر ہم مسلمانوں کے پاس اپنے رب کی ایسی ایسی نعمتیں ہیں کہ انتہائی دُکھی حالت میں بھی وہ…… ہمیں مایوس نہیں ہونے دیتیں…… کیا آج آپ نے فرض نمازیں اداکیں؟…… فرض نمازیں اتنی بڑی، اتنی اعلیٰ اور اتنی قیمتی نعمت ہے کہ مرتے ہی انسان کو اس نعمت کی قدر آجائے گی…… جب جہنمی کہہ رہے ہوں گے ہمیں اس لئے آگ جلا رہی ہے کہ…… ہم نمازیں نہیں پڑھتے تھے، ہم مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے…… لم نک من المصلین…… تب نماز کی نعمت پانے والے کہیں گے……
الحمدﷲ، الحمدﷲ، الحمدﷲ،الحمدﷲ رب العالمین……
عشاء کے بعد مصلے پر بیٹھ جائیں، آنکھیں بندکر لیں اور دل میں کہیں یا اﷲ آپ نے آج فجر کی نماز نصیب فرمائی……الحمدﷲ، الحمدﷲ،الحمدﷲ…… آپ نے ظہر کی نماز نصیب فرمائی…… الحمدﷲ، الحمدﷲ،الحمدﷲ……اسی طرح ہر نماز کو یاد کرتے جائیں اورالحمدﷲ، الحمدﷲ،الحمدﷲ پڑھتے جائیں……
پانچ نمازوں پر پندرہ بار الحمدﷲ…… یہ شکر بھی ہو گیا، دعاء بھی ہوگئی اور آگے کی نمازیں بھی آسان…… جو آج کی نمازوں پر شکرادا کرے گا اُس کے لئے کل کی نمازیں پھولوں کی خوشبو کی طرح آسان ہوجائیں گی……کہتے ہیں کہ فجر میں نہیں اُٹھا جاتا…… عشاء کے بعد عشاء کی نماز کا شکر ادا کریں……الحمدﷲ، الحمدﷲ،الحمدﷲ…… دل کی گہرائی سے…… تب ان شاء اﷲ فرشتے آپ کو فجر میں اٹھا کر مسجد کی پہلی صف میں جا بٹھائیں گے……
الحمدﷲ، الحمدﷲ……الحمدﷲ رب العالمین……
آج آپ اپنے گھر پر ہیں؟…… اگر گھر پر ہیں تو شکر ادا کریں
الحمدﷲ، الحمدﷲ……الحمدﷲ رب العالمین……
دنیا کے کئی ملین انسان جیلوں میں ہیں…… اُن کو اپنے گھر کی شکل تک بھول گئی…… دنیا کے کئی کروڑ انسان ہسپتالوں میں ہیں وہ گھر جانے کو ترستے ہیں…… اوردنیا کے کروڑوں انسان ایسے ہیں کہ اُن کے پاس گھر ہی نہیں…… اورپھر گھر بیٹھنے سے بھی زیادہ بہتر اور افضل اﷲ تعالیٰ کے راستے کا سفر ہے…… جہاد کا سفر، طلبِ علم کا سفر اور احیاءِ دین کا سفر، جنہیں یہ سفر نصیب ہو جائے وہ دل کی گہرائی سے کہیں:
الحمدﷲ، الحمدﷲ، الحمدﷲ،الحمدﷲ رب العالمین……
جہاد کاسفر فرشتوں کو زمین پر لے آتاہے…… اور جہاد کے راستے کی مٹی جنت کا مُشک بن جاتی ہے…… ایک ہے جہاد……وہ شروع ہوتا ہے دشمنوں کے مقابلے سے…… یعنی محاذ جنگ سے…… اُس کا مقام بہت اونچا اور نرالاہے…… اور دوسرا ہے جہاد کا کام…… وہ بہت وسیع ہے…… اور اس میں دور قریب کا کوئی فرق نہیں…… کوئی مجاہدین کیلئے اموال جمع کرے، کوئی مجاہدین کے لئے افراد تیار کرے…… کوئی مجاہدین کی مضبوطی اور دعوت جہاد کیلئے مساجد و مراکز آباد کرے…… کوئی مجاہدین کو جسمانی اور سلامی تربیت دے، کوئی مجاہدین کو دینی اور روحانی تربیت دے…… کوئی مجاہدین کے اموال کی حفاظت کر ے اور حساب رکھے، کوئی مجاہدین کی دعوت اور کام کو پھیلانے کیلئے لکھے، پڑھے اور چھاپے …… کوئی مجاہدین کو آخری وقت رخصت کرے اور کوئی مجاہدین کے گھروں کی حفاظت اور دیکھ بھال کرے…… یہ سب جہاد کے مبارک کام ہیں…… اس میں عسکری کی چمک اور غیر عسکری کی حقارت والی تقسیم غلط ہے اور شیطانی فتنہ ہے…… اس میں جس کی جتنی محنت، جس کا جتنا اِخلاص اور جس کی جتنی قربانی ہو گی اُسے اُسی قدر اجر ملے گا…… ان میں سے کوئی کام ایسا نہیں کہ جس کے بغیرمنظم اور شرعی جہاد چل سکے اور آگے بڑھ سکے…… پس یہ سب کچھ جہاد کا حصہ ہے…… جس کو اس میں سے کچھ بھی اخلاص کے ساتھ نصیب ہو جائے وہ دل کی گہرائی سے شکر ادا کرے:
الحمدﷲ، الحمدﷲ، الحمدﷲ،الحمدﷲ رب العالمین……
اگر ان کاموں میں سے بعض کو جہاد کہیں اوربعض کو غیر جہاد…… بعض کو عسکریت کہہ کر چمکایا جائے اور بعض کو غیر عسکریت کہہ کر گرایا جائے تو…… جہاد کا پورا نظام ہی فنا ہو جائے گا…… کیا بغیر مال کے جہاد چلتاہے؟…… کیا بغیر دعوت کے جہاد بڑھتاہے؟ کیا بغیر تعلیم و تربیت کے جہاد پنپتاہے؟…… تب تو’’امیر‘‘ ظالم ہوگا کہ اُس نے اپنے بعض مأمورین کو جہاد میں لگایا…… اور دوسرے بعض کو جہاد سے محروم کر دیا حالانکہ سب نے جہاد کی بیعت کی تھی…… آج اسلامی حکومتیں موجودنہیں ہیں کہ شہداء کرام کے گھروں کی کفالت کریں…… اُمت میں جہاد کا درد زندہ رکھیں تاکہ افراد کی کمی نہ ہو…… مجاہدین کے لئے تعلیم و تربیت کا بندوبست کریں تاکہ جہاد، فتنہ اور فساد میں تبدیل نہ ہو…… علم، پیسے اور تقوے کی کمی مجاہدین کو اغواکاری اورفساد میں ڈالتی ہے…… اگر اسلامی حکومتیں موجود ہوتیں تو باقی سارے کام وہ کرتیں اور مجاہدین صرف محاذوں پر لڑتے…… مگر اب اسلام کے اس قطعی اور محکم فریضے کو…… شرعی بنیادوں پر زندہ رکھنے کے لئے…… جہاد اورمعاونت جہاد…… یہ دونوں کام مجاہدین نے کرنے ہیں…… اور ان میں سے ہر کام کی تشکیل کے لئے ہر مجاہدکو تیار رہنا چاہئے…… جن کو اﷲ تعالیٰ نے ان میں سے کسی بھی کام کی توفیق عطاء فرمائی ہے وہ شکر اداکریں اور مایوسی میں نہ گریں…… دل سے پکاریں……
الحمدﷲ، الحمدﷲ، الحمدﷲ،الحمدﷲ رب العالمین……
کسی مسلمان کا جہاد قبول ہو جائے یا اس کی جہادی محنت قبول ہو جائے تووہ اﷲ تعالیٰ کے فضل سے حُسن خاتمہ کو پالیتا ہے…… یعنی پکا ٹھکا کامیاب ہو جاتا ہے…… یہاں ایک ضروری نکتہ سمجھ لیں…… ممکن ہے آج کل اسے نہ سمجھا جائے مگر ہم نے اور آپ نے تو مرجانا ہے…… ان شاء اﷲ اگلی نسلیں ان باتوں سے فائدہ اٹھالیں گی…… جہاد کی قبولیت کے لئے امیر کی اطاعت شرط ہے…… امیر کا راضی ہونا شرط نہیں…… ایک شخص امیر کی اطاعت کرے اور اس کی تشکیل میں چلے مگر امیر اس سے راضی نہ ہو یہ شخص اور اس کا جہاد کامیاب ہے……اور ایک شخص امیر کی نافرمانی کرے مگر امیر اس سے راضی ہو تو امیر کاراضی ہونا اُس کے جہاد کو مقبول نہیں بنا سکتا……امیر بنانے کا حکم اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺنے دیا ہے…… امیر کی بیعت کا حکم شریعت اسلامیہ نے دیا ہے…… امیر کی اطاعت کی جائے تو جماعت پر اﷲ تعالیٰ کا ہاتھ ہوتا ہے اور دل پر سکینہ نازل ہوتا ہے…… امیر کی نافرمانی کی جائے تو اﷲ تعالیٰ کا ہاتھ اٹھ جاتا ہے اور دلوں کا اطمینان جاتارہتاہے……
امیر کی اطاعت کے لئے شریعت نے بہت عمدہ الفاظ فرمائے ہیں کہ…… سنو اور اطاعت کرو(اَلسَّمْعُ وَ الطَّاعَۃْ) …… دیکھنا شرط نہیں، جانچنا شرط نہیں…… بس ایک ہی شرط ہے کہ اُس کا حکم…… اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے حکم کے خلاف نہ ہو…… ایسے حکم کو سنو اور اطاعت کرو……وہ تمہیں آگے رکھے تو آگے رہو، وہ تمہیں پیچھے دھکیل دے تو پیچھے آجاؤ……تب تمہارے جہاد میں نور ہوگا، برکت ہوگی اور تمہارے دل میں روشنی ہوگی…… امیر کو راضی کرنا شرط نہیں…… ایک مجاہد مکمل اخلاص سے اطاعت کرتا ہے اور حکم کے مطابق کام کرتا ہے…… مگر قسمت کی بات ہے کہ مطلوبہ نتائج نہیں نکلتے…… امیر بھی انسان ہے اور اس پر ناراض ہو سکتا ہے……امیر کو کیا معلوم کہ مأ مور نے پوری محنت یا اطاعت کی یا نہیں…… تو ایسی ناراضی کوئی نقصان دہ نہیں…… یاد رکھیں والدین اور امیر کی ڈانٹ، تنبیہ ایک مسلمان کے لئے اﷲ تعالیٰ کی رحمت ہے…… جبکہ ایک اور مجاہد جھوٹ، دھوکے اور فریب سے امیر کو خوش اور راضی کر لیتا ہے…… مگر نہ اطاعت کرتا ہے اور نہ بات مانتا ہے…… ایسے شخص کو امیر کاراضی ہونا فائدہ نہیں دے سکتا…… آج چودہ صدیوں بعد جس صدی کے مجاہدین ہیں، امیر بھی اسی صدی کا انسان ہو گا…… جبکہ حضرت آقامدنیﷺ نے خود اپنے بارے میں فرمادیا کہ(مفہوم)…… دو آدمی میرے پاس کوئی فیصلہ کرانے آتے ہیں ان میں سے ایک چرب زبان ہے وہ اپنی زبان کے زور پر فیصلہ اپنے حق میں کرالیتا ہے…… مگرحقیقت میں وہ جھوٹا ہوتا ہے تو میرا اس کے حق میں فیصلہ دینا قیامت کے دن اُس کے کسی کام نہیں آئے گا…… میرے فیصلے سے اُسے کوئی حرام چیز حلال نہیں ہوگی…… جہاد کا ملنا ایک بڑی نعمت ہے…… جہاد والی جماعت کا ملنا ایک بڑی نعمت ہے…… اور امیر جہاد کا ملنا ایک بہت بڑی نعمت ہے…… جن کو اس زمانے میں یہ نعمتیں نصیب ہوں…… وہ دل کی گہرائی سے کہیں……
الحمدﷲ، الحمدﷲ، الحمدﷲ،الحمدﷲ رب العالمین……
کیا آپ کو دو وقت کی روٹی نصیب ہے؟…… اگر نصیب ہے تو شکر ادا کریں……
الحمدﷲ، الحمدﷲ، الحمدﷲ،الحمدﷲ رب العالمین……
دنیا کے کروڑوں انسانوں کو…… دو وقت کی پوری غذا نہیں ملتی…… آپ کی ٹانگیں سلامت ہیں؟…… شکرادا کریں…… آپ کے بازو کام کرتے ہیں شکر ادا کریں؟…… آپ کو قرآن مجید پڑھنا آتا ہے…… شکر ادا کریں……
بھائیو! اور بہنو!
ہر طرف نعمتیں ہی نعمتیں…… پھر یہ ناشکری کیوں؟……
کہتے ہیں اصل شکر تو تب ادا ہوتا ہے جب…… آپ کے چاروں طرف موجود ہر شخص آپ کو مایوسی کی طرف دھکیل رہا ہو…… کسی سے کوئی امید باقی نہ رہے…… تب اپنے دل کو یاد دلائیں کہ…… اے دل!جس نے تجھے پیدا فرمایا وہ کہتا ہے……لاتیأسوا من روح اﷲ……اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہو…… ارے جب تم سے سب کچھ چھن جائے تو یہ سوچو کہ مالک نے جس کے ہاتھوں میں پہلے سے زیادہ قیمتی چیز دینی ہو تو پہلے اس کے ہاتھ پرانی چیزوں سے خالی کرادیتا ہے…… تاکہ وہ بڑی نعمتوں کی اچھی طرح سنبھال سکے…… اﷲ ایک ہے، اﷲ قادر ہے…… اﷲ تعالیٰ رحیم ہے کریم ہے…… وہ ہمارا رب ہے…… وہ ہمارا رب ہے…… وہ ہمارا رب ہے……
الحمدﷲ، الحمدﷲ، الحمدﷲ،الحمدﷲ رب العالمین……
لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ……
اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا……
لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ……
٭…………٭……٭

mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 342510 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.