تعلیم کا تو اﷲ ہی حافظ ہے ، جس نے بھی آواز اٹھائی اپنے
ہی مفاد حاصل کئے ،بہتی گنگا میں نام نہاد ’’قاضی و علامہ ‘‘نے بھی دھو لئے
۔یہ کہانی ہے گورنمنٹ گرلز بوائز سیکنڈرینیو ہیپی گارڈن اسکول کی ہے جو دور
نہیں کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن بسم اﷲ کالونی میں قائم ہے ، اب پڑھئے ایک
خبر جو اس اسکول کے ’’علامہ ‘‘کے ہیڈ ماسٹر کے سیاہ کارتوتوں پر مشتمل ہے
۔’’ریفارم سپورٹ فنڈ میں سال 2010-11میں 6لاکھ 45ہزار کی مبینہ کرپشن کی
گئی ۔گورنمنٹ بوائر لوئر سکنڈری اسکول نیو ہیپی گارڈن بسم اﷲ کالونی کے ہیڈ
ماسٹر کی جانب سے گورنمنٹ آف سندھ کے ایجوکیشن اینڈ لٹریسی پر وگرام کے تحت
سالانہ بچیوں کیلئے آنے والے فنڈ کی لسٹوں میں تعداد کی زیادتی کی وجہ سے
سالانہ لاکھوں روپوں کی کرپشن کی جارہی ہے ۔25سو رپے فی طالبہ آرایس یو فنڈ
ملنے کے باوجود بھی طالبات کو 1500سے 1800فراہم کیا جاتا ہے تاہم بہت ساری
طالبات کو محکمہ سے لے کر اس سے محروم رکھا جاتا تھا ۔تفصیلات کے مطابق
اورنگی ٹاؤن کے علاقے بسم اﷲ کالونی میں واقع گورنمنٹ بوائزلوئر سیکنڈری
اسکول میں سالانہ لاکھوں کی مبینہ کرپشن کی جارہی تھی گورنمنٹ آف سندھ کے
ایجوکیشن اینڈ لیٹر یسی پروگرام کے تحت طالبات کو سالانہ 2500روپے کی
اسکالر شپ فراہم کی جاتی ہے طالبات اور خواتین میں تعلیمی شعور بیدار کرنے
کے لیے گورنمنٹ آف سندھ اور ولڈبینک کے اشتراک سے شروع کیے جانے والے اس
پروگرام کے تحت سالانہ ہر طالبہ کو 2500فراہم کئے تھے تاہم مذکورہ اسکول کے
ہیڈ ماسٹر قاضی احمد نوارنی ہرسال اس پروگرام کے تحت اپنے اسکول کی طالبہ
کی انرولمنٹ بھیجتے وقت اسے زیادہ تعداد میں لکھتے تھے، آر ایس یو ( ریفارم
سپورٹ یونٹ) کو 2010-11کی طالبات کی انرولمنٹ 646بتائی گئی ،جبکہ
2010-11میں اسکول میں طالبات کی صحیح تعداد 387تھی ۔آر ایس یوکی کی طرف سے
پوسٹ آفس کے ذریعے دی جانے والی یہ رقم چھان بین کے بعد 507طالبات کو
12لاکھ 67ہزار روپے فراہم کی گئی ۔سال 2010-11میں چھٹی کلاس کی تعداد
134بتائی گئی جبکہ صحیح تعداد 95،آٹھویں کلاس 127جبکہ صحیح تعداد 101،نویں
کلاس 129جبکہ صحیح تعداد 122،دسویں کلاس 122،جبکہ صحیح تعداد 88تھی ۔اور
یوں صرف ایک سال میں 6لاکھ 45ہزار کی اضافی رقم لے کر کرپشن کی گئی ذرائع
کے مطابق ہیڈ ماسٹر کی طرف سے ریفارم سپورٹ یونٹ ،اور گورنمنٹ سندھ کے
ایجوکیشنل ڈیپارٹمنٹ واقع سوکس سینٹر کو فراہم کی جانے والی طالبات کی صحیح
تعداد سے 2گناہ زیادہ بتائی جاتی ہے سال 2012-13میں طالبات کی صحیح
انرولمنٹ 449جبکہ گورنمنٹ سندھ ایجوکیشنل ڈیپارنمنٹ واقع سوکس سینٹر میں اس
سال کی تعداد 687ظاہر کی گئی ہے۔ورنگی ٹاؤن کے علاقے بسم اﷲ کالونی میں
قائم گورنمنٹ بوائز لوئر سیکنڈری اسکول کا سرکاری فرنیچرودیگر سامان نجی
پرائیوریٹ اسکول استعمال کیا جارہا ہے جبکہ گذشتہ 5برس سے 2اسکول
ٹیچرسمیت4ملازم نہیں آرہے ۔ تفصیلات کے مطابق اورنگی ٹاؤن کے علاقے بسم اﷲ
کالونی میں قائم گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول کے اساتذہ کی طرف سے دی جانے
والی متعدد درخواستوں میں اس بات کی بار ہا مرتبہ گزارش کی گئی ہے کہ اسکول
میں گزشتہ5برس سے اسٹاف (اساتذہ اور ودیگر)کے بعض افراد چھٹی لیے بغیرمسلسل
غیر حاضر ہیں جن میں 2اسکول ٹیچرگریڈ 17اور 14اور 1کلر ک اور چوکیدار شامل
ہیں۔ تاہم ان کی تنخواہیں ہر ماہ بدستور آرہی ہیں ۔ذرائع کے مطابق یہ
غیرحاضر اسٹاف دیگر جگہیوں پر بھی نوکری کر رہے ہیں۔اور ان میں سے بعض اپنا
پرائیوریٹ اسکول بھی چلا رہے ہیں۔ سیکنڈری اسکول میں عربی استاد کی پوسٹ پر
تعینات رفیق احمد ،گریڈ 17نے اپنا ایک پرائیوریٹ اسکول قائم کر رکھا ہے ۔جسکی
وجہ سے وہ گذشتہ کئی برس سے اسکول نہیں آئے۔ ہیڈ ماسٹر سے ملی بھگت کی وجہ
سے انہیں مسلسل تنخواہ دی جارہی ہے اور ہر ماہ کے آخر میں مسٹر رول (رجسٹرڈ
حاضری) پر وہ خود صبح میں آکر حاضری لگا دیتے ہیں ذرائع کے مطابق گریڈ 17کے
رفیق احمد عنقریب ریٹارئر بھی ہونے والے ہیں ۔
|
|
رفیق احمد کے بارے میں اہل علاقہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے ان کو گذشتہ کئی
برس سے اسکول میں نہیں دیکھا اور حاضر طالبات کا بھی کہنا ہے کہ انہوں نے
ان کو نہیں دیکھا اور نہ ہی وہ ان کو جانتی ہیں ۔جے ایس ٹی پوسٹ پر تعینات
محمد نجم گریڈ 19جونیئر کلرک کامران اور چوکیدار سید ذوالفقار کے بارے میں
بھی اہل علاقہ اور طالبات کا یہی کہنا ہے کہ ہم نے انہیں اسکول میں کبھی
نہیں دیکھا تاہم اسکول کے دیگر اساتِذہ ،وزیر اﷲ ،منیر احمد لغاری ،نثار
احمد، ظہور احمد منیر کھوسو اوررحمدل 6 ٹیچرز کا کہنا ہے کہ انہوں نے ان
مذکورہ لوگوں جن میں رفیق احمد، انجم، کامران کلرک اور چوکیدار سید
ذوالفقار شامل ہیں انہیں اسکول میں کبھی نہیں دیکھا اور اسی لیے ان اساتذہ
نے باہم مشاورت سے ای ڈی او کراچی اور اے ڈی ای او اورنگی ٹاؤن، ڈی ای او
ایلیمنٹری میل کراچی، ڈائریکٹر آف اسکول کراچی ڈویژن، ریفارم سپورٹیونٹ،
نیشنل اکاؤنٹ ٹیلی بیورو کو28 جنوری 2013کو باقاعدہ ان کے خلاف تحریری
درخواست بھی دی تھی۔دریں اثناگورنمنٹ اسکول کا فرنیچر اور دیگر سامان
پرائیویٹ نجی اسکول میں استعمال کیاجارہا ہے۔ ہیڈ ماسٹر نے اپنے اختیارات
کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے پرائیویٹ اسکول کو فرنیچر فراہم کیا ہوا ہے ۔گورنمنٹ
بوائر لوئر سیکنڈری اسکول کا سرکاری فرنیچر قریبی پرائیویٹ ’’ارقم اکیڈمی‘‘
میں استعمال کیاجارہا ہے ۔ذرائع کے مطابق ارقم اکیڈمی کی مالکن ’’مس منہاز
کنول‘‘ گزشتہ کئی برس سے بغیر کسی تقرر نامہ کے گورنمنٹ بوائز سیکنڈری
اسکول نیو ہیپی گارڈن میں روزانہ آرہی تھیں تاہم اساتذہ کے اعتراض اور EDO
کے نوٹس کے بعد ان کا داخلہ بغیر کسی توجیہہ کے اسکول میں بند کردیا گیا
تھا جس کے بعد ہیڈ ماسٹر بھی کئی دن تک اسکول میں نہیں آیا تا ہم 2 ہفتے
بعد مس منہاز کنول کو گورنمنٹ ٹیچر ظاہر کرکے اور دوسرے اسکول سے ڈیٹیلمنٹ
پر نیو ہیپی گارڈن اسکول میں لے کر آگیا، ذرائع کے مطابق ڈیٹیلمنٹ ٹیچر کی
اسکول کے مسٹررول(اساتذہ کے حاضری رجسٹر) میں حاضری نہیں لگائی جاتی جبکہ
مس منہاز کی حاضری بھی لگائی جاتی ہے ۔ اس متعلق جب اسکول کے ہیڈماسٹر
علاقہ قاضی احمد نورانی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ میرے پاس ثبوت
ہیں وقت آنے پر دے دوں گا تاہم ذرائع کا دعویٰ ہے کہ انکوائری کمیٹی جس میں
EDO اورنگی ودیگر شامل تھے انہیں بھی کسی قسم کا ثبوت فراہم نہیں کی جاسکا
اور مس منہاز کنول کو اپریل2013 کے مسٹر رول میں اے ٹی اور جے ایس ٹی ظاہر
کیا گیا ہے جبکہ ایک اسکول میں 1 عربی اسکول ٹیچر کی موجودگی میں دوسراٹیچر
نہیں لایاجاسکتا تاہم مئی2013 کے مسٹر رول کے مطابق مہناز کنول بغیر کسی
عہدہ کے اسکول میں ٹیچر ہیں ایک بار پھر جون 2013 میں مہناز کنول کو جے ایس
ٹی ظاہر کیا گیا ہے۔ ہیپی گارڈن اسکول کے ہیڈ ماسٹراسکول میں تعویزات اور
دم درود کا کام بھی کرتے تھے ۔اسکول کو ایک کمرے کو باقاعدہ اس کام کے لئے
مختص کیا گیا تھا۔اس حوالے سے اورنگی ٹاؤن بسم اﷲ کالونی کے رہائیشیوں نے
اسکول کے ہیڈ ماسٹر علامہ قاضی احمد نورانی کے بارے میں انکشاف کرتے ہوئے
امت کو بتایا کہ وہ اسکول میں’’ پیر صاحب ‘‘سے تعویذ کروانے بھی جایا کرتے
تھے اس حوالے سے شاہ زیب کا کہنا تھا کہ وہ ہزاروی محلہ کا رہائشی ہے ،وہ
کئی بار اپنی بہن کی شکایت پر قاضی کی سرزنش بھی کرچکا ہے۔پیر صاحب امتحا
نات میں نقل کروانے کے لیے طالب علموں سے پیسے بھی لیتے ہیں۔حالیہ امتحان
میں فی بچی 3500 روپے صرف نقل کروانے کے لیے گئے تھے ۔جس کی ہر بچی گواہ ہے۔
اس کے علاوہ غیر اخلاقی حرکات کرنے میں ہیڈ ماسٹرکا کوئی ثانی نہیں۔ 30
سالہ اکمل خان کا کہنا تھا کہ وہ 21 سال سے اسکول کے سامنے اپنی دکان
چلارہا ہے۔ اہل علاقہ کے کہنے پرہی اس نے EDO کو درخواست لکھی تھی کہ اسکول
کے ہیڈ ماسٹر قاضی احمد نورانی فنڈز کے غیرقانونی استعمال بچیوں سے نازیبا
حرکات میں ملوث ہیں ۔ آئے دن اسکول میں عورتوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے
جوہیڈ ماسٹر سے تعویذ گنڈے کروانے آتی ہیں۔اکمل نے مزید بتایا کہ ایک بچی
اسمبلی میں گرمی سے بحال ہوکر بیہوش ہوگئی تھی جسے ہیڈماسٹر کے کہنے پر آفس
میں لٹایا گیا بعد میں ہیڈماسٹر نے تمام طالبات کو باہر نکال کر دروازہ
اندر سے چھٹی تک مسلسل 4گھنٹے بند رکھا، جس کے بعد آج تک وہ بچی اسکول نہیں
آئی ۔جبکہ طالبات نے گزشتہ دنوں ہیڈماسٹر کے غیراخلاقی حرکات پر اسکول میں
ایک مظاہرہ بھی کیا تھا جسے دیکھ کر ہیڈماسٹر موقع سے فرار ہوگیاتھا ۔
اسکول کے عقب پر موجود ایک اور دکان والے ریاض کا کہنا تھا کہ ہمارے بزرگوں
نے ایک کمیٹی بھی بنائی ہے۔ ہیڈماسٹر کے خلاف جو ان تمام شکایتوں کا ازالہ
کرے گی۔ اسکول میں موجود ٹیچرز کے استفسار پر ریاض نے بتایا کہ اسکول میں
ایک سویپر ، AT سر رفیق اور JST سر نجم اقبال کو ہم نہیں جانتے سنا ہے کہ
وہ بھی اسی اسکول کے انتظامیہ میں سے ہیں موقع پر موجود ایک اور شخص محمد
ساجد نے بتایا کہ میں16 سال سے یہاں رہ رہا ہوں ۔ ہیڈماسٹر نے اسکول کو
آستانہ بنادیا ہے روزانہ عورتیں گالیاں دیتے ہوئے نکلتی ہیں پچھلے دنوں ہی
دو عورتوں نے تعویذ اثر نہ کرنے پر ہیڈماسٹر کو برا بھلا کیا اور اسکول پر
پتھر بھی برسائے ۔جس کی اسکول کی بچیاں بھی گواہ ہیں۔اسکول کے بائیں طرف
موجود دکاندار لیاقت کا کہنا تھا کہ وہ قاضی کا مرید ہے میری جب بھی کوئی
مصیبت آتی ہے تو میں ہیڈماسٹر سے تعویز بنواتا ہوں لیکن مجھے آج تک فائدہ
ہوا نہیں ۔ محمد قاسم کاکہنا ہے وہ ایک بک اسٹال چلاتا ہے اور ہیڈماسٹر کا
مرید بھی ہے اس نے کئی بار ہیڈماسٹر سے تعویذبنوائے ہیں اکثر عورتوں کی رش
کی وجہ سے مردوں کا جانا ممکن نہیں ہوتا۔ دیگر علاقہ مینوں میں کالا خان ،
محمد قاسم، عمر خطاب خٹک، سجاد عالم، محمد ایوب اور عبدالقدیر نے متفقہ طور
پر بتایا کہ اسکول کے ہیڈ ماسٹر قاضی احمد نورانی سے پورا علاقہ اسکول کی
بچیاں ان کے غیراخلاقی حرکتوں سے تنگ ہے جبکہ انرولمنٹ کی فیس 175 روپے
ہیں۔اس مرتبہ ان سے 1500روپے لئے گئے ۔ ہماری EDO اور متعلقہ اداروں سے
اپیل ہے کہ قاضی صاحب کو یہاں سے ہٹایا جائے اور لڑکیوں کے اسکول میں لیڈیز
ٹیچرز کا بندوبست کیاجائے۔‘‘اب ’’ذرا سوچئے ‘‘اور فیصلہ کیجئے ۔
|