پردے کے رجحان میں اضافہ


4ستمبر عالمی یوم حجاب *** گھریلو خواتین کے ساتھ طالبات، ملازمت پیشہ خواتین کی اکثریت حجاب استعمال کرنے لگی ہے *** عالمی یوم حجاب بین الاقوامی طور پر مسلم خواتین کے لیے حجاب کے حق کے حصول اور اس کی تجدید کا دن ہے۔ عالمی یوم حجاب 4ستمبر کو کیوں منایا جاتا ہے اور اس کا کیا مقصد ہے؟ اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ستمبر دو ہزار تین کو فرانس میں اسکارف کے استعمال پر پابندی کا قانون پاس کیا گیا جس پر مغربی ممالک سمیت پوری دنیا کے مسلمانوں میں تشویش پائی گئی، اور تین سو سے زائد مسلم مندوبین نے لندن میں علامہ یوسف قرضاوی کی زیر صدرات ایک کانفرنس بلائی، جس کے اعلامیہ میں متفقہ طور پر چار ستمبر کو عالمی طور پر یوم حجاب منانے کا اعلان کیا گیا، یوں 2004 سےیہ دن پوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔ دنیا کے کسی مذہب میں خواتین کو اتنے حقوق حاصل نہیں جتنے اسلام نے خواتین کو دیے ہیں۔ ان حقوق میں سے حجاب بھی خواتین کا ایک حق ہے جو اس میں شرافت و حیا کا مادہ پیدا کرتا ہے اور اسے ہر بری نظر اور گناہ سے محفوظ رکھتا ہے۔ یہ حق انہیں مغرب نے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کے ذریعے دیے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہر عمل کا ردعمل ظاہر ہوتا ہے۔ آج جہاں آزادی نسواں کے نام پر وہ خاتون جو کبھی چراغ خانہ ہوتی تھی اسے شمع محفل بنا نے، فحش ڈراموں اور فلموں کے بعد عریاں اشتہاروں کے ذریعے عورت کو رسوا کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور مغربی اور ہندوانہ تہذیبوں کی چمک سے متاثر عورتیں اس وقار اور مرتبے سے ہاتھ دھو رہی ہیں جو اسلام نے ان کو دیا تھا تو دوسری جانب ایک اسلامی ملک کے معاشرے میں دینی اقدار بھی تیزی سے پروان چڑھ رہی ہیں اور خواتین تیزی سے اپنے مقام و مرتبے کی حفاظت اور اس کو اسلامی فریضہ سمجھتے ہوئے حجاب کو اپنا رہی ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں حجاب کے استعمال میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ کراچی میں حجاب کی بڑھتی ہوئی مانگ کے سبب بازاروں میں حجاب کی دکانوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اس وقت شہر کی تقریباً ہر چھوٹی بڑی دکان میں عبایا اور حجاب فروخت ہورہے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں تعلیم یافتہ خواتین میں بھی پردہ کرنے کا رجحان تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ گھریلو خواتین کے ساتھ ساتھ جامعات و کالجز کی طالبات بھی گاون کے ساتھ حجاب اوڑھنے کو ترجیح دے رہی ہیں۔ بعض تعلیمی اداروں میں پردہ کرنے والی طالبات کی تعداد میں 50فی صد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سروے کے دوران حجاب لینے والی خواتین کا کہنا ہے کہ یہ معاشرتی طور پر انہیں تحفظ کا احساس دلاتا ہے اور آتے جاتے پڑنے والی نامناسب اور میلی نگاہوں سے ان کو محفوظ رکھتا ہے۔ مشاہدے میں یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ مختلف دفاتر اور اداروں میں خدمات سر انجام دینے والی خواتین جو ایسا لباس استعمال کرتی ہیں جو ان کے جسم کو ڈھک کر رکھے، ان کی عزت اور احترام بڑھانے کا باعث بنتا ہے۔ کچھ خاندانوں میں مذہبی رجحان زیادہ ہونے کی وجہ سے لڑکیوں پر دبائو ہوتا ہے کہ وہ ہر صورت حجاب کریں تاہم سروے کے مطابق زیادہ تر لڑکیوں کا کہناہے کہ وہ اپنی مرضی سے حجاب لیتی ہیں۔ سر پر اسکارف لینے سے انہیں تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔ ایک لڑکی کا کہنا ہے کہ اس نے حجاب لینا اس لیے شروع کیا کہ جب وہ حجاب پہن کر گھر سے نکلتی ہے تو دکان دار سے لے کر بس والے تک اور کلرک سے لے کر بزنس مین تک انہیں کام کی حد تک دیکھتے ہیں اور بامقصد بات کرتے ہیں۔ یوں وہ کسی حد تک مردوں کی نظر بد سے بچ پاتی ہیں۔ خواتین میں پردہ کرنے کے اور مذہب میں دل چسپی کے رجحان میں اضافے کو دیکھتے ہوئے مختلف اخبارات اس حوالے سے خصوصی رپورٹس اور ضمیمے شائع کر رہے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق آنے والے دنوں میں حجاب لینے والے خواتین کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگا۔ اسلام نے عورت کو سب سے پہلے عزت دی اور معاشرے میں اسے فخر و عزت کا باعث بنایا۔ مسلمان عورتوں کو دوسروں کی نگاہوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اسلام نے جو جو نشانی دی ہے اسے حجاب کہتے ہیں۔ پہلے پہل حجاب کے طور پر بڑی چادر کا استعمال شروع ہوا جو بعد میں برقع کی شکل اختیار کر گیا۔ عورتوں کے لیے حجاب حکم الٰہی ہے اور قرآن پاک میں بیش تر مقامات پر عورتوں کو حجاب کی تلقین کی گئی ہے۔ کراچی میں عام افراد کے لیے موجود مارکیٹوں کے علاوہ شہر کے پوش علاقوں کی مارکیٹیوں میں بھی حجاب کی دکانوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کراچی میں طارق روڈ، حیدری اور کلفٹن کی مارکیٹیں صاحب ثروت افراد کے لیے شہرت کی حامل ہیں، خرید و فروخت کے ان اہم مراکز میں حجاب کی دکانوں کی موجودگی اس بات کی دلیل ہیں کہ تمام طبقات زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین حجاب میں دل چسپی لے رہی ہیں۔ اس کے علاوہ کراچی میں ایسی بھی دکانیں موجود ہیں جو حجاب مصنوعات کی آئن لائن فروخت بھی کر رہی ہیں۔ شہر کے تمام مارکیٹوں میں حجاب کی ایسی دکانیں موجود ہیں جہاں سات سو روپے سے لے کر آٹھ ہزار روپے تک کے حجاب دستیاب ہیں۔ حجاب سینٹر والوں کا کہنا تھا کہ اسلامی نقطہ نظر کے علاوہ خواتین کا حجاب استعما ل کرنا معاشرے کا حصہ بنتا جا رہا ہے اور کچھ خواتین اس کو بطور فیشن بھی اپنا رہی ہیں تاہم شرعی لحاظ سے پردہ کرنے کے لیے حجاب خریدنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ مختلف خواتین نے حجاب کے حوالے سے اپنی آراء کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حجاب میں وہ اپنے آپ کو زیادہ محفوظ سمجھتی ہیںاور ہم نے پردے کو قرآن مجید کا حکم سمجھ کر اپنایا ہوا ہے۔ خواتین نے سروے میں مختلف سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ حجاب معاشرے کی تطہیر کا ذریعہ ہے، اگر پردے کا رواج عام ہو جائے تو معاشرے میں جنم لینے والی بہت سی برائیاں خودبخود ختم ہو جائیں۔ طالبات نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تعلیمی اداروں میں آنے والی طالبات کی اکثریت حجاب کو اپنا رہی ہے۔ عورت کے تحفظ میں اس کے لباس کا بڑا عمل دخل ہے۔ جو طالبات باپردہ ہو کر پڑھنے آتی ہیں، وہ دوسروں کی جانب سے کسی اذیت یا ایذا سے محفوظ رہتی ہیں۔ بلکہ ان کی ذات دوسری طالبات کے لیے بھی عملی دعوت ہوتی ہے۔ طالبات کا کہنا ہے کہ حجاب کسی بھی طرح اعلیٰ تعلیم میں رکاوٹ نہیں بلکہ حجاب کی بدولت طالبات تعلیم پر زیادہ توجہ دے سکتی ہیں، بنا پردے کی جو وقت اور پیسا وہ اپنے بنائو سنگھار میں لگاتی ہیں اس کی بچت انہیں تعلیم میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ تاہم بعض طالبات نے یہ بھی کہا کہ کچھ تعلیمی اداروں میں پردہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی ایسے اداروں میں باپردہ خواتین کے لیے تعلیم حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ بعض اسکولز اور مدرسوں کی معلمات کا کہنا ہے کہ وہ خود بھی پردہ کرتی ہیں اور اپنے ادارے کی تمام طالبات کو بھی پردے کی تلقین کرتی ہیں۔ حجاب اور عبائے کا مقصد عورت کے جسم کو چھپانا اور لوگوں کی نظروں سے بچا کر رکھنا ہے۔ اس لیے علماء کرام تلقین کرتے ہیں کہ حجاب کا اہتمام اس انداز میں کیا جائے جو آپ کی خوب صورتی کو چھپائے۔ جید عالم دین مفتی یوسف کشمیری کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ معاشرے میں عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ خواتین یا تو بہت چست عبائے پہنتی ہیں یا ان پر نقش و نگار اس انداز میں بنے ہوتے ہیں جو دوسروں کی توجہ حاصل کرتے ہیں۔ پردے کا مقصد جسم کو چھپانا ہوتا ہے لہٰذا خواتین کو چاہیے کہ وہ ڈھیلے اور سادگی والے عبائے استعمال کریں۔ جن سے نہ تو ان کے جسمانی خدوخال نمایاں ہوں اور نہ ظاہری چمک دمک سے کسی غیر کی نظریں ان کی جانب اٹھیں۔ خیر اور شر ہر دور میں ایک دوسرے کے مدمقابل رہے ہیں۔ آج ایک جانب تو مغربی ممالک مسلم معاشروں میں بے راہ روی کو عام کرنے کے لیے تمام ذرائع ابلاغ کو استعمال کر رہے ہیں اور خواتین میں بے پردگی اور بے حیائی کو فروغ دینے کی لیے بے پناہ سرمایہ خرچ کر رہے ہیں ، لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ اہل ایمان کے کم عمل میں خیر و برکت رکھی ہے۔فحاشی و عریانی کا پرچار کرنے والے تو زیادہ ہیں لیکن اس سے روکنے والے اور ہدایت کی جانب بلانے والے تعداد میں کم لیکن خلوص کے ساتھ سرگرم عمل ہیں، یہی وجہ ہے کہ مسلم معاشروں سے دینی اقدار کو ختم کرنے کی تمام کوششوں کے باوجود لوگوں میں دین کی جانب رغبت بڑھ رہی ہے۔ ایک جانب الیکٹرانک میڈیا روز بروز خواتین کے لباس کو کم سے کم کرتا جا رہا ہے لیکن اس کے اثرات تیزی سے نہیں پھیل رہے، جتنا خواتین کی دینی جماعتوں سے وابستگی اور صحیح اسلامی تعلیمات دینے والی ٹی وی چینلز اور ریڈیو پر نشر ہونے والے اسلامی پروگرام موثر ثابت ہو رہے ہیں۔ سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ دینی جماعتوں کے دروس اور میڈیا کی تعلیمات نے خواتین کو بہت جلد دین کی طرف پلٹنے کی ترغیب دی ہے۔ شوبز سے وابستہ خواتین بھی اسلامی تعلیمات سے متاثرہونے لگیں۔ گزشتہ سال ٹی وی کی معروف اداکارہ اسلامی تعلیمات سے اس قدر متاثر ہوئیں کہ ناصرف انہوں نے پردہ کرنا شروع کیا بلکہ دین کی دعوت کے لیے بھی سرگرم ہوگئیں ہیں۔ اداکاری سے تائب ہو کر عملی اسلام کی طرف آنے والی خواتین کا کہنا ہے کہ اب وہ دلی سکون کے ساتھ مطمئن زندگی گزار رہی ہیں-

Abdul Rehman
About the Author: Abdul Rehman Read More Articles by Abdul Rehman: 216 Articles with 257545 views I like to focus my energy on collecting experiences as opposed to 'things

The friend in my adversity I shall always cherish most. I can better trus
.. View More