یہ ٹھیک ہے کہ تم ایک گلاب نہیں
بن سکتے ، مگر اسکا مطلب یہ تو نہیں کہ تم ایک کانٹا بن جاؤ ۔ یہاں ایک راز
کی بات ہے اور وہ میں تمہیں بتا ہی دیتا ہوں کہ جو شخص کانٹا نہیں بنتا ،
وہ بلٓا خر گلاب بن ہی جاتا ہے۔ پھل نہ درخت کے ڈالے کو لگتا ہے نہ اسکے
مظبوط تنے کو۔ پھل جب بھی لگتا ہے لرزنے والی شاخ کو لگتا ہے اور جہاں بھی
لگتا ہے کانپتی ہوئی ڈالی کو لگتا ہے جس قدر شاخ رکوع میں جانے والی ہو گی
اسی قدر پھل کی زیادہ حامل ہو گی۔ اور فائدہ درخت کو ا سکا یہ کہ ، پھل کی
و جہ سے ڈالا بھی کلہاڑے سے محفوظ رہتا ہے اور تنا بھی۔ درخت کی بھی عزت
ہوتی ہے اور درخت کی وجہ سے سارا باغ بھی عزت دار بن جاتا ہے۔ میرا موضوع
سیاست نہیں بلکہ ڈی وی ایم کا سٹوڈینٹ ہونے کے ناطے کچھ حقائق آپکے سامنے
رکھونگا کیونکہ میں حق بات کہنے سے نہیں ڈرتا اور نہ مجھے کسی کے آگے جھکنا
آتا ہے۔ جب کسی کو حق نہ دیا جائے تو پھر چھین کر لینا پڑتا ہے۔ جب تک بچہ
روئے نہیں تب تک ماں بھی دودھ نہیں دیتی۔
جامعہ پونچھ راولاکوٹ فیکلٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز میں ڈی وی ایم
(ڈاکٹر آف ویٹرنری میڈیسن ) کی کلاسز کا آغاز ۶۰۰۲ء میں ہوا لیکن بدقسمتی
کی بات ہے کہ یہ فیکلٹی ڈی وی ایم کی جو ڈگری جاری کرتی ہے وہ پاکستان
ویٹرنری میڈیکل کونسل ( پی وی ایم سی) سے ایکریڈٹ(منظور) نہیں ہے۔ تین بیچز
یعنی ۰۰۲ کے قریب طلباء و طالبات فارغ ہو چکے ہیں اور ان طلباء و طالبات کو
بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے، سرکاری ، غیر سرکاری نوکری اور ایم فل
میں داخلے بھی نہیں ملے کیونکہ ڈگری پی وی ایم سی سے ایکریڈٹ نہیں ہے ۔
یوں تو یہ شعبہ شروع دن سے ہی یونیورسٹی انتظامیہ کی عدم توجہی کا شکار رہا
مگر اسکی قلعی اسوقت کھل گئی جب شعبہ میں مناسب سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے
پی وی ایم سی نے ڈی وی ایم کی ڈگری کو ایکریڈٹ کرنے سے انکار کر دیا تب
طلباء نے احتجاج کیا تو یونیورسٹی انتظامیہ نے جھوٹے ہتھکنڈوں سے کا م لینا
شروع کر دیا یونیورسٹی انتظامیہ طفل تسلیاں دے کر اپنا ٹائم پاس کررہی ہے۔
جہاں عوام ہی مردا ہو، لوگ خود غرضی کو اہمیت دیں ، چند پروفیسرز اپنی
نوکریاں بچانے کے لیے ۰۰۶ طلباء و طالبات کی زندگیوں کے ساتھ کھیلنے کو
تیار ہوں حتٰی کہ پوری یونیورسٹی کی انتظامیہ اپنی نا اہلی کا بدلہ ان بے
گناہ سٹودینٹس سے لے وہاں کیسے کوئی معاشرہ ترقی کر سکتا ہے؟
پچھلے دس دن سے طلباء و طالبات اپنے حق کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔ طلباء و
طالبات روڈ پر نکل کر اپنی آواز حکام بالا تک پہنچا رہے ہیں لیکن ابھی تک
انتظامیہ کی طرف سے کوئی ہمارا مسئلہ تو دور کی بات حال پوچھنے نہیں آیا۔
کسی کو اتنا احساس بھی نہیں کی ہماری بیٹیاں بیٹے کیوں روڈ پہ احتجاج کر
رہے ہیں؟ گزشتہ روز کوٹلی آ زاد کشمیر میں طلبا ء کا ایک وفد چانسلر
یونیورسٹی آف پونچھ سے ملنے گیا۔ طلباء نے بڑے احسن طریقے سے ا پنے مسائل
بیان کئے لیکن انکے مسائل کو توجہ سے نہیں سنا گیا، انہیں دھمکی دی گئی اور
بلآخر بجائے مسائل حل کرنے کے طلباء کو دھکے دے کر باہر نکال دیا گیا۔ یہ
سن کر مجھے رونا آ گیا۔ کیا ہم کسی سے اپنا حق بھی نہیں مانگ سکتے؟ کیا
طلباء کے ساتھ اسطرح کا رویہ زیب دیتا ہے؟ ہمارا مقصد انتطامیہ اور ادارے
کو بدنام کرنا نہیں بلکہ ہمارا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ہماری ڈگری پی وی ایم
سی سے ایکریڈٹ کروائی جائے۔
انتظامیہ ڈگری کی ایکریڈشن کی طرف بالکل توجہ نہیں دی رہی ، طلباء و طالبات
کو دھمکی دے کر انکی اصل حقیقت کو چھپایا جا رہا ہے۔ لیکن یہ طلباء اپنے حق
کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ کسی بھی طلباء یا طالبات کو روڈ پہ آنے کا کوئی شوق
نہیں ہے۔ ہمارے والدین بھی بہت پریشان ہیں کیونکہ امید کی کوئی کرن نہیں
نظر آ رہی۔
تین دن قبل پی وی ایم سی کے صدر نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں
واضع طور پر کہا کہ ـ ـ انتظامات مکمل کئے بغیر ادارے بنانے والے پرو
فیسروں کو سخت سے سخت سزا دینی چاہیئے، یونیورسٹی نئے داخلے بند کرے یا
ایکریڈیشن کروانے کی صورت میں ڈگری لینے و الوں کی رجسٹریشن کے بارے میں
سوچا جا سکتا ہے۔
ہائی کورٹس نے ان اداروں کی ڈگری پر فیصلہ دیا ہے کہ یہ کاغذ کے ٹکڑے کے
سوا کچھ نہیں ۔ عدالت میں جانا ہے تو بچے اور انکے والدین جائیں جن کے
لاکھوں روپے ان اداروں نے ضائع کیئے۔
غیر منظور شدہ ڈگری حاصل کرنے والوں کے بارے میں انکا کہنا تھا کا ان
اداروں کے بچے فیلڈ میں کام نہیں کام نہیں کر سکتے ۔ انکا کام کرنا قانو
نََا جرم ہے۔
ہماری فیکلٹی سے فارغ ہونے والے ۳ طلباء نے اگست ۲۰۱۳ء کو ہونے والے ’پی
ایس سی ٹیسٹ‘ میں ٹاپ کیا ہے لیکن ڈگری ایکریڈٹ نہ ہونے کی وجہ سے انہیں
ویٹرنری آفیسر کی اسامی کی لئیے نااہل قرار دے دیا گیا۔ اس سے بڑھ کر بد
قسمتی کیا ہو سکتی ہے، یہ صرف یونیورسٹی انتظامیہ کے لیے ہی نہیں بلکہ ملکی
انتظامیہ کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔
جناب والا میں اس اخبار کی طواست سے پورے آزاد کشمیر اور پاکستان کے عوام
کی توجہ اس طرف دلانا چاہتا ہوں کہ خدا را حکومت وقت اور بے حس یونیورسٹی
انتظامیہ کو ہمارے مستقبل کے ساتھ کھیلنے سے مطنبع کیا جائے۔ |