ڈکیتیاں اور پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈز

ایک شب کراچی کی مین یونیورسٹی روڈ پر واقع ایک سی این جی اسٹیشن پر گاڑیوں کی قطار میں اپنی گاڑی لگا ہی رہا تھا کہ آخری کار تیزی سے قطار سے باہر نکلی اور ایک طرف روانہ ہوگئی ۔ میں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے وہاں اپنی گاڑی لگادی ۔ یکا یک ہمارے برابر کی لائن سے ایک رکشہ ڈرائیور اتر کر میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ سے پہلے جو گاڑی یہاں کھڑی تھی اس مہں ڈکیتی ہوئی ہے ۔ ایک موٹر سائیکل آئی تھی جس پر سوار دونوں ڈاکوؤں نے گن پوائینٹ پر کار سوار سے موبائل فون اور پرس وغیرہ چھینا اور اس سے پہلے کہ یہاں کوئی صورتحال کو سمجھتا وہ چشم زدن میں فرار ہوگئے ۔ لہزا آپ ہوشیار ہو جائیں اور میری اہلیہ جو موبائیل فون پر کسی سے بات کر رہی تھیں ان کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ فون کو بھی چھپا لیں ۔ میں نے اپنے سامنے اور دائیں بائیں دیکھا تو تین عدد گارڈ موجود ضرور تھے، ان کے پاس اسلحہ بھی تھا، لیکن وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر سگریٹ پینے اور دوسرے ملازمین سے گپ بازی میں مصروف تھے۔ میں نے تقریبا چلاتے ہوئے ان سے کہا کہ تم لوگ یہاں گپیں لڑا رہے ہو اور دو ڈاکو تمہاری آنکھوں میں دھول جھونک کر ایک کسٹمر کو لوٹ کر با آسانی فرار بھی ہو گئے۔ جس پر چاروں طرف کھلبلی مچ گئی۔ لیکن اب کیا فائدہ، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ اس کے بعد جب میری سی این جی بھرنے کی باری آئی تو ملازمین سے خراب سیکیورٹی کا شکوہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ صاحب یہ کوئی پہلی واردات نہیں ہے ہم ان سیکیورٹی والوں کو سمجھا سمجھا کر تھک گئے ہیں کہ ڈہو ٹی ہوشیاری سے کرو۔ بار بار گارڈ بدلے بھی جا چکے ہیں۔ لیکن ان لوگوں کو جو تنخواہ ان کی سیکیورٹی ایجنسی والے دیتے ہیں وہ اتنی کم ہوتی ہےکہ یہ صرف وقت گزارتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ اپنی جان کو اتنی قلیل تنخواہوں کی سبب داؤ پر لگانے کا ان کے یہاں کوئی تصور نہیں ہے۔ میں نے پوچھا کہ ان کی کمپنیاں انکو تنخواہ کتنی دیتی ہیں تو پتہ چلا آٹھ دس ہزار یا اس سے بھی کم۔ کیا ہمارے ارباب اختیار اپنے کان، ناک، آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں، محکمہ پولیس تو پہلے ہی ناکارہ ہے، کروڑوں شہریوں کو ہاتھ پیر باندھ کر ڈاکوؤں کے رحم و کرم پر ڈالا ہؤا ہے۔ کیا ہمارے عوامی نمائندے اتنا بھی نہیں کر سکتے کہ قانون سازی کرکے تمام پرائیوٹ سیکیورٹی ایجنسیوں کو پابند کریں کہ وہ اپنے گارڈز کو “ ٹیک ہوم “ تنخواہ کم سے کم بیس ہزار روپے ادا کریں تاکہ کچھ تو ان میں ذمہ داری کا احساس پیدا ہو، اور اس طرح بانجھ پولیس کی کمی کسی حد تک تو پوری ہو۔ مگر لگتا ہے کہ ہمارے نمائندے اسمبلیوں میں صرف اپنے بل وصول کرنے جاتے ہیں، باقی رہے عوام تو وہ ڈاکوؤں کے رحم و کرم پر پڑے رہیں، انکو کیا پروا۔

Ather Ali Waseem
About the Author: Ather Ali Waseem Read More Articles by Ather Ali Waseem: 53 Articles with 61392 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.