بچے دو ہی اچھے

عجیب بات ہے جوں جوں میڈیا پر بہبود آبادی کے اشتہار بڑھ رہے ہیں۔ ملک کی آبادی بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ پہلے محکمے کان ام خاندانی منصوبہ بندی تھا۔ منصوبہ بندی ہماری کمزوری ہے۔ چاہے پانچ سالہ منصوبہ بندی ہو، یا دس سالہ منصوبہ بندی ہو۔ یا محبوب الحق کا منصوبہ بندی کمیشن یا کالاباغ ڈیم کا منصوبہ ہم نے کسی منصوبہ بندی کو قبول نہیں کیا۔ سو ہم نے محکمے کا نام بدل دیا۔ بہبود آبادی کا نام شوگر کوٹیڈ ہے۔ اس سے کام کا پتہ نہیں چلتا۔ پھر ہم نے کم آبادی خوش حال گھرانہ کو سلوگن اپنایا۔ ۱۷ میں مشرقی پاکستان جدا ہوا تو ملک کی آبادی کا اندازہ ۶ کروڑ تھا۔ کم آبادی خوش حال گھرانے کی جستجو میں ہم نے اپنی آبادی میں دن دگنا ہی اضافہ کیا۔ اس وقت خیال تھا کہ شاید لوگوں کو کم آبادی کی تعریف میں دھوکہ ہوا ہے۔ پہلے گھروں پوری کرکٹ ٹیم ہوا کرتی تھی۔ میچ کھیلنے کے لئے لوگ گھروں میں خود کفیل تھے۔ جب چاہا میچ رکھ لیا۔ اماں ابا ریفری کے فرائض انجام دے لیا کرتے تھے۔ اب سوچا گیا کہ کیوں نا بچوں کی تعداد مقرر کردی جائے۔ اس لئے بچے دوہی اچھے کا سلوگن وجود میں لایا گیا۔ دو اچھے بچوں کی جستجو اور محنت میں آبادی اتنی بڑھی کہ اب ہم اس پیداوار میں خود کفالت سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں۔ اب ہم بچے اسمگل بھی کرتے ہیں۔ بچے فروخت بھی کرتے ہیں۔ بچوں سے مزدوری بھی کراتے ہیں۔ بچوں کو اونٹ کی دوڑ میں حصہ لینے کے لئے اسے پاس پڑوس کے ملکوں کو بھی بھیج دیتے ہیں اور جو بچے فالتو بچ جاتے ہیں ان کو آبادی کم کرنے کے جدید طریقوں میں یعنی خودکش بمبار میں استعمال کرتے ہیں۔ امریکی تھنک ٹینک نے یہ جدید ٹیکنالوجی مسلمان ملکوں کے لئے ایجاد کی ہے۔ وہ خود تو شادی کے بندھن سے آزاد ہوگئے ہیں۔ ہم جنسیت کہاں سے آبادی پیدا کرے گی اور ویسے بچوں کی جو فوج تیار ہوئی ہے۔ وہ دنیا بھر میں جنگ و جدل میں مصروف ہے۔

اب امریکہ کو خیال آیا ہے کہ کیوں نہ پاکستان میں بچوں کی پیدائش پر ہی پابندی لگا دی جائے۔ اس لئے قومی اسمبلی میں زیادہ بچے پیدا کرنے پر ٹیکس لگانے کی تجویز پیش کی گئی ہے وفاقی وزیر بہبود آبادی فردوس عاشق اعوان بہت دور کی کوڈی لائی ہیں کہ بڑھتی ہوئی آبادی کا عنصر دہشت گردی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ لہٰذا پارلیمنٹ زیادہ بچے پیدا کرنے پر ٹیکس عائد کرنے کے حوالے سے پالیسی بنائے حکومت اسے نافذ کرنے کو تیار ہے۔ کل قومی اسمبلی کے اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ غربت اور ناخواندگی کی وجہ سے لوگ ایسے عناصر کے ساتھ مل جاتے ہیں جو انہیں منفی سرگرمیوں میں استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ بچے پیدا کرنے پر ٹیکس عائد کرنا ہے تو اس کا آغاز ارکان پارلیمنٹ سے کیا جائے انہوں نے کہا کہ حکومت آبادی پر کنٹرول کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی اور اس حوالے سے وہ اپنی کوتاہی کو قبول کرتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ بحیثیت قوم ہم سب کو اپنی اپنی کوتاہی کو قبول کرنا چاہئے۔ یہ وہ کوہتایاں ہیں، جو آپ کے گھروں کی رونق، خوشیوں کا منبع، گلشن کے پھول، اور مستقبل کا عکس ہیں۔ ان پھولوں کو انگاروں میں تبدیل کیا ہے۔ تو اس میں قصور کس کا ہے۔ ان پھولوں کو کیا ہم نے مفت تعلیم، روٹی، سر چھپانے کی جگہ دی ہے۔ پھر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آپ تو اس دنیا میں آکر خوب مزے لوٹیں اور آنے والے بچوں پر پابندی لگا دیں کہ وہ اس دنیا میں نہ آئیں۔ یہ نظام قدرت ہے۔ اس میں فرعون نے بھی مداخلت کرنے کی کوسش کی تھی۔ لیکن وہ موسیٰ کی آمد کو نا روک سکا۔ پارلیمنٹ بھی یہ کوشش کرکے دیکھ لے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 418965 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More