مملکتِ خداداد! اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حالا اب اس قدر
ابتر ہو چکے ہیں کہ شہر ہو یا گاؤں عورت کہیں بھی محفوظ نہیں رہی، عورت ہی
کیا اب تو درندہ صفت افراد معصوم بچیوں کو بھی نہیں بخشتے۔ کئی دنوں سے آپ
سب نے پانچ سالہ معصوم سنبل کی کہانی میڈیا پر تسلسل کے ساتھ دیکھ رہے
ہونگے، کیا ایسی گھناؤنی حرکت کسی مسلم ملک کو زیب دیتی ہے، کس کس طرح اور
کیسے کیسے معاملے ہمارے ملک میں جنم لے رہے ہیں اور ہم دنیا بھر میں اپنا
اور اپنے ملک کی ساکھ کو بدنام کر رہے ہیں، شہر یا گاؤں عورت سے چھیڑ چھاڑ
اور زیادتی کے واقعات تو لوگ سنتے ہی رہتے ہیں ، افسوس کے جس عورت کی کوکھ
سے مرد جنم لیتا ہے وہ اسی کا اُجاڑنے کے در پے کیوں ہو جاتا ہے۔ وہ اس بات
کو یکسر فراموش کر جاتا ہے کہ عورت ماں، ہو تو سراپا دعا، بیٹی ہو تو حیاء،
بہن ہو تو درد آشنا اور بیوی ہو تو مہرِ وفا ہے۔ شاعرِ مشرق علامہ محمد
اقبال ؒ فرما گئے ہیں:’’وجودِ زن سے تصویرِ کائنات میں رنگ‘‘
جس سے تصویرِ کائنات میں رنگ ہے، اس رنگ میں بھنگ کرتے ہوئے چند شیطان صفت
انسان اور وحشی نما درندے آئے دن اس کی عصمت کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے قطعی
نہیں سوچتے کہ جس کے ساتھ وہ اپنا منہ ہی نہیں آپنی آخرت بھی کالی کر رہے
ہیں، وہ ان کی ماں، بہن اور بیٹی بھی تو ہو سکتی ہے۔ پھر ایک بار لاہور میں
کسی معصوم بچی کی عزت کو رسوا کیا گیا، جو ابھی نہ صرف نابالغ تھی بلکہ اسے
ان معاملوں کا علم بھی نہیں تھا، وہ تو معصوم کومل پھولوں کی مانند تھی، یہ
چند ہوس پرست وحشیوں نے جنگل کے درندوں کو بھی شرمسار کر دیا ہے۔
خواتین کے ساتھ اجتماعی عصمت ریزی، بد سلوکی اور چھیڑ چھاڑ جیسے واقعات پر
نظر ڈالی جائے تو پڑوسی ملک کا چہرہ ایشیامیں زیادہ داغدار نظر آتا ہے، مگر
ہم مسلمان ہیں، اسلامی ملک میں رہتے ہیں، اسلام کے شیدائی ہیں، پاکستان کا
مطلب کیا ’’ لا الٰہ الا اللّٰہ ‘ محمد رسول اللّٰہ‘‘کا نعرہ بلند کرتے ہیں
اور پھر اس طرح کی گھناؤنی حرکات سے اپنے ہی ملک اور اپنے ہی لوگوں کا چہرہ
داغدار بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، ہمارے یہاں عریانیت کو اس قدر ہوا
دی جارہی ہے کہ خود تہذیب کی ہوا بگڑ چکی ہے، فیشن کے نام پر آج کی ماڈرن
خیالات کی حامل عورت نے تو جیسے گھلے گوشت اور گرم گوشت کی دکانیں کھول
رکھی ہیں ، ان سے جب کہا جاتا ہے کہ وہ نیم عریاں لباس نہ پہنیں تو وہ بھڑک
اٹھتی ہیں اور جس نے یہ بات کہہ دی اس کا جینا اس حد تک حرام کرکے رکھ دیا
جاتا ہے کہ وہ بیچارہ معافی مانگنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ حالانکہ انہیں یہ
بھی سوچنا چاہیئے کہ نیم عریاں لباس زیب تن کر کے اور ناچ گانوں کی محفلیں
سجا نے سے بھی اسلام نے منع فرمایا ہے۔
عصمت ریزی کے خلاف شعور بیدار کرنے کے لئے ایک معروف ماڈل نے فوٹو شوٹس کیے
ہیں ، ایک تصویر میں وہ نیم عریاں لباس زیب تن کیے بڑی شان سے جنگل میں
کھڑی ہے اور اس کے قریب کھڑے خونخوار شیر صاحب فرما رہے ہیں: ’’ ڈرو مت،
میں آدمی جیسا درندہ نہیں ہوں۔‘‘ایک اور تصویر میں محترمہ ماڈل صاحبہ ادھ
ننگے کپڑوں میں کھڑی ہیں اور کہہ رہی ہیں: ’’ مجھ سے یہ مت کہو کہ میں کپڑے
کیسے پہنوں، بلکہ ’’ اُن سے کہو کہ وہ ریپ نہ کریں!‘‘اس بات سے بھلا کون
انکار کر سکتا ہے کہ عورت جب بے پردہ ہوکر باہر نکلتی ہے تو پھر وہ عورت
نہیں بلکہ بہت سی بری نظروں کے لیے تفریح کا سامان بن جاتی ہے، کیا یہ بات
انہیں نہیں معلوم کہ اسلام نے عورت کو دیگر مذاہب کے مقابلے میں سب سے
اعلیٰ مقام و رتبہ عطا کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ بے راہ روی کی شکار خواتین تک
اسلام کی آغوش میں پناہ لے کر روحانی سکون حاصل کرتی ہیں۔ حال ہی میں زیرِ
جامہ بلبوسات کی ماڈلنگ کرنے والی ممتاز چوبیس سالہ برطانوی خاتون کارلی
واٹس نہ صرف مشرف بہ اسلام ہوئیں بلکہ انہوں نے تیونس کے اپنے بوائے فرینڈ
محمد صالح سے شادی بھی رچالی۔ کارلی واٹس کہتی ہیں کہ اسلامی اصول و اقدار
دیکھ کر انہیں بے حد روحانی مسرت ہو رہی ہے۔ اسلامی معاشرہ میں خواتین کو
جو عظمت اور احترام کا درجہ دیا جاتا ہے، اس کا مغربی معاشرے میں تصور بھی
نہیں کیا جا سکتا۔ یہ وہ بنیادی سبب ہے جس کی وجہ سے غیر مسلم خواتین اسلام
کی طرف راغب ہو رہی ہیں۔ حجاب مغربی خواتین کے لیے ایک مہذب اور عفت و عصمت
کے محافظ کے طور پر مقبولیت حاصل کرتا جا رہا ہے۔ نہ صرف عام عیسائیوں بلکہ
مختلف شعبۂ حیات کی ممتاز شخصیتیں بھی اسلام کے دامن میں پناہ لے رہی ہیں
اور یہاں اسلامی تعلیمات سے عاری چار درندوں نے گھناؤنے جرم کا ارتکا کر
ڈالا ، اب آپ ہی بتایئے کہ یہ نو مسلم لوگ جو ابھی ابھی مسلمان ہوئے ہیں وہ
کیا امیج ہمارے بارے میں ذہن کے گوشوں میں بنائیں گے؟
جب جب ملک میں کہیں بھی عورت پر ظلم و زیادتی کے واقعات رونما ہوتے ہیں،
شرفا نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آتے ہیں تو خواتین موم بتیاں جلا کر
اپنے دل کے جلنے کا احساس دلاتی ہیں، پارلیمنٹ میں سیاست داں ہنگامہ برپا
کرتے ہوئے سخت سے سخت قانون بنانے کی وکالت کرتے ہیں اور پھر وقت گزرنے کے
ساتھ ساتھ سارے کا سارا معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ہو جاتا ہے۔
اسلام ہمیں ایک اور سبق کا بھی درس دیتا ہے کہ وہ باتیں یا وہ حرکات جس سے
کسی کی عزت اچھل جانے کا خدشہ ہو اس پر پردہ ڈال دو۔ مگر ہمارے یہاں اگر
کوئی واقعہ ہو جائے تو ہمارے میڈیا والے اس قدر واویلا مچاتے ہی کہ بات
پردے میں رہنا تو کُجا سات پردوں سے بھی باہر نکل آتا ہے، اور پھر اس قدر
خبریں چلائی جاتی ہیں کہ لوگ فیملی کے ساتھ بیٹھ کر خبریں بھی دیکھنا گوارا
نہیں کرتے۔
ہم یہ بات کیوں بھول رہے ہیں کہ سڑکوں پر نکل کر نعرے لگانے سے زنا کاروں
کا مردہ ضمیر زندہ ہوگا اور نہ ہی جلتی ہوئی موم بتیوں سے ان کے تاریک دل
روشن ہوں گے۔ جب تک اس طرح کے گھناؤنے واقعے میں ملوث درندوں کو کھلے عام
پھانسی نہ دی جائے تاکہ دوسوں کو عبرت ہو۔ اس طرح کے اخلاق سوز واقعات کو
روکنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے گناہ کی سنگینی کو
ملحوظ رکھتے ہوئے زنا کار کو اس وقت تک سنگسار کرنے کا حکم دیا ہے جب تک کہ
وہ مر نہ جائے۔عورت پر ہمیشہ سے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے رہے ہیں،
چنانچہ ساحر لدھیانوی نے ایک خاتون کی بے بسی کو بڑے درد ناک انداز میں پیش
کیا ہے، پوری غزل تو نہیں مگر یہاں پر چند شعر ضرور قلم بند کرنا چاہوں
گا۔اور اس دعا کے ساتھ اختتام کلام کرنا چاہوں گا کہ اﷲ اس درندوں کو ہدایت
نصیب کر دے اور اگر ان کے نصیب میں ہدایت نہیں تو انہیں نیست و نابود کر دے
جو ہمارے ملک پر کلنک بن کر جی رہے ہیں۔
لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں
روح بھی ہوتی ہے اس میں، یہ کہاں سوچتے ہیں
روح کیا ہوتی ہے اس سے انہیں مطلب ہی نہیں
وہ تو بس تن کے تقاضوں کا کہا مانتے ہیں |