عبداللہ بن مبارک ایک مشہور بزرگ
تھے ان کا معمول تھا کہ ایک حج کرتے، دوسرے سال خدا کی راہ میں جہاد کرتے
اور تیسرے سال تجارت کرتے۔ اس تجارت سے انہیں جو نفع ہوتا، وہ اپنے شاگردوں
اور دوسرے ضرورت مند لوگوں میں تقسیم کردیتے تھے ۔ ایک دفعہ وہ حج کے لئے
گئے۔ حج سے فارغ ہوگئے تو تھوڑی دیر کے لئے کعبہ شریف میں لیٹ گئے اور ان
کی آنکھ لگ گئی۔ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ دو فرشتے آسمان سے اترے ہیں،
ایک فرشتے نے دوسرے فرشتے سے پوچھا ”اس سال کتنے لوگ حج کے لئے آئے ہیں؟ “”
دوسرے فرشتے نے جواب دیا ۔’ پہلے فرشتے نے پھر پوچھا ۔”ان میں سے کتنے
لوگوں کا حج قبول ہوا ہے ؟“ دوسرے فرشتے نے جواب دیا ۔”کسی کا بھی قبول
نہیں ہوا ۔“فرشتے کی یہ بات سن کر عبداللہ بن مبارک کو بہت رنج ہوا۔ انہوں
نے سوچا کہ اتنے لوگ جو دور دور سے آئے ہیں اور سفر کی ہزاروں تکلیفیں اٹھا
کر یہاں پہنچے ہیں۔ ان سب کی تکلیف اور محنت بے کار گئی۔ اتنے میں اس فرشتے
نے پھر کہا ۔”دمشق کے شہر میں ایک موچی رہتا ہے۔ اس کا نام علی ہے اوروہ
موفق کا بیٹا ہے۔ وہ حج کرنے نہیں آیا ہے لیکن اس کا حج قبول ہوا ہے۔ اور
اللہ تعالیٰ نے اس کی وجہ سے ان سب لوگوں کو بخش دیا ہے جو یہاں حج کرنے
آئے ہیں ۔“ اس کے بعد عبداللہ بن مبارک کی آنکھ کھل گئی۔ اپنے خواب کے
متعلق سوچا تو فوراً جی میں کہا کہ مجھے دمشق جانا چاہیے اور اس شخص کی
زیارت کرنی چاہیے جس کا نام فرشتے نے علی بن موفق بتایا ہے۔ یہ سوچ کر وہ
دمشق کی طرف روانہ ہوگئے۔ دمشق پہنچ کر انہوں نے اس شخص کا گھر تلاش کیا
اور دروازے پر جا کر دستک دی۔ اندر سے ایک شخص نکلا۔ انہوں نے اس سے پوچھا
”بھائی ،آپ کا نام کیا ہے؟“ اس شخص نے جواب دیا ۔”علی بن موفق “ عبداللہ بن
مبارک بولے ۔”آپ کیا کام کرتے ہیں؟“ وہ شخص کہنے لگا ۔” میں جوتیاں گانٹھتا
ہوں۔ “ اس پر عبداللہ بن مبارک نے اپنا خواب بیان کیا۔ اس شخص نے کہا ۔” آپ
کون ہیں؟ عبداللہ بن مبارک نے اپنا نام بتایا تو اس نے ایک آہ کھینچی۔
عبداللہ بن مبارک نے کہا ” کیا آ پ مجھے اپنے حالات بتائیں گے؟“ اس شخص نے
کہا ۔” اے عبداللہ، مجھے تیس سال سے حج کی خواہش تھی۔ میں جوتیاں سی سی کر
رقم جمع کرتا رہا۔ اس طرح میرے پاس تین ہزار درہم جمع ہوگئے۔ اس سال میں نے
حج کا ارادہ کیا، میری بیوی کے ہاں بچہ ہونے والا تھا۔ ایک روز اس نے مجھ
سے کہا ”آج پڑوسی کے گھر سے گوشت کی خوشبو آرہی ہے۔ اس سے میرے لئے کچھ
گوشت مانگ لاؤ۔“ میں پڑوسی کے ہاں گیا اوراس سے سالن مانگا تو وہ کہنے لگا
۔ ”سات دن سے میرے بچوں نے کچھ نہیں کھایا تھا ۔ فاقے سے ان کی جان نکلی
جارہی تھی۔ اتفاق سے میں نے ایک جگہ دیکھا کہ ایک گدھا مرا پڑا ہے ۔ میں اس
کا تھوڑا ساگوشت کاٹ لایا اوراس سے سالن بنایا ہے۔ یہ سالن تمہارے لئے حلال
نہیں ہوسکتا ۔“ پڑوسی کی بات سن کر میں نے اپنے آپ سے کہا ۔”بدبخت، تیرے
پاس تین ہزار درہم ہیں اور تجھے یہ معلوم نہیں کہ تیرے پڑوسی کے بچے سات دن
سے فاقے سے ہیں۔ “ میں اسی وقت گھر سے وہ تین ہزا ر درہم اٹھا لیا اور اپنے
پڑوسی کو دیتے ہوئے کہا۔ ”یہ لو اور ان سے اپنے بال بچوں کاخرچ چلاؤ میرا
حج یہی ہے۔ “عبداللہ بن مبارک نے موچی کی یہ داستان سنی تو کہنے لگے۔” میرا
خواب سچا تھا۔ وہ فرشتے سچ کہتے تھے ۔“
یہ واقعہ تو تاریخ کا ایک حصہ بن چکا ہے، لیکن ایسے کتنے واقعات آج کے دہر
میں روزآنہ ہمارے سامنے سے گزرتے ہیں، یہ ضرور دیکھا جائے کہ کوئی پڑوسی،
عزیز و اقربا ، دوست یا جاننے والا کسی اضطراری عالم کا شکار تو نہیں۔
دوسروں کی ضرورتوں کا احساس تو ہر وقت طاری رہنا چاہیے۔ حقوق العباد کی
اہمیت جو خود اللہ کے نزدیک ہے اس کا ادراک اس قسم کی کی گئی نیکیوں سے ہی
ہوتا ہے۔ جب ہم صرف ایک وقت کے کھانے پہ اتنا پیسہ لٹاتے ہیں جو کسی گھر کے
لیے ایک ماہ کی بنیادی ضروریات فراہم کر سکتا ہے۔ جب ہم اپنے شادی اور دیگر
تقریبات پر صرف دکھاوے یا نام و نمود کے لیے اتنی رقم لٹاتے ہیں جس سے کم
سے کم دسیوں گھرانے وہ بس سکتے ہیں جو جہیز کی رقم نہ ہونے کی بنا مسائل کا
شکار رہتے ہیں اور بیٹیوں کے سر میں چاندی اتر آتی ہے۔ جب ہم بہتیرے ایسی
تقریبات ایجاد کرتے ہیں یا غیروں کی نقالی کرتے ہیں جس میں رنگ رلیاں منا
کر اپنے ہیجانی نفس کو تسکین فراہم کرسکیں۔ جب ہم بھی دوسروں کے مقابلے میں
اپنے وسیع اور محل نما مکانوں میں تعیش کا ہر وہ سامان فراہم کرتے ہیں جس
سے ہمارے سفلی جذبات کو تسکین میسر آسکے۔ جب ہم اپنے لباس فاخرہ، قیمتی
جوتے اور زیوارت سے لدی ہوئی الماری کو کھول کر یہ جائیزہ لیتے ہیں کہ اب
کون سا برانڈ رہ گیا ہے ہمارے جسم پہ سجنے کو اور کس مغربی الکوحولک پرفیوم
سے اپنے بے ضمیر جسم کے تعفن کو چھپایا جا سکتا ہے۔ ؟ کیا یہ سارے مواقع کم
ہیں اس احساس کو جھنجھوڑنے کے لیے کہ ہماری اپنی دنیا سے الگ کوئی دو وقت
کی روٹی کو ترس رہا ہے ، کوئی اچھا ذہن رکھنے کے باوجود تعلیم حاصل نہیں کر
سکتا کہ وہ سکولوں کی فیس نہیں دے سکتا ، کوئی گرمی و گردو غبار میں اپنے
جھلستے ہوئے کچے گھروں میں زندہ رہنے کی کوشش کر رہا ہے، کوئی برسات میں
اپنے گھلتے و لٹتے ہوئے گھر کو سمیٹ رہا ہے، کوئی پینے کے پانی کو بھی ترس
رہا ہے، کسی کے لیے ہر بیماری جان لیوا ہے کہ اس کے پاس علاج کی سہولت میسر
نہیں۔ اور یہ سب لوگ ہمیں ایسے دیکھتے ہیں جیسے کہ ہم کسی اور دنیا کے
مخلوق ہوں، انہیں کیا پتہ کہ ہم ہی تو ہیں جنہوں نے زیادہ سے زیادہ کی ہوس
میں اپنے لیے ایسی جنت اس دنیا میں ہی بنا لی ہے کہ آخرت کے تصوراتی جنت کی
ضرورت باقی نہیں رہی چاہے اس کے لیے ہمیں دوسروں کو دوزخ میں ہی دھکیلنا
کیوں نہ پڑے۔ ہم یہ سب کچھ اس وقت سوچیں جب ہمیں اپنے فیشن پریڈ سے فرصت
ملے، ہمیں اپنے جبہ و دستار سے چھٹکارا ملے ، ہمارے کان قال قال کے فریب سے
اُکتا جائیں اور ہم اپنے حال میں واپس لوٹ آئیں۔ |