فرانسیسی صدر سرکوزی نے قومی اسمبلی میں یہ
اعلان کر ے مسلم دنیا کے جذبات میں ایک بار پھر طلاطم پیدا کردیا ہے کہ
برقعہ فرانس میں قابل قبول نہیں ہے کیونکہ یہ خواتین کو قیدی بنا دیتا ہے۔
فرانسیسی صدر نکولا سرکوزی نے برقعے کے خلاف اپنے خیالات کا اظہار کرتے
ہوئے کہا کہ برقعہ کوئی مذہبی علامت نہیں ہے بلکہ یہ خدمت گزاری کی ایک
علامت ہے جو فرانس کی اقدار کے خلاف ہے۔ یورپ میں مسلمانوں کی سب سے بڑی
تعداد فرانس میں آباد ہے۔ فرانس میں مسلمان خواتین کی بہت ہی معمولی تعداد
برقعہ اوڑھتی ہے۔ جس کے بعد فرانسیسی پارلیمنٹ نے ایک کمیشن قائم کرنے کا
فیصلہ کیا ہے جو برقعہ اوڑھنے والی مسلمان خواتین کے بارے ایک مطالعاتی
جائزے کا اہتمام کرے گا۔ مسٹر سرکوزی کی تقریر 136 سال میں کسی فرانسیسی
صدر کی ورسائلس پیلس میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے پہلا خطاب تھا۔
فرانسیسی قانون میں اس سے قبل اختیارات کی تقسیم کے تحفظ کے پیش نظر صدر
پرپارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے خطاب پر پابندی تھی۔ صدر کا خطاب اس آئینی
ترمیم کے باعث ممکن ہوا جسے مسٹر سرکوزی کے گزشتہ سال متعارف کرایا تھا۔
مغرب خصوصاً یورپی ممالک میں گزشتہ کئی برسوں سے حجاب، برقعہ، پردہ جو
مسلمانوں کی مذہبی اقدار کا ایک حصہ تصور کئے جاتے ہیں۔ ایک منظم فکر کے
ساتھ استہزا، پابندی، کا سامنا ہے۔ مغربی ممالک میں نقاب کا معاملہ بار بار
اٹھایا جارہا ہے۔ گزشتہ عرصے میں کینیڈا کی ایک سو پچاس سالہ تاریخ میں
پہلی مرتبہ مسلمان خواتین کے برقعہ یا نقاب پہن کر ووٹ ڈالنے کے مسئلہ پر
بحث کی گئی۔ صوبہ انٹاریو میں صوبائی انتخابات سے قبل نقاب کے مسئلے کو
چھیڑا گیا۔ کینیڈا میں مختلف نسلوں اور مذاہب کے لوگ کثرت میں ہیں۔ کینڈا
کے وزیر اعظم نے اس موقع پر کہا تھا کہ یہ ان کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ
الیکشن کمیشن کو برقعہ پوش خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دینے کی کیا ضرورت
تھی۔ اس کے جواب میں الیکشن کمیشن کے سربراہ مارک میرانڈ نے کہا کہ اس
معاملے میں حکومت کوئی پابندی حائل نہیں کرسکتی کیونکہ جب پارلیمنٹ سے
الیکشن کمیشن آف کینیڈا نے کچھ عرصہ قبل سفارشات طلب کی تھی تو اس وقت
پارلیمنٹ نے کوئی واضح ہدایات جاری نہیں کی۔ کینیڈا سے مسلم کینیڈین
کانگریس کی رہنما فرزانہ حسن نے کہا ہے کہ برقعہ اور نقاب کو اسلامی ملبوس
کے طور پر پیش کرنا ایک ’بےہودہ مذاق‘ ہے۔ اس دوران الیکشن کمیشن کمشنر
مارک میرانڈ نے باپردہ مسلم خواتین کی شناخت کے مسئلے پر کسی قسم کے حکومتی
دباؤ اور پارلیمنٹ کمیٹی کا مشورہ ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ کینیڈا
کی مسلمان شہری خواتین پردے میں رہتے ہوئے ووٹ ڈال سکتی ہیں کیونکہ کینیڈا
میں انتخابی قوانین اس کی اجازت دیتے ہیں۔ ان قوانین کے مطابق ووٹر اپنی
شناخت باتصویر سرکاری دستاویزات پیش کر کے کر سکتا ہے اور اگر اس کے پاس
تصویری شناخت نہیں ہے تو پھر بھی وہ اپنے پتہ کی تصدیق کرتے ہوئے بیان حلفی
اور ایک ضامن کے حلفی بیان دینے پر ووٹ ڈالنے کا مجاز ہے۔ الیکشن کمشنر کا
کہنا تھا کہ قانون میں یہ گنجائش اس لئے رکھی گئی ہے کہ کوئی بھی شہری ووٹ
کے حق سے محروم نہ رہے۔ اس کے علاوہ پریمئیر نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ
اونٹاریو کے انتخابات میں انکے لئے نقاب یا پردہ کوئی مسئلہ نہیں ہے اور
انہیں کوئی اعتراض نہیں اور نہ ہی وہ یہ شرط رکھیں گے کہ خواتین اپنے نقاب
الٹ کر چہرہ دکھائیں۔ نقاب کا مسئلہ انتخابات ہی میں نہیں بلکہ بچوں کے
کھلونوں میں بھی زیر بحث رہا ۔
باپردہ گڑیا ’باربی‘ کے متعارف کرانے سے ایک اور بحث چل نکلی۔ بہت سے
تاجروں کا کہنا تھا کہ با پردہ باربی گڑیا کوعرب ممالک میں بہترین رسپانس
ملا۔ مصر کے کھلونوں کے بازار میں ’باربی‘ کے انداز سے ہٹ کر پردے والی
گڑیا نے زیادہ مقبولیت حاصل کی۔ اس کے خالق نے اس گڑیا کو ’اسلامی اقدار‘
کی حامل قرار دیا ہے۔ اس گڑیا کا نام ’فلا‘ رکھا گیا تھا۔ یہ گڑیا ایک
روایتی اسلامی سکارف اور برقعے میں ملبوس ہے۔ اس کے پاس اس کا اپنا گلابی
رنگ کا جائے نماز بھی ہے۔ جو والدین اپنے بچوں کو باربی لے کر دینا نہیں
چاہتے انہوں نے بھی ’فلا‘ کو ترجیح دینا شروع کردی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ
تمام مسلم دنیا میں مقبول ہوگئی۔ اسے اسلامی اقدار کے مطابق بنایا گیا تھا۔
قاہرہ کے ایک بڑے سٹور کے چیف سیلزمین طارق محمود کا کہنا تھا کہ ’فلا کی
مانگ زیادہ ہے کیونکہ یہ ہماری عرب ثقافت کے قریب ہے، یہ کبھی اپنا بازو یا
ٹانگ ننگی نہیں کرتی‘۔ مسلمان خواتین میں سکارف پہننے کے نئے جذبے کے
ابھرنے کے ساتھ ہی مسلمان پچیوں کے لیے مخصوص کھلونے بنانے کا رواج کو بھی
فروغ ملا ۔برطانیہ میںایک مسلمان طالبہ کے نقاب کے مقدمے نے بھی بڑی شہرت
پائی۔
بارہ سالہ طالبہ نے بکنگھم شائر سکول میں نقاب سے پورے چہرے کو ڈھانپنے پر
عائد پابندی کو کورٹ میں چیلنج کیا تھا تاہم جج نے سماعت کے بعد مقدمے کو
خارج کر دیا۔ لڑکی کے وکیل اور والد کا کہنا ہے کہ نقاب پر پابندی ہر
اسلامی اور انسانی حق کی خلاف ورزی ہے۔ وکیل کا کہنا ہے کہ عدالتی فیصلے سے
لڑکی اور ان کے خاندان والوں کو ’شدید مایوسی‘ ہوئی ہے۔ کینیڈا میں مختلف
نسلوں اور مذاہب کے لوگ کثرت میں ہیں کینیڈا میں مختلف نسلوں اور مذاہب کے
لوگ کثرت میں ہیں اب لڑکی کو گھر پر ہی تعلیم حاصل کرنا ہوگی۔ کیونکہ اسکول
کی یونیفارم پر اس تنازعے کے بعد اس کے لیے سکول میں تعلیم حاصل کرنا دشوار
ہوگا۔ اسکول میں تیرہ سو طالب ِعلموں میں ایک سو بیس مسلمان طالبات ہیں اور
ان میں سے آدھی حجاب لیتی ہیں۔ سابق برطانوی وزیر خارجہ اور دارالعوام کے
قائد جیک سٹرا نے اپنے ایک مضمون میں مسلم خواتین کی طرف سے چہرے کو نقاب
سے مکمل طور پر چھپانے کے عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سے مختلف
’برطانوی کیمیونٹیز‘ کے درمیان بہتر اور مثبت تعلقات میں مشکل پیش آرہی ہے۔
اخبار ’لنکا شائر ایوننگ ٹیلی گراف ‘ میں جیک سٹرا لکھتے ہیں کہ چہرہ
چھپانا ’خود کو علیحدہ اور مختلف دکھانے کا ایک نمایاں عمل ہے‘۔وہ کہتے ہیں
کہ خواتین جب انہیں دفتر میں ملنے آتی ہیں تو وہ انہیں نقاب اتارنے کا کہتے
ہیں تاکہ ’واقعی منہ در منہ بات ہو سکے۔ میرے خدشات بے جا بھی ہوسکتے ہیں
لیکن بہر حال یہ ایک مسئلہ ہے‘۔ جیک سٹرا بلیک برن کے علاقے سے منتخب ہوتے
ہیں جہاں ایک چوتھائی آبادی مسلمان ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’ فون کال اور خط کے
مقابلے میں ایک ملاقات کی اہمیت یہ ہے کہ آپ مخاطب کو صرف سن نہیں رہے ہوتے
بلکہ اسے دیکھ بھی رہے ہوتے ہیں کہ حقیقت میں وہ کہنا کیا چاہ رہا ہے
برطانیہ کے مسلمانوں میں ان بیانات کے بارے میں شدید رد عمل ہوا تھا۔
جیک سٹرا کے بیانات ان کے حلقے بلیک برن کے ایک دکاندار نسیم صدیقی کے لیے
خوش خبری ثابت ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان بیانات کے وجہ سے ان کی دکان پر
نقابوں کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے اور انہوں نے اس سے پہلے اِتنی تعداد میں
نقاب کبھی فروخت نہیں کیے۔ مسٹر صدیقی کی دکان علاقے میں سب سے زیادہ نقاب
فروخت کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے ’پہلے میں ہفتے میں صرف دو یا تین نقاب بیچتا
تھا لیکن اب میں ہفتے میں پانچ یا چھ فروخت کرتا ہوں۔ میری زیادہ تر خریدار
نوجوان برطانوی مسلمان لڑکیاں ہیں۔ یہ لڑکیاں نقاب پہننے کا تجربہ حاصل
کرنا چاہتی ہیں۔ ان کی مائیں پردہ نہیں کرتی ہیں لیکن وہ پردہ کرنا چاہتی
ہیں۔‘ یقیناً جیک سٹرا اپنے بیان کے اس ردِ عمل کی تو قع نہیں رکھتے۔ انہوں
نے ایک مقامی اخبار میں مضمون لکھا تھا کہ ان کو مسلمان خواتین سے بات کرتے
ہوئے دشواری ہوتی ہے جو میں نقاب پہن کر ان کے دفتر آتی ہیں۔ برطانیہ کی
مسلم کمیونٹی نے جیک سٹرا کے بیانات کی مذمت کی تھی ۔ زیادہ تر برطانوی
مسلمان اس نظریے کو قبول نہیں کرتے ہیں کہ نقاب سے برطانیہ میں بسنے والی
مختلف برادریوں کے تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں اور اِس کی وجہ سے لوگ ایک
دوسرے سے دور ہورہے ہیں۔ بلکہ مسلمان یہ محسوس کر رہے ہیں کہ انہیں جان
بوجھ کر خطرے کے نظر سے دیکھا جارہا ہے اور وہ اپنے مستقبل کے بارے میں فکر
مند ہیں۔ ایک برطانوی ناول نگار نائما بی رابرٹس نقاب کے بارے میں تجربات
پر مبنی اپنی کتاب ’میری بہن کے ہونٹوں سے‘ میں کہتی ہیں کہ ’مجھے ڈر ہے کے
نقاب کی بحث برطانیہ کوتبدیل کر دے گی اور برطانیہ فرانس کے طرح بن جائے گا
جس نے حجاب پر پابندی عائد کر دی ہے۔ وہ عورت جو پردہ کرتی ہے معاشرے کی سب
سے بے ضرر فرد ہے۔ وہ شراب نہیں پیتی، سگریٹ نہیں پیتی اور معاشرے میں کسی
دشواری کا باعث نہیں بنتی۔
ندیم صدیقی بتاتے ہیں کہ ان کی دکان پر کچھ دن پہلے ایک آٹھ سالہ لڑکی آئی
تھی۔ وہ ایک نقاب خریدنا چاہتی تھی۔ وہ مجھ سے پندرہ منٹ تک بحث کرتی رہی۔
میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ ابھی بہت چھوٹی ہے۔ آخر کار ہم نے اسے
حجاب پر راضی کر لیا۔ لڑکی کی والدہ حجاب بھی نہیں پہنتیں اور انہوں نے
مجھے بتایا کہ وہ تین دن سے اپنی بیٹی کو سمجھا رہی تھیں کے اسے نقاب کی
ضرورت نہیں ہے۔ جیک سٹرا کے بیانات کے بعد ایسا لگ رہا ہے کہ حوصلہ شکنی
ہونے کی بجائے نقاب پہننے کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے اور ممکن ہے کہ مستقبل
میں نقاب پہننے والی عورتوں کی تعداد برطانیہ میں کم ہونے کی بجائے زیادہ
ہو جائے گی۔ امریکہ میں ایک مسلم خاتون سلطانہ فری مین کا ڈرائیونگ لائیسنس
اس بنا پر منسوخ کر دیا گیا کہ انہوں نے لائیسنس پر لگی تصویر میں نقاب
اوڑھ رکھا ہے۔ مسز فری مین نے امریکی حکام کے اسی نقطہِ نظر کو بنیاد بنا
کر کہ ڈرائیونگ لائسنس پر لگی تصویر نقاب کے بغیر ہونی چاہیے، مقدمہ دائر
کر دیا۔ انہوں نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ یہ کارروائی ان کے مذہبی حقوق کی
آئینی آزادی کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ امریکی حکام نے عدالت سے سلطانہ فری
مین کی جانب سے دائر کردہ مقدمے کو مسترد کرنے کی درخواست کی۔ ریاست
فلوریڈا کے حکام کا مؤقف تھا کہ تصویر میں چہرے پر نقاب پہننے کے باعث
عوامی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ لیکن عدالت نے حکام کی اس اپیل کو خارج
کر دیا اور مسز فری مین کو عدالتی کارروائی جاری رکھنے کی اجازت دی۔ مسز
فری مین امریکی شہری ہیں اور انہوں نے پانچ برس قبل اسلام قبول کیا تھا۔ان
کے وکیل ہاورڈ مارکس نے بتایا کہ گزشتہ برس اِلی نائے سے فلوریڈا منتقل
ہونے کے بعد جب مسز فری مین نے نقاب والی تصویر کے ساتھ لائسنس کی درخواست
جمع کرائی تو انہیں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ مسٹر
ہاورڈ نے کہا کہ گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد فلوریڈا میں موٹر گاڑیوں کے
ادارے نے لائسنس پر لگی تصویر تبدیل کرنے کو کہا تھا۔ وکیل کا کہنا ہے کہ
مسز فری مین کے آزادیِ اظہار کے حق کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
گزشتہ دنوں لندن میں ایک مباحثہ ہوا جس میں یہی موضوع تھا۔ یعنی نقاب لیا
جائے یا نہ لیا جائے۔ اس بحث میں لندن میں مقیم ایک استانی عمرانہ نے کہا
ہے کہ ان کے علم کے مطابق اسلام میں نقاب لینا لازمی نہیں لیکن پھر بھی وہ
ایسا نقاب لیتی ہیں جس سے ان کی آنکھیں تک چھپ جاتی ہیں؟ ان کے محلے لیٹن
میں ستّر سال سے مقیم جِین کہتی ہیں کہ جب ’میں نے کافی سال قبل جب یہاں
پہلی بار نقاب والی لڑکی دیکھی تو دنگ رہ گئی تھی۔ میں نے سوچا میرے ملک
میں یہ کیسے لوگ آ گئے ہیں؟‘ انہوں نے سوال اٹھایا کہ لڑکیاں رنگ برنگے
نقاب کیوں نہیں لیتی، کالا رنگ تو افسردگی کی علامت ہے؟ اسی علاقے کے ایک
گرجا گھر میں تعینات ایک پادری کا کہنا ہے کہ ’میں نے نقاب پہننے کے جواز
سن کر بحیثیت مرد بے عزتی محسوس کی، کیا مجھے یہ بتایا جا رہا ہے کہ میں
عورت کی شکل دیکھ کر اپنے اوپر قابو نہیں رکھ سکتا؟‘ عمرانہ نے اپنا مؤقف
بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ چھ سال پہلے حج پر گئی تھیں جہاں انہوں نے نقاب
پہننے کا فیصلہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ نمازیں اور روزے فرض سے زیادہ
رکھے جا سکتے ہیں تو میں نے پردے کا اہتمام جتنا کرنے کا حکم ہے اس سے بڑھ
کر کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس سے مکمل تحفظ رہتا ہے اور کسی مرد کی طرف سے
تعلقات بنانے کے لیے بات کرنے کا امکان کلی طور پر ختم ہو جاتا ہے۔ انہوں
نے کہا کہ وہ صرف یہ جاننا چاہتی ہیں کہ ان کے کپڑے کا ایک ٹکڑا منہ پر
لینے سے کیا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کبھی کسی نے عریاں
پھرنے والوں پر سوال کیوں نہیں اٹھایا؟ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ نقاب میں
پہچاننا مشکل ہوتا ہے۔
نقاب پہنے ہوئے ایک لڑکی فاطمہ نے یہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ کسی
واقف کار کو نقاب میں پہچانا نہیں جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے محلے
داروں سے گھر میں یا باہر بات کرتی ہیں۔ بچوں کے بارے میں انہوں نے کہا کہ
وہ معصوم ہوتے ہیں اور ان کے تعصبات بھی نہیں ہوتے انہیں کسی کے نقاب پہننے
یا نہ پہننے سے فرق نہیں پڑتا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اکثر پارک جاتی ہیں جہاں
بچوں کے ساتھ وقت گزارتی ہیں۔ انہوں نے کہ سائنسی طور پر ثابت ہو چکا ہے
کسی کو پہچاننے میں آواز کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں بھی برقعہ
اور حجاب کے مسئلہ پر اکثر بحث ہوتی ہے۔ اکثر ترقی پسند اور مغرب کی دلدادہ
خواتین پردے نقاب اور حجاب کے بڑھتے ہوئے رجحان پر پریشان ہیں۔ گزشتہ دنوں
پنجاب یونیورسٹی کی ایک خاتون پروفیسر نے اپنا رونا روتے ہوئے بتایا کہ یہ
پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ان کی پچاس فیصد سے زیادہ طالبات خوفناک
قسم کے برقعے اور حجاب پہن کر کلاسوں میں آرہی ہیں۔ خودکش حملوں کے خطرے کے
پیش نظر حکومت ان برقعہ پوش خواتین سے خوفزادہ رہتی تھی۔ قومی اسمبلی میں
خواتین کے لیے مخصوص نشستوں میں تینتیس فیصد اضافے کو پاکستان کے مردانہ
برتری کے دعویدار معاشرے میں خوش آئندہ اقدام قرار دیا گیا تھا لیکن حجاب
پہنے والی ارکان قومی اسمبلی کی وجہ سے پارلیمان کی حفاظت کے سلسلے میں
مشکلات کا رونا رویا جاتا تھا۔ سیکورٹی والوں کو خطرہ تھا کہ کوئی اجنبی
خاتون کسی بھی وقت کسی خاتون قومی اسمبلی کی جگہ ایوان میں داخل ہو سکتی
ہے۔ قومی اسمبلی اور پارلیمان کی حفاظت سے متعلق حکام کا کہنا ہے کہ ایسا
ممکن نہیں کیونکہ اس خدشہ کے پیش نظر کہ حجاب پارلیمان کی حفاظت پر اثر
انداز نہ ہو، ضروری اقدامات کر لئے گئے ہیں۔ حکام قومی اسمبلی میں برقعہ
اوڑھنے والی خواتین کو آواز سے پہچاننے کے ماہرین موجود ہیں۔ جبکہ داخلے کے
تمام دروازوں پر خواتین عملہ بھی متعین کیا گیا ہے۔ جو بوقت ضرورت کسی بھی
خاتون کو روک کر شناخت کر سکتا ہے۔ ایم ایم اے سے تعلق رکھنے والی ایک رکن
قومی اسمبلی نے نام نہ ظاہر کرنے کی درخواست کرتے ہوئے بتایا کہ انتظامیہ
سے بات چیت کے بعد خواتین اراکین نے نقاب کے بغیر تصاویر بنوا کر اسمبلی کے
حکام کے حوالے کی ہیں تاکہ حفاظتی اقدامات سے متعلق مشکلات دور ہو سکیں۔
حجاب اور پردہ کا یہ معاملہ آج بھی پوری دنیا زیر بحث ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ
مغرب اور مشرق تہذیبوں کی یہ جنگ کہاں جا کر ختم ہو تی ہیں۔ |